ہر ایک ریاستی حکومت اور سیاسی جماعت کی زبانی طور پر یہ کوشش رہتی ہے کہ جموں و کشمیر کے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے یہاں صنعتی ترقی کے نئے دروازے کھولے جائیں لیکن عملی سطح پر جب کچھ کرنے کی بات آتی ہے تو پھر یہ صنعتی ترقی جموں کے بڑی براہمناں ، گنگیال اوردیگر کچھ علاقوںتک محدود ہوکر رہ جاتی ہے ۔ اگرچہ کشمیر میںبھی چندصنعتی مراکز کے قیام کی کوششیں کی گئی ہیں لیکن حقیقی طو رپر اسے کوئی ترقی نہیں کہا جاسکتا اور ان مراکز کا دائرہ کار بھی محدود ہی ہے ۔ مجوعی طور پر صنعتی ترقی جموں خاص کے چند علاقوں تک ہی محیط ہوکر رہ گئی ہے اور دیگر علاقوں میںبے شمار وسائل ہونے کے باوجود اس سمت میں پچھلی کئی دہائیوںسے کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوپائی ۔ جموں صوبہ کے دیگر اضلاع اور خاص طور پر دور افتادہ علاقوں میں صنعتی ترقی کی خاطر کوئی اقدام نہ کئے جانے کامعاملہ بارہا متعلقہ ممبران قانون سازیہ کی طرف سے اسمبلی میں بھی اٹھایاجاچکاہے مگر حکومت کی طرف سے ان معاملات میں سنی کو ان سنی کردیا جاتا ہے۔ حال ہی میں محکمہ صنعت و حرفت کے مطالبات زر پر بحث کے دوران خطہ پیر پنچال اور خطہ چناب اور ریاست کے دیگر اضلاع سے تعلق رکھنے والے ممبران نے ایک بار پھر سے یہی مطالبہ دہرایا اور حکومت پر یہ الزام عائد کیاکہ اس نے صنعتوں کو محدود کردیاہے اورقدرتی وسائل سے مالامال خطوں کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جارہی ۔خطہ پیرپنچال اور خطہ چناب میںکئی مقامات پر جہاں قیمتی پتھر پائے جاتے ہیں وہاں سیمنٹ کی فیکٹریاں لگائی جاسکتی ہیں اور دیگر معدنیات کو بھی بروئے کار لایاجاسکتاہے ،جس سے نہ صرف مقامی سطح پر ترقی کے متبادل راستے کھلیںگے بلکہ روزگار کے مواقع بھی فراہم ہوںگے اور بیروزگاری میں کمی واقع ہونے سے ایک بہت بڑا مسئلہ حل ہوسکتاہے۔ اگرچہ راجوری کے کالاکوٹ میں کان کنی کاکام ہو رہا ہے لیکن جس طرح سے اس شعبے کو نظرانداز کیاگیاہے اسی طرح سے اس شعبے سے جڑے افراد کو بھی فراموش کردیاگیاہے ۔ ان خطوںمیں صنعتی ترقی کیلئے کوئی بھی ایسی بڑی کوشش نہیں کی گئی جس سے اس شعبے کو ترقی مل پاتی اور لوگوں کو اس طرف راغب کیاجاتا۔ ابھی تک حکومت کی ترجیح سیاحت اور باغبانی کے شعبے رہے ہیں لیکن صنعتی شعبے کویہ جان کر بھی نظرانداز کیاگیاہے کہ موجودہ دور میں اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے اور ریاست میںا س کوفروغ دینے کیلئے درکار صلاحتیں بھی دستیاب ہیں ۔ریاست کی مجموعی ترقی جبھی ممکن ہوسکتی ہے جب دیگر شعبوں کے ساتھ ساتھ صنعتی شعبے کا دائرہ بھی جموں کے بڑی براہمناں اور گنگیال سے آگے بڑھاکر دور دراز علاقوں تک پھیلایاجائے گا اور قدرتی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اس سے لوگوں کو فائدہ پہنچایاجائے گانہیںتو ہمارے وسائل سڑتے رہیںگے اور لوگوں کو ان کا کوئی فائدہ نہیں پہنچ پائے گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ وسائل کی نشاندہی کرکے ان کاصحیح استعمال کیاجائے اور چند ایک نہیں بلکہ ہر ایک شعبے کو فروغ دے کرریاست کی خودکفالت کے خواب کو شرمندہ ٔ تعبیر کیاجائے ۔