طوفان گزر گیا مگر تباہی کے اَنمٹ نقوش بھی چھوڑ گیا۔ بھرم اور بھروسہ کی 68سالہ سنگی دیواروں میں جابجا شگاف دکھائی دینے لگے ہیں۔ ایک ہولناک سناٹا جس میں اپنے آپ سے کی جانے والی سرگوشیاں سنائی دیتی ہیں۔ کیا سب کچھ ٹھیک ہے؟ کیا ایوان انصاف میں قانون اور انصاف کے محافظین میں صلح کے باوجود 130کروڑ ہندوستانی عوام کا بھرم بحال ہوپائے گا۔ اس ملک کی سب سے بڑی عدالت میںجو کچھ ہوا جن اندیشوں کا اظہار کیا گیا جو باتیں منظر عام پر آئیں‘ اُس سے کم از کم اقلیتوں کو سب سے بڑا دھکہ لگا کیوں کہ اب تک عدلیہ ہی ان کے لئے اُمید کی آخری کرن رہ گئی تھی‘ جب کبھی اقلیتوں ناانصافی ہوتی ان کے حقوق کو پامال کیا جاتا عدالت عالیہ سے رجوع ہوتے کیوں کہ یہ اقلیتوں کا احساس اور اعتماد رہا کہ نظم و نسق، پولیس، میڈیا ہر ایک ادارہ متعصب ہوسکتا ہے۔ عدلیہ نہیں۔ مگر چار سینئر ججس نے چیف جسٹس آف انڈیا دیپک مشرا کے خلاف جس طرح سے زبان کھلی ہے اس سے بہت سارے حقائق منظر عام پر آئے ہیں۔ بہت سے اندیشے پیدا ہوئے ہیں‘ کئی سوال ابھرنے لگے ہیں۔ چار سینئر ججس کی جانب سے پریس کانفرنس طلب کرکے اس میں چیف جسٹس آف انڈیا کی من مانی اور جانبداری پر جو سوال اٹھائے گئے۔ جس طرح سے اس ملک کی جمہوری اقدار کو لاحق خطرات کے اندیشوں کا اظہار کیا گیا اس پر تضاد ردعمل کا اظہار ہوا ہے۔ کسی نے سراہا، کسی نے تاسف کا اظہار کیا۔ کسی نے یہاں تک کہہ دیا کہ اب سپریم کورٹ ججس کے دو گروپس میں تقسیم ہوجائے گی۔ ممکن ہے ایک گروپ مستقبل میں چیف جسٹس کے موقف کی تائید میں پریس کانفرنس کرے۔ جو بھی ہوا اچھا ہی ہوا۔ اگر یہ ججس میڈیا کے ذریعہ اپنے دل کی بات اپنے اندیشوں کا اظہار نہ کرتے‘ سپریم کورٹ کے حدود میں کسی بند کمرے میں یا ارباب مجاز سے شکایت کرتے تو یہ بھی ممکن تھا کہ ان ججس کی آواز گھٹ کر رہ جاتی اور ان اندیشوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ آواز ہی ختم کردی جاتی۔ ہندوستان کی سب سے بڑی عدالت یا چیف جسٹس سے متعلق بہت ساری باتیں منظر عام پر آئی ہیں۔ ایک ریاست کے وزیر اعلیٰ نے اپنے خودکشی کے نوٹ میں بھی ان کا حوالہ دیا تھا کہ انہوں نے مبینہ طور پر 35کروڑ بطور رشوت طلب کئے تھے۔ چار سینئر ججس جنہیں باغی کہیں یا انقلابی ان میں سے تین جسٹس چھلمیشور، جسٹس مدن بی لوکور اور جسٹس کوریان جوزف اسی سال یعنی 2018ء میں اپنے عہدوں سے سبکدوش ہونے والے ہیں۔ جب کہ جسٹس رنجن گگوئی جو آسام کے سابق چیف منسٹر کیشوچندر گگوئی کے فرزند ہیں۔ وہ نومبر2019ء میں سبکدوش ہوںگے۔ اس طرح وہ موجودہ چیف جسٹس دیپک مشرا کے جانشین ہوسکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر ان ججس کو علم بغاوت بلند کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ ویسے 24/7 الیکٹرانک میڈیا سے آپ کو پل پل کی خبر ہے۔ اس کے باوجود یہ بتانا ضروری ہے کہ دیپک مشرا نے چند مقدمات کی سماعت ایسے ججس پر مشتمل بنچس کے حوالے کی جو ان باغی ؍ انقلابی ججس کے مقابلے میں جونیئر ہیں۔ جو سپریم کورٹ کے اصولوں کے منافی بھی ہیں۔ مثال کے طور پر سہراب الدین شیخ کے قتل کے مقدمہ کی سماعت جسٹس بی ایچ لویا کررہے تھے آپ کو یاد ہوگا کہ سہراب الدین شیخ اور ان کی اہلیہ کوثر بی کو 22؍نومبر 2005ء کو گجرات پولیس نے مہاراشٹرا کے علاقہ سانگی سے گرفتار کیا اور 26؍نومبر کو فرضی انکائونٹر میں سہراب الدین شیخ کو ہلاک کردیا گیا۔ کوثر بی کو ایک فارم ہائوز میں رکھا گیا تھا جہاں مبینہ طور پر دو دن تک اس کے ساتھ بدسلوکی کی گئی اور پھر اسے بھی موت کے گھات اُتار دیا گیا۔ مظلوم اور مقتول کی آہیں چیخیں اور اس کا بہایا گیا خون رنگ لایا جب مسلسل مطالبات کے بعد آخرکار اس ہلاکت کی تحقیقات سی بی آئی کے حوالے کی گئی۔ اور جسٹس لویا کو سی بی آئی عدالت کا جج مقرر کیا گیا۔ اس مقدمہ میں اس وقت کے وزیر داخلہ گجرات امیت شاہ کا جولائی 2010ء میں ملزم کے طور پر نام لیا گیا تھا۔ جسٹس لویا کی یکم دسمبر 2014ء کو پُراسرار حالت میں موت واقع ہوئی اگرچہ کہ اسے ہارٹ اٹیک کا نتیجہ قرار دیا گیا تاہم جسٹس لویا کی ایک بہن نے ڈاکٹر انورادھا بیانی نے کاروان میگزین کو دیئے گئے انٹرویو میں اس اندیشے کا اظہار کیا تھا کہ ان کے بھائی کی موت طبعی نہیں ہوئی۔ بلکہ انہیں قتل کیا گیا۔ واضح رہے کہ جسٹس لویا کی موت کے بعد ان کی جگہ جسٹس ایم وی گوسوامی نے سہراب الدین شیخ کے مقدمہ کی سماعت شروع کی اور امیت شاہ کے خلاف تمام الزامات خارج کردیئے تھے۔ بہرحال کاروان میگزین کے انکشاف کے بعد این ڈی ٹی وی اور انڈین ایکسپریس نے اور بھی کئی اسرار کے پردے ہٹانے کی کوشش کی۔ جیسے لویا کے مردہ جسم کو کسی گمنام شخص کے ذریعہ ان کے آبائی گائوں پہنچایا گیا۔ نہ تو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اور نہ تو کوئی پولیس عہدیدار ان کی نعش کے ساتھ تھا اور کاروان کی رپورٹ کے مطابق پوسٹ مارٹم بھی بڑی عجلت میں کیا گیا جس کی رپورٹ کے مطابق دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے یہ موت واقع ہوئی تھی۔ اور 16جنوری کو ناگپور پولیس کے جوائنٹ کمشنر نے ایک بار پھر پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کی تصدیق کی۔ حالانکہ جسٹس لویا کی بہن کا دعویٰ ہے کہ جس وقت لویا کی نعش گھر لائی گئی ان کے لباس پر اور چشمے پر خون تھا۔جسٹس لویا کی موت کی تحقیقات کے لئے چیف جسٹس آف انڈیا نے جسٹس ارون مشرا کو ذمہ داری دی جو پہلے ہی کئی اور متنازعہ مقدمات میں موضوع بحث بنے ہوئے تھے جسٹس ارون مشرا سینیاریٹی کے لحاظ سے مذکورہ بالا چار سینئر ججس کے مقابلے میں جونیئر اور دسویں نمبر پر تھے۔ سپریم کورٹ میں بھونچال کے بعد 16؍جنوری کو جسٹس ارون مشرا نے جسٹس لویا مقدمے کی سماعت سے خود کو علیحدہ کرلیا ہے۔
چیف جسٹس آف انڈیا پر من مانی کا الزام عائد کرتے ہوئے ناقد جج صاحبان نے ان کے نام لکھے گئے مکتوب میں ان سے عدالتی وقار کو برقرار رکھنے کی اپیل کی۔ یوں تو 16؍جنوری کو چیف جسٹس دیپک مشرا نے بند کمرے میں ناراض ججز سے ملاقات کی۔ اٹارنی جنرل نے یہ دعویٰ کیا کہ ’’آل از ویل‘‘ آپس میں کوئی اختلاف نہیں ہے اس کے باوجود بہت سارے سوال ایسے اٹھ چکے ہیں کہ تشفی بخش جواب کے بغیر اور کوئی چارہ نہیں۔ جسٹس لویا کے نوجوان فرزند انوج لویا کو پریس کانفرنس میں پیش کیا گیا تھا اور 21سالہ سہما سہما نوجوان جس کے چہرے سے صاف ظاہر ہورہا تھا کہ شدید ذہنی تنائو اور دبائو میں ہے۔ اس نے یہ کہا کہ ان کے والد کی موت پر کسی قسم کے شبہات نہیں ہیں لہٰذا انہیں مزید ہراساں نہیں کیا جائے۔ یہ پریس کانفرنس ایسے وقت کی گئی جب سپریم کورٹ ججس سی بی آئی کے اسپیشل جج ارون مشرا سے مطمئن نہیں تھے اور آنجہانی جسٹس لویا کی موت کی تحقیقات کا مقدمے کی سماعت ہورہی ہے۔ جو آوازیں ایوان انصاف میں ہونے والی جانبداریوں، اقرباء پروری کے خلاف اٹھی ہیں‘ ہوسکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں اُنہیں خاموش کردیا جائے۔ تاہم جو اندیشے شکوک و شبہات عوام کے ذہنوں میں پیدا ہوچکے ہیں‘ انہیں اب آسانی سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔
یہ خدائی قانون ہے کہ جب ظلم حد سے زیادہ بڑھ جاتا ہے تو ظالم سے خود ایسی غلطیاں سرزد ہوتی ہیں کہ وہ خود شکنجہ میں آجاتا ہے۔ ہندوستان ایک عظیم جمہوریت ہے۔ یہاں بعض حکمرانوں نے اپنے اقتدار کو بچانے کے لئے ڈکٹیٹرشپ ضرور کی‘ مگر تاریخ گواہ ہے کہ ان ڈکٹیٹرس کے سر عوام کی ’’ٹھوکروں‘‘ میں رہے۔ تاریخ ہر دور میں اپنے آپ کو دوہراتی رہی ہے۔ کچھ لوگ اقتدار کے نشے میں اس قدر چور ہوجاتے ہیں کہ تاریخ سے سبق حاصل کرنے کے قابل نہیں رہتے۔ یہی نشہ انہیں لے ڈوبتا ہے۔ ہندوستانی عدلیہ کا وقار متاثر ہورہا تھا۔ حالیہ عرصہ میں بعض مقدمات سے اس کا احساس ضرور ہوا تاہم کس میں اتنی ہمت تھی کہ سوال کرتا۔ یہ تو قدرت کا کرشمہ ہے کہ اس نے گھر کے بھیدیوں سے لنکا ڈھانے کا کام لیا۔ اب چاہے لاکھ وضاحتیں ہوں جو ہونا تھا ہوچکا‘ اب بقاء اسی میں ہے کہ اس نظام میں جو خامیاں اور کوتاہیاں پیدا کردی گئی ہیں‘ انہیں دور کرنے کی کوشش کی جائے۔ اب بھی کچھ زندہ ضمیر باقی ہیں۔ جب تک وہ ہیں‘ ہمیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہ اندھیری رات انشاء اللہ ڈھل جائے گی۔ انشاء اللہ ایک نئی صبح ہوگی ہمیں تو امید ہے کیوں کہ ہمارا ایمان ہے کہ مایوسی کفر ہے۔
رابطہ :ایڈیٹر گواہ اردو ویکلی‘ حیدرآباد۔ فون9395381226