گناپورہ شوپیان میں فوج کے ہاتھوں شہریوں کی ہلاکت کے واقعات پیش آنے کے بعد پیدا شدہ مباحثے نے کئی اہم نکات کو سامنے لایا ہے۔ جہاں ایک طرف بیشتر مین اسٹریم و مزاحمتی جماعتیں اس عمل کو قابل تعزیر جرم قرار دیکر اسکی منصفانہ تحقیقات کرنے اور واقع میں ملوث فوجی اہلکاروں کےخلاف تعزیزی کاروائی عمل میں لانے پر متفق ہیں وہیں برسراقتدار اتحاد کی اہم اکائی بھارتیہ جنتا پارٹی اس واقع کو معمول کی کاروائی قرار دیکرہلاکتوں کو فوج کا حق جتلاتے ہوئے پولیس کی جانب سے درج کئے گئے ایف آئی آر سے ملوثین کے ناموں کو ہٹانے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ جب حکومتی اشتراک کی کسی اکائی کی جانب سے ایسا مطالبہ پیش کیا گیا ہے، حالانکہ ماضی میں بھی اتحادی حکومتوں کے دوران ایسے واقعات پیش آتے رہے ہیں تاہم حکومتی اکائیوں کی جانب سے یکساں نوعیت کی آواز سننے کو ملتی رہی ہے۔ لیکن آج حکومتی اراکین ہی حکومتی کاروائی کی سمت بدلنے کے درپے ہیں۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پی ڈی پی کے کئی اراکین قانون ساز یہ نے کھل کر اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے تحقیقاتی عمل کو شفاف انداز سے انجام کو پہنچانے کا مطالبہ کیا ہے۔ اتنا ہی نہیں وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے بھی بھاجپا رکن رویندر رینہ کے اس مطالبہ کو فوج کےخلاف درج ایف آئی آرواپس لیا جائے کو یکسر مسترد کرتے ہوئے باور کیا کہ انتظامیہ کی جانب سے شروع کیا گیا تحقیقاتی عمل اپنے منطقی انجام کو پہنچ جائے گا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ماضی میں بھی ہلاکتوں کی تحقیقات کے درجنوں واقعات عمل میں لائے گئے ہیں لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ وہ بستۂ فراموشی کی نذر ہوگئیں اور چند ایک واقعات کے سوا کسی کیس میں قانونی عمل مکمل نہیں کیا گیا ۔ موجودہ صورتحال سے یہ بات کھل کر سامنے آئی ہے کہ حکومتی اکائیوں میں کشمیر کے اندر سیکورٹی آپریشنوں کے حوالے سے واضح اختلافات موجود ہیں لیکن اس صورتحال سے نمٹنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جاتی ،جس کی وجہ سے عام لوگوں کے اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ کشمیر کی خون آشام صورتحال پر سیاست کا بازارگرم کیا گیاہے، جو کسی نہ کسی عنوان سے کہیں نہ کہیں پر سیاست کرنے والوں کے لئےتقویت پہنچانے کا سبب تو بن رہا ہوگا لیکن عوام الناس کےلئے سوہان روح سے کچھ کم نہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ریاست کے اندر گزشتہ28برسوں سے افسپا نافذ ہے، جس کے توسط سے سلامتی اداروں کو قانون تحفظ حاصل ہےمگر اسکے ناجائز استعمال کے سبب نہ صرف عالمی سطح پر بلکہ ملکی سطح کے مثبت فکر حلقوں کی جانب سے، اسکے نفاذ کو حقوق انسانی کی بدترین پامالی قرار دیا جا رہا ہے۔ مرکز میںدائیں بازو کے اتحاد کی حکومت برسراقتدار آنے کے بعد میڈیا کے ایک حلقے، جسے مرکزی حکومت کی بھر پور حمایت حاصل ہے، کی طرف سے کشمیر اور کشمیر کی سیاست و سیاسی تاریخ کے حوالے سے جو بھر پور مہم منفی شروع کی گئی ہے اُن نے ظاہری طور پر اپنے اثر دکھانا شروع کر دیئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ انسانی حقوق کی پامالیوں کی حمایت میں کھلم کھلا سامنے آنے کی ایک روایت ہر گزرنے والے دن کے ساتھ شدت اختیار کر رہی ہے۔ افسوسناک امریہ ہے کہ ان ٹی وی چینلوں کے مباحثوں میں ایسے افراد بھی پیش پیش ہوتے ہیں، جن کے خلاف کشمیر کے اندر قتل و غارت اور حقوق انسانی کی پامالیوںکی رپورٹیں ابھی بھی متعلقہ تھانوں میں درج ہیں، لیکن افسپا کی آڑ میں وہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔گزشتہ چند مہینوں کے دوران پتھرائو کی آڑ میں شہری ہلاکتوں کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے، اُسکا کوئی قانونی جواز نہیں اور اگر ایسا ہوتا تو ملک کی دیگر ریاستوں میں ایسے واقعات پیش آنے پر بندوقوں کے دہانے کیوں نہیں کھول جاتے ؟ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے چند رو ز قبل ہی کئی شمالی ریاستوں میں ایک متنازعہ فلم ریلیز کئے جانے کے خلاف احتجاج کے دوران نہ صرف گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا گیا بلکہ پولیس پر پتھرائو کے شدید واقعات رونما ہوئے لیکن کہیں پر ایسی کوئی کاروائی نہیں کی گئی جو بات بات پر کشمیر کے طول و عرض میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ کشمیر میں موجود صورتحال کے دوران پیش آنے والے واقعات کو اس کے تاریخی تناظر میں دیکھ کر اسکاسدباب کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر اسے فقط سیکورٹی کے نکتہ نگاہ سے دیکھنے کی کوشش کی جائے تو ظاہر بات ہےکہ اُن عناصر اور حلقوں کی تجوریاںبھرنے کا ذریعہ بن جاتا ہے، جن کے سیاسی و اقتصادی مفادات خون خرابہ کی صورتحال سےجُڑے ہوتے ہیں۔ بھارت دنیا کے بڑے جمہوری ممالک میں شمار ہو تاہے، لہٰذا چنندہ طور پر جمہوری اصولوں کا اطلاق اس کے شایاں شان نہیں ۔ بھلے ہی خون خرابے کی صورتحال سے فی الوقت کچھ حکمران حلقوںکے مفادات کی آبیاری ہوتی ہو لیکن طویل المدتی سطح پر یہ ملک کی جمہوریت کے مفاد میں نہیں ہے۔ ریاست کی برسراقتدار حکومت اکائی پی ڈی پی کو اس حوالے سے ایک واضح اور قطعی مؤقف اختیار کرکے مرکزی حکومت پر یہ با ت باور کرنے کےلئے کوئی وقیقہ فروگزاشت نہیں کرنا چاہئے۔