Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
افسانے

گلزارؔ حضرتبلی

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: January 28, 2018 1:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
12 Min Read
SHARE
غلام محمد خان متخلص بہ گلزار ؔحضرتبلی درگاہِ شریف حضرتبل کے ایک تاجر کے متوسط تجارت پیشہ گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ان کے اسلاف محنت ومشقت کر کے گزر بسر کرتے تھے۔ نہ کوئی زمین و جائیداد تھی اور نہ کوئی دولت وجاگیر ہی۔زندگی سخت محنت اور مشقت میں گزاری اور حلال کی کمائی پر اپنی اور اپنے اہل و عیال کی پرورش کرتے رہے ۔
گلزار ۲۵؍دسمبر کی رات کو انتقال کرگئے۔ عمر ابھی زیادہ نہ تھی، یہی ستر سال کے آس پاس ہی ۔کشمیر یونیورسٹی میں ملازم تھے اور نوکری سے سبکدوش ہوچکے تھے لیکن آج بھی فعال اور متحرک زندگی گزارنے کے عادی تھے اور مصروف رہتے تھے۔چاک و چوبند بھی اور رواں دواں بھی۔
آج سے لگ بھگ نصف صدی قبل والے کشمیری معاشرے کا تصور کتنا کیف آور اور مسحور کن ہے۔آج کے کشمیری معاشرے سے ہر لحاظ سے بالکل مختلف اور بالکل الگ۔ کئی کئی کنبے ایک ساتھ ایک ہی چھت کے نیچے اطمینان و سکون کے ساتھ زندگی بسر کرتے تھے۔بزرگوں کا احترام تھا، ہر چیز میں برکت تھی۔بے حیائی کا نام و نشان تک نہ تھا اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا مادہ ہر انسان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ اور آج۔۔۔۔۔۔؟یہ سب جیسے عنقا ہوتا جارہا ہے۔پھر بھی شکر ہے کہ کچھ لوگ آج بھی اسطرح کے اور اس طبیعت کے مل ہی جاتے ہیں۔ انہیں میں ایک برادرم مرحوم گلزارؔ صاحب بھی تھے۔مرحوم نے زندگی کے نشیب وفراز کو بہت قریب سے دیکھا تھا، اسلئے ہمت اور حوصلہ ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔سب سے بڑی بات یہ کر ہر ایک کے ساتھ معاملہ فہمی اورنرم گفتاری کے ساتھ پیش آنے میں مزا ہی الگ ہوتا ہے اور ہمیں اسی کی تعلیم بھی دی گئی ہے اور ہر مسلمان کا شیوہ بھی یہی ہونا چاہئے جس کے گلزارؔ صاحب مرحوم ایک عملی پیکر تھے اور ایک مثال بھی۔
بات ان دنو ں کی ہے جب ریڈیو کشمیر سے نوجوانوں کے لئے یو واوانی کے نام سے ایک الگ سروس شروع کی گئی۔ یہ ساتویں عشرے کے آخری اور آٹھویں دہائی کے ابتدائی ایام کی بات ہے، جن دنوں ہم جوان کیا نوجوان ہوا کرتے تھے ۔چونکہ ان دنوں ابھی ٹی وی نہیں آیا تھا اسلئے ریڈیو کی اہمیت اور ہردلعزیزی بہت زیادہ تھی کہ ہر گھر میں ریڈیو سنا جاتا تھا اور بہت ذوق و شوق سے سنا جاتا تھا اور ہر محفل میں ریڈیو کے پروگراموں پر سیر حاصل بحث ہوا کرتی تھی اورنشر ہونے والے پروگراموں پر مفضل مباحثے ہوتے تھے اور ہر شخص اپنی اپنی رائے پیش کرتا تھا۔یووا وانی سے نشر ہونے والے پروگراموں میں خاص طور پر کشمیری مزاحیہ شاعری کو مختلف ابھرتے ہوئے گلوکاروں سے گوائے گئے گانوں کی چار دھام دھوم مچ گئی تھی ا ور روز و شب ہر جانب ان کو سنا جاتا تھا اور شوق سے سنا جاتا تھا۔ یہی وہ دور تھا جب کشمیر کے چپے چپے پر ڈرامیٹک کلب قائم ہونے لگے تھے۔اسی دور میں نئے نئے لکھنے والے شاعر اور گانے والے عام لوگوں سے متعارف ہونے لگے اورشہرت و مقبولیت کی طرف پیش قدمی کرنے لگ گئے ۔
گلزارؔ حضرتبلی مرحوم بھی ان دنوں ماشا اللہ جوان تھے اسلئے انہوں نے بھی ابتدائی ایام میں طنز و مزاح کو ہی اپنا موضوع بنا لیا اور واقعی کچھ ایسے موضوعات کا انتخاب کرلیا جن پر ان کی منظوم کاوشوں کو اس وقت کے معروف گانے والوں نے اپنی خوبصورت آواز او ر نئی نئی طرزوں میں کافی مقبول و مشہور بنا دیا کہ گلزار صاحب راتوں رات مشہور ہوگئے اور ادبی اور علمی حلقوں میں معروف ہونے لگے، حالانکہ شاعری کا شغل اس سے قبل بھی رکھتے تھے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ طنز و مذاح انسان کی سرشت کا حصہ رہا ہے اور ہر زبان کے ادب میں ایک الگ ہی اہمیت و افادیت رہی ہے اور اس کو پڑھنے اور اس سے محظوظ ہونے والوں کا اپنا ایک حلقہ یا طبقہ بھی بہ نفس نفیس موجود ہے۔ غالباً یہ بھی ایک وجہ ہے کہ آج بھی ہر ترقی یافتہ یا پھر ترقی پذیر زبان میں، طنزیہ یا پھر مزاحیہ ادب شدو مد سے تخلیق ہورہا ہے اور یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔ لیکن زندگی کا ادراک کسی نہ کسی مرحلے پر ایک زی حس شاعر کو اُس راہ پر لوٹ آنے پر آمادہ کرتا ہے، جو ٹھوس حقیقتوں پر ہموار ہوتی ہے۔
برادرم گلزارؔ حضرتبلی بھی فوراً ہی پھلجڑیاں بکھیرتی مذاح کی وادیوں سے نکل کر اپنے اصل مقصد کی طرف گامزن ہوگئے اور ان کی فکر وسوچ میں رچا بسا ان کا اصل رنگ ان پر غالب آگیا اور انہوں نے اپنے اصل مقصد و منصب کی طرف مراجعت کرلی اور سنجیدہ شاعری کی طرف اپنی توجہ مبذول کرلی کہ جس کا فوری اثر یہ ہواکہ انہوں نے بہت ہی متاثر کن نعتیہ اشعار تخلیق کئے جو واقعی آج ان کے لئے صدقہ جاریہ ثابت ہورہے ہونگے۔ان کی نعتیہ شاعری کا سنجیدگی سے مطالعہ کرنے سے واقعی آپ بھی اس بات کے قائل ہوجائینگے کہ موصوف کے دل میں حُب رسولﷺ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔اسی محبت وعقیدت سے اس قدر متاثر کن اشعار نعت خواں کے دہن سے نکلتے ہیں اور ہمارا یقیںہے کہ محبت رسول ﷺ ہی مومن کا  اصل سرمایۂ آخرت ہے ۔لاتعداد واقعات اس ضمن میں یاد آرہے ہیں ۔ 
میرے برادرِ محترم محمد امین شاہ صاحب اور احقر لگ بھگ ایک ہی عمر کے ہیں ہم دونوں کی عمر میں یہی کوئی دو تین سال کا فرق ہوگا۔ گلزارؔ صاحب مرحوم کے انتقال کی خبر سن کر ہم آثار شریف درگاہ حضرت بل کے بالکل پڑوس میں اپنے اُس چھوٹے سے آبائی گھر کو یاد کرنے لگ گئے جس میں گلزارؔ صاحب مرحوم بھی والد محترم پیر احسن شاہ پارساؔ سے ملنے آیا کرتے تھے۔ مرحوم کو ابتداء سے ہی طریقت وتصوف کے ساتھ ایک خاص انس اور لگائو تھا حالانکہ یہ ان کی جوانی کے ایام تھے۔رفتہ رفتہ ان کا یہی شوق پروان چڑھا اور آخری دم تک ان کے ساتھ رہا۔
گلزارؔ صاحب کی نعتیہ شاعری کواس بات کی تائید میں پیش کیا جاسکتا ہے، جس میں رسول آخر الزمان ﷺکے ساتھ ان کی والہانہ محبت و اخلاص کا جابجا اظہار ملتا ہے۔ آپ ﷺ کی ذاتِ اقدس کے ساتھ ان کی عقیدت واحترام کا اندازہ بھی بخوبی ہو جاتا ہے۔ درگاہ شریف حضرتبل ابتداء سے ہی دینی ، علمی اور روحانی شخصیات کی لئے مرجع خلائق رہا ہے۔ یہاں ہر دور میں ہر طرح کے مفکرین کا آنا جانا لگا رہا ہے۔اگر ہم یہاں کی تاریخ پر ایک سرسری نظر دوڑائیں تو ہمیں کئی قد آور شخصیات کے بارے میں پتہ چلتا ہے جن میں سے کچھ کی یہیں پر بودوباش رہی ہے اور کچھ دیگر علمی خدمات کے سلسلے میں مقیم تھیں۔ یونیورسٹی قریب ہونے کی وجہ سے بھی اور مدینتہ العلوم کے قدیم عربی مدرسہ کی وجہ سے بھی۔جیسے مولانا عبدالکبیر مرحوم، مولاناوفائی صاحب،مولاناسبحان صاحب  اور مولانا جان محمد صاحب وغیرہ۔یہ بات کم لوگوں کو معلوم ہوگی کہ یہاں ایک قادر الکلام صوفی شاعر شمس باغوانؔ بھی رہا کرتے،جن کا کلام آج بھی زوق و شوق سے پڑھا اور سُنا جاتا ہے اور ایک خاتون شاعرہ اور مجذوبہ کا نمام بھی اس ضمن میں لیا جاتا ہے، جو بس اڈے سے متصل مقبرے میں آسودہ حال ہے اور جن کے بارے میں یہ بات بھی مشہور ہے کہ وہ پرانے بس اڈے سے متصل حضرت بل کی زیارت گاہ میں داخل ہونے کے لئے بنی محراب نما ڈیوڑھی پر براجمان تھی کہ مولانا احمد شاہ صاحب مرحوم گھوڑے پر سوارہوکر داخل ہوگئے اور السلام علیکِ(عربی زبان میں مونث سے تخاطب میں ’زیر‘ لگا دی جاتی ہے) کہنے لگے۔ محترمہ نے جواب دیا وعلیک ِ ،جواب بھی ’’زیر‘‘ کے ساتھ،نیچے اتر کر جب مولانا نے وجہ پوچھی تو انہیں بتادیا گیا کہ سوار ی بھی مونث ہی استعمال ہوتی ہے۔
والدِ محترم پیر احسن شاہ پارساؔ کا مختصر شعری مجموعہ ’’باغِ وحدت‘‘ کے نام سے ۱۹۵۳؁ء میں غلام محمد نور محمد تاجران کتب نے شائع کیا ہے۔ نور وحدت کے نام سے ان کادوسرا مجموعہ ابھی چھپنا باقی ہے۔ مرحوم سلسلہ قادریہ کے معروف ولی کامل عزیزؔ صاحب بحراری کے اولین مریدوں میں سے تھے ۔کلیات ِعزیز صاحب بحراری کلچرل اکادمی نے شائع کی ہے اور اسے ترتیب دیتے وقت اس کے مرتب محترم سلطان الحق شہیدی صاحب نے اس کے دیباچہ میں پیر احسن شاہ صاحب کا تذکرہ فرمایا ہے کہ موصوف عزیز ؔصاحب کے وصال کی تاریخ انہوں نے احسن صاحب کے اپنے مرشدِ کامل کی وفات پر لکھے ہوئے مرثیہ سے لی ہے اور اسے صحیح بھی ماناہے۔ پیر احسن شاہ بھی درگاہ حضرت بل کے پشتنی باشندوں میں سے ہی تھے، اس لحاظ سے حضرت بل کی زمین کافی زرخیز رہ چکی ہے اور بھی کئی نامور شخصیات کا تعلق اس جگہ کے ساتھ ہے ظاہر بات ہے۔ یہاںان کا مفصل تذکرہ ممکن نہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ان پر سیر حاصل بات ہو۔
اللہ ر ب العزت گلزار صاحب مرحوم کو جنت الفردوس عطا فرمائے اور ان کے لواحقین کو صبر و تحمل کی توفیق دے۔ آمین ثمہ آمین ۔
گلزارؔ صاحب کا جو غیر مطبوعہ کلام ہے اسے منظر عام پر لانے کی ضرورت ہے امید ہے۔ مرحوم کے فرزنداں اور انکے برادر اصغر رفیع صاحب اس کام کوضرور انجام دینگے۔
صدرہ بل حضرت بل سری نگر  Cell- 9419017246-  
E.mail:- [email protected] 
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

پونچھ ضلع جیل میں جھگڑے میں  قیدی زخمی
پیر پنچال
جموں و کشمیر میں موسلا دھار بارشیں، محکمہ موسمیات نے الرٹ جاری کیا
تازہ ترین
جموں میں جعلی سیفائر ریکیٹ کا پردہ فاش: حیدرآباد متاثرہ کو 62 لاکھ روپے واپس: پولیس
تازہ ترین
انڈیگو پرواز کا پرندے سے ٹکراؤ، انجن میں خرابی کے باعث پٹنہ میں ہنگامی لینڈنگ
تازہ ترین

Related

ادب نامافسانے

ابرار کی آنکھیں کھل گئیں افسانہ

June 28, 2025
ادب نامافسانے

جب نَفَس تھم جائے افسانہ

June 28, 2025
ادب نامافسانے

یہ تیرا گھر یہ میرا گھر کہانی

June 28, 2025

ایک کہانی بلا عنوان افسانہ

June 28, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?