اس عالم ہست وبود میںخیر وشر کی آمیزش روز اول سے جاری ہے اس آویزش کی سچی خبر خود مالک کائنات نے دے رکھی ہے کہ روئے زمین پر انسانی قدم کے اولین لمحہ سے ہی قوت خیر کو مخالف قوت اور کی دسیسہ کاریوں سے نبرد آزما رہنا پڑے گا زمانہ اپنے اختتام کی جانب رواں دواں ہے قیامت کی کچھ علامات کا دور ظہور جاری ہے آزمائشوں سے دوچار ہیں بلکہ فتنوں کی یورش بارش کے قطروں کی طرح ہمہ گیر اور سمندر کی لہروں کی طرح بھیانک ہے جس سے اہل ایمان کا اس وقت سامنا ہے موجودہ حالات میں جس تیزی کے ساتھ تبدیلی آرہی ہے اور نئے نئے خطرا ت جس طرح سر اٹھار رہے ہیں اہل حق کے لیے یہ وقت ایک بنیادی لمحہ فکریہ ہے تاہم مالک الملک کا شکر ہے کہ ایسے حالات میں بھی اہل ایمان دین حق پر قائم ہیں یہ بات باشندگان ہند پر روز روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے کہ گذشتہ چند سالوں سے کس تیز رفتاری کے ساتھ ملک میں عجیب وغریب اور ناہموار واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ صورت ا حوال یہ ہے کہ ہر واقعہ دوسرے واقعے کے ساتھ ایسا جڑا ہوا ہے کہ ایک زنجیر تیار ہوگئی ہے ۔بات گذشتہ چند سالوں پر ہی ختم نہیں ہوجاتی بلکہ یوں لگتا ہے کہ ناہموار واقعات کا یہ سلسلہ ختم ہونے والا ہی نہیں ہے بلکہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے موصول ہونے والی خبروں کے تناظر میں دیکھا جائے تو وطن عزیز میں بسنے والی اقلیت بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ حکمران جماعت کا رویہ نہایت ہی افسوسناک شرمناک اور رنج دَہ ہے۔ اس تعلق سے بات کی جائے تو سمجھ میں نہیں آتا کہ اس داستاں کی ابتداء کہاں سے کی جائے اور ہمارے اس مضمون سے بھی کون سا انقلاب آجائے گا اور کتنے ایک لوگ اسے پڑھ پائیں گے تاہم اسلام کسی سے بھی اس کی طاقت سے زیادہ قربانی نہیں مانگتا۔ اس لیے ہم اپنی بساط کے مطابق اتنا ہی کرسکتے تھے دعا ہے کہ خدائے پاک اس میں خیر ڈال دے ۔ہم یہاں ماقبل میں رونما ہونے والے ملک میں ناہموار واقعات پر نظرنہیں ڈالیں گے چونکہ وہ ملک کے ہرباسی پر آشکار ہیں اور اس وقت تک ہمارا بھی یہ ارادہ نہیں تھا کہ فی الوقت اس عنوان پر قلم اٹھایا جائے۔ اولاًذہن میں یہ بات تھی کہ ان واقعات کے صدور کے لئے مزید موقع دینا چاہئے کہ وہ خودبخود اپنا کوئی حل اختیار کرلیں اس لیے دفاع میں کوئی خاص جلد بازی نہ تھی لیکن آئے روز ملک کے مختلف گوشوں سے اس تعلق سے مسلسل یہ صدائیں بلند ہوتی ہوئی سنائی دے رہی ہیں کہ موجودہ حالات میں مسلمانوں کی رہنمائی ہونی چاہئے۔ یہ بات اب صیغہ ٔراز میں ہرگز رکھنے کی ضرورت نہیں رہی کہ اس وقت وطن عزیز میں اقلیت پر جو مظالم بپاکیے جارہے ہیں ان میں زہر گھولنے کا بڑا حصہ برادران وطن کی شدت پسند جماعتوں سے وابستہ عناصر کا ہے ۔مادروطن میں مسلمانوں کے موجودہ حالات اور ملک کے مستقبل کو دیکھتے ہوئے اس سے زیادہ کوئی ضروری چیز نہیں ہوسکتی ہے۔ جہاں تک تعلق ہے ملک کی سیاسی زندگی کا فرقہ واریت جو مذہب کے نام سے اُبھاری گئی، ضرورت اس بات کی ہے کہ اسے ہمیشہ کے لیے دفن کردیا جائے۔ کسی ایک خطہ کی فرقہ واریت نہیں ،کسی ایک طبقہ اور جماعت کی فرقہ واریت نہیں، سب کی فرقہ واریت۔ ان بربادیوں میں جو گذشتہ چند سالوں سے شدت کے ساتھ چلی آرہی ہیں بدقسمتی سے تادم تحریر اس میں اضافہ ہی ہوتا چلا جارہا ہے اور جہاں تک تعلق ہے فرقہ واریت کا صاف بات یہ ہے کہ یہ کسی ایک راستے سے نہیں آئی ہے بلکہ کئی راستوں سے اس کی آمدہوئی ہے۔ اس لیے یہ سب دروازے بند ہونے چاہیے۔ ہم مادروطن کے باسیوں سے درخواست کرتے ہیں کہ اگرہم یہ چاہتے ہیں کہ ہندوستان جس کی آزادی کاہم مدت تک خواب دیکھتے رہے تھے اور جس کی آزادی میں ملک میں بسنے والی ہر قوم کا حصہ ہے بلکہ اس کی مٹی میں ہر ایک کا خون شامل ہے برباد نہ ہو یا بربادی کے کسی نئے دروازے میں نہ گھس جائے تو ہمارا یہ فرض بنتا ہے کہ جس راستے سے فرقہ واریت آئی ہے اس دروازے کو ہم سب مل کر مقفل کردیں بلکہ بالکل ہی ختم کردیں۔اگر خدانخواستہ وہ دروازہ بند نہیں کیا جاتا ہے تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ موجودہ حالات کی بہت بڑی ذمہ داری بالخصوص مسلمانان ہندوستان کے کندھوں پر باقی رہتی ہے اس لئے جوچیز آزادی سے قبل ہمارے لئے صحیح تھی وہ کم از کم اب بھی ہمارے لئے صحیح ہونی چاہئے اگر آج بھی آپ اس کو درست نہیں سمجھتے ہیں تو پھر یہی کہا جاتاسکتا ہے کہ آپ سے مسلمانوں کی فلاح کی قطعا کوئی امید نہیں رکھی جاسکتی مختصر یہ کہ اس وقت جو چیز مسلمانان ہند کے لئے سب سے زیادہ اہم ہے وہ ہے فرقہ پرستی کو روک کر اپنی قومی زندگی کو بچانا اور جلدی بچانے کی فکر کرنا اور جو جماعت اس میں ایک دن بھی تاخیر کرے گی وہ ملک کی تباہی کے وزن میں اضافہ کرے گی اور کچھ بھی نہیں ملک کی تباہی اور بربادی کے لئے جو اینٹیں اور پتھر اس وقت جمع کئے ہوئے ہیں وہ اس تعمیر میں مزید جمع ہوتے جارہے ہیں اقلیت کو جو کچھ بھی کرنا ہے اس میں ایک روز کی بھی دیر خطرناک ثابت ہوسکتی ہے یہ یقین ہے اور صاف نظر بھی آرہا ہے قدرت نے جسے بھی عقل عام کا کچھ بھی حصہ عطا کیا ہے وہ اپنی کھلی آنکھوں سے یہ دیکھ رہا ہے کہ اس سے بڑھ کر خطر ناک چیز کوئی اور نہیں ہے لہذا! ملک کے ہر ذی شعور فرد کا یہ فریضہ ہے کہ وہ فرقہ واریت کو بند کرنے کے لئے اپنا کردار اداکرے اوراگر وہ اب بھی بند نہیں کیا جاتا تو بہت بڑی ذمہ داری داری آپ پر رہ جائے گی کسی بھی ملک کی فضا کو خوشگوار اور ترقی یافتہ بنانے کے لئے اس کی لیڈر شپ کا اچھا ہونا لازمی ہوتا ہے اور یہ بھی ہم واضح کردینا ضروری سمجھتے ہیں کہ گذشتہ چند برسوں میں ملک کے اندر فرقہ وارانہ تحریک کی ایک خاص تاریخ بن چکی ہے بلکہ اس کی ایک خاص روایت زندگی اور اساس قائم ہوچکی ہے جس سے اس کو الگ کرنا ایک مشکل ترین مسلہ بن چکا ہے لیکن گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے ہمارا خداہمارے ساتھ ہے سنت اللہ کے مطابق یہ اوپر نیچے ہونے کا سلسلہ تاقیامت جاری رہے گا اقلیت کو اس وقت دوٹوک فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے کیسے یہ ممکن ہو کہ قومی وسیاسی جماعتوں کے مقصد پر فرقہ واریت کی پرچھائیاں نہ پڑنے پائیں اس میں شک نہیں کہ مختلف جماعتوں کے قیام کی اپنے مذہبی حقوق مفادات اور تمدنی مقاصد کے لیے ضرورت ہے یہ ضروری خانہ ہے جو پر ہونا چاہئے لیکن آج وقت کی پکار ہے کہ فرقہ پرستی سے پاک نظام بپاکرنے کے لئے تحریکی طور پر جدوجہد کی جائے اسی کے ساتھ برادران وطن کو یہ بھی یادرکھنا چاہئے کہ جہاں تک تعلق ہے مسلمانوں کا وہ نہیں چاہتے کہ ہندوستان کے آسمان کے نیچے کوئی فرقہ وارانہ نظام ہومسلمان مذہب اسلام کے پیر کار ہیں جو امن وسلامتی کی تعلیم دیتا ہے اور مسلمانوں نے اپنے کردار وعمل سے ہردور میں ایک تاریخ رقم کی ہے خیر یہاں تک ہم نے گفتگو مجموعی طور سے کی ہے اب رہا سوال ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کا ان کی خدمت میں بہ طور خاص مفکر اسلام سید ابو الحسن علی حسنی الندوی علیہ الرحمہ کے ایک بیان سے مستفاد ذیلی گفتگو بہت کافی ہے کہ آج ہندوستان میںایک ایسا دور آیا ہے کہ جوہمارے علم میں اس سے پہلے کبھی نہیں آیا وہ یہ کہ اس دو رکودور اکبری سے کسی قدر مشابہت ہے لیکن دور اکبری بھی اس درجے کا خطرناک نہیں تھا جتنا کہ یہ دور ہے جواب چل رہا ہے وہ یہ کہ اس وقت اکثریت نے یہ طے کرلیا ہے کہ اس ملک کو اسپین بناکر رہیں گے اور اس میں مسلمان رہیں گے لیکن وہ اپنے تمام ملی تشخصات کو چھوڑ کر یہاں تک کہ اذانیں بھی زور سے نہ ہوں مسجدوں کی کثرت اور مسجدوں کا جائے وقوع بھی اور مسجدوں کا وجود بھی خطرے میں ہے بابری مسجد کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا اس نے اس کے لئے یہ راستہ کھول دیا ہے اور ہندتوانواز ذرائع ابلاغ جو کچھ پیش کررہا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہاں مسلمانوں کو مسلمان بن کررہنے کی گنجائش نہیںہوگی وہ لباس میں شکل وصورت میں رسم ورواج اور تہذیب وغیرہ سب میں ان تمام امتیازی خصوصیات سے دستبردار ہوجائیں کہ جن سے دور سے یہ کہا جائے کہ یہ مسلمان ہیں اس وقت فتنے کو روکنے کے لیے جو سب سے بڑی طاقت ہوسکتی ہے وہ علماء کرام کی عوام الناس کی مطلوب رہنمائی ہوسکتی ہے، وہ فضلائے مدارس کی ہوسکتی ہے کہ وہ جہاں کے بھی رہنے والے ہوں وہاں کی مسجدوں میں جمعہ کے موقعوں پر عیدین کے موقعوں پر نکاح کا تقریبات کے موقعوں پر خوشیوں کے موقعوں پر اپنے بیانات میں یہ بیان کریں کہ ہم کو اپنے پورے ملی تشخص کے ساتھ اس ہندوستان میں رہنا ہے ،کسی ایک چیز کو بھی ہم چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ہم اس کے لئے بھی تیار نہیں ہیں کہ اپنی وضع قطع میں بھی کوئی فرق رہے، ہم اپنے بچوں کو دینی تعلیم دلوائیں گے، دینیات پڑھائیں گے۔ اس وقت کا سب سے بڑا فتنہ جو ہے وہ ملی تشخص سے دستبردار ہونا ہے افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے بعض دینی حلقے کے لوگ بھی جو قلم کا استعمال جانتے ہیں اور زبان سے بھی علمی زبان میں بات کرسکتے ہیں وہ بھی اس کی دعوت دینے لگے ہیں کہ مسلمانوں کو کسی بات پر اصرار نہیں کرنا چاہئے نہیں بلکہ صاف بات یہ ہے کہ ہم ہندوستان میں مکمل ملی تشخصات کے ساتھ جئیں گے جس کا حق ہمیں ملک کے آئین نے دیا ہے۔ یہ ملک ہمارا ہے، یہاں ہمارے قابل قدر مسلمان عادل بادشاہان ہند کی فن تعمیر کی عظیم شاہکار تاریخی یادگاریں اب بھی مشتاقان دید کو صدیوں سے دعوت نظارہ دیتی آرہی ہیں ۔ہم یہاں کرائے پر نہیں رہ رہے ہیں۔ ہمیں اپنے مالک حقیقی سے یہ امید ہے کہ وہ مسلمانوں کو اس ملک کی قیادت نصیب فرمائے گا اس لئے کہ اس ملک کی موجودہ قیادت کو اب خدائے پاک نے اس قابل نہیں رکھا ہے چونکہ ان لوگوں نے خدائے پاک کے مقرر کردہ قوانین کو بدلنا شروع کردیا ہے۔ لہذا! اب یہ اس ملک کو خدائی عذاب سے نہیں بچاسکتے ،یہ سب دولت پرست ہیں، مادہ پرست ہیں، نفس پرست ہیں طاقت پرست ہیں، اقتدار پرست ہیں ،جہان پرست ہیں ،فرقہ پرست ہیں اور مسلمان امن پسند ہیں ہم عزت کے ساتھ رہیں گے۔ ہم اپنے ملی تشخصات کے ساتھ رہیں گے عزت کے ساتھ سراونچا کرکے چلیں گے ،ہماری نگاہیں بلند ہوں گی اور ہم سمجھیں گے کہ ہم جو کچھ کررہے ہیں وہ سب صحیح ہے، ہندوستان کا دستور اس کی اجازت دیتا ہے، ہندوستان اسی حالت میں صحیح سلامت اور خوشحال رہ سکتا ہے کہ یہاں ہر ایک کو اس کی مذہبی آزادی کے ساتھ رہنے کی اجازت دی جائے۔ ہم ایمان والے ہیں اور ہمارا یہ ایمان ہے کہ جب تک روئے زمین پر ایک بھی ایمان والا زندہ رہے گا تو یہ نظام باقی رہے گا اور جس روز ایک بھی ایمان والا اس دھرتی کے سینے پر نہ رہا تو اس روز اس دنیا کی چھٹی ہو جائے گی اس دنیا کی بقاء اہل ایمان کی بقاپر ہی موقوف ہے۔
آخری بات: اگر میں یہ کہوں کہ میں سب سے زیادہ اس وقت کا پرامید انسان ہوں تو یہ غلط نہ ہوگا یاد رکھیں کہ اس ظلم کی کوکھ سے خیر کی صبح طلوع ہونے والی ہے اور اس سرزمین کی عوام امن پسند قیادت کے لیے پیاسی ہوچکی ہے۔ ان کی اس پیاس کو غلامان محمدؐ کی قیادت ہی بجھاسکتی ہے۔ اس بات سے نہ ہی کسی کو مجال انکار ہے کہ اس دھرتی کے سینے پر اس وقت بھی ایسے بندگا خدا ودرویشان خدامست موجود ہیں جو صبح سویرے اُٹھ کر وطن عزیز کے امن اور سلامتی کے لئے مالک کائنات کے حضور الحاح وزاری فرماتے ہوئے دعائیں مانگتے ہیں کہ خدائے رحمن ورحیم خیر کا معاملہ فرمائے اور مادر وطن کوامن وشانتی کا گہوارہ بنادے ، گنگاجمنی تہذیب کے حامل اس ملک کی سا لمیت اور وحرت واخوت کی حفاظت فرمائے آمین۔
رابطہ نمبر 7298788620
E-mail.- [email protected]