لیکن کیا وہ واپس لوٹے گایا پھر اپنے اس غیر متوقع فیصلہ پر ڈٹا رہے گا؟ اس کا فیصلہ بہرحال مستقبل ہی کرے گا۔ آج منان وانی کے اس فیصلہ پر تجزیہ نگاروں کی ایک کثیر تعداد کشمیر میں دہشت گردی اور انتہا پسندی(Radicalism) کے بڑھتے ہوئے سلسلہ کے فروغ پر تبصرے کرنے میںقوت گویائی خرچ کر رہے ہیں لیکن کم ہی لوگ ایسے ہیں جومنان وانی کے اس فیصلہ کی وجوہات اور اسباب ومحرکات جاننے یا جان کر بتانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ آخر بھوپال کی عالمی کانفرنس میں’’ تھیسِس پریزینٹیشن مقابلے‘‘ میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے والا منان وانی کیوں اپنی جان کو دائو پر لگانے کے لیے تیار ہو گیا؟ یہ اتنا بڑا سوال ہے کہ جواب ڈھونڈنے کے لیے غور و فکر کے ساتھ ساتھ غایت درجے کی سنجیدگی بھی درکار ہے۔ اصل میں ہی کشمیر کاز کا کوئی منصفانہ اور قابل قبول حل تینوں فریقوں کی مشاورت سے نکالنے کی بجائے سخت گیریتاور ووٹ بنک سیاست چلائی جارہی ہے ۔
تنازعۂ کشمیر سے جڑے یہ تمام حالات و واقعات ہم سب کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ آخر اصل خرابی ہے کہاں کہ ضطہ مینو نظیر میں سیاہ بادل کے مہیب سائے کبھی چھَٹتے نہیں اورظلم و تشدد کی سیاہ رات امن و سلامتی کی صبح میں تبدیل نہیں ہو پاتی۔بات دراصل یہ ہے کہ لوگوں میں انسانیت کی حس ہی سرے سے ختم ہو گئی ہے۔ مرنا مارنا آج بعض اقوام اور جنونی لوگوںکا مشغلہ بن گیا ہے۔ان اقوام کے حکمران بالخصوص اور عوام الناس بالعموم نفس پرستی، خود غرضی اورمادی سودوزیاں کی حصولیابیوں میں اس قدر مست ومحوہیں کہ دنیا بھر میں ظالموں کی جانب سے آگ و آہن، قتل و غارت اور ظلم و جبر کی جانب متوجہ ہو نے کے لئے مہلت نہیں پاتے ،گویا اُن کا ضمیر مر گیا ہے۔دوسری جانب جو اس مسئلہ کو حل کرنے کی قدرت واختیار رکھتے ہیں وہ تو سرے سے ہی مسئلہ کو حل کرنے میں کوئی مثبت پیش رفت نہیں کر تے کیونکہ یہ کام ان کی ووٹ بنک سیاست اور نظریاتی مائنڈ سیٹ کے زہر ہلاہل ہے ۔ مسئلہ کشمیر کے دو اہم فریق ہندوستان اور پاکستان کی قومی سیاست میں ’’ مسئلہ کشمیر‘‘بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ مسئلہ دونوں ممالک کی پالیسیوں اور خارجہ امورکے خدوخال وضع کرنے میں ایک اہم رول ادا کرتا ہے لیکن افسوس کہ دونوں غربت زدہ ممالک اور اب جوہری طاقت کی مالک دونوں قومیں ۷؍ دہائیوں سے رستے ہوئے اس ناسور کو ختم کرنے میں کُلی طور ناکام ہیں۔ فریقین اس مسئلہ کے حوالے سے کوئی ہم آہنگی طے نہیںپاتی اورمذاکرات کے حوالے سے بھی مایوسی کے سیاہ بادل بدستور قائم ہیں۔ جنرل مشرف نے روایتی بندشوں کو توڑ نے اور واجپائی نے لکیر کا فقیر بننے سے دامن بچانے کی مثبت کاوشیں کیں مگر نتیجہ ندارد۔ مودی نے اسی طرز فکر پر چلنے کی بہت پھنکی مگر عملاً وہ سنگھ پریوار کے قیدی ہیں ،اس لئے برصغیر میں صلح سمجھوتے سے کوئی پیش رفت کر نا ان اک ایجنڈا نہیں ،ا س کے بجائے مودی جی اپنے ’’دوست‘‘( اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہوجو مسلمانوں اور اسلام کے خلاف جنون ونخوت کا سفیر ہے اور جو شیلاک کا چیلہ ہونے کے ناطے کسی کا دوست نہیں بلکہ صرف اور صرف اپنے مفاد کا غلام ہے ) کی بانہہ میں بانہہ ڈال کر اپنا’’ وکاس ‘‘ کر رہے ہیں ۔ انہوں نے اپنے حلف وفاداری میںسابق وزیراعظم پاکستان نواز شریف کو مدعو کر کے ایک امیدا فزاء شروعات کیں مگر بعد میں اس راستے سے پیٹھ موڑ لی۔ نتیجہ یہ کہ دونوں جانب ڈیڈلاک اور ہلاکتیں معمول بن چکی ہیں ۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ موجودہ دنیا ایک دائرے میں سمٹ کر رہ گئی ہے جس میں مختلف ممالک اور متعدد معاشروں میں راہ و رسم اور آشنائیاںہیں۔آج عالمی پریشر بھی ممالک کی پالیساں مرتب کرنے میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہیں لیکن افسوس کہ کشمیر ی اس معاملے میں بھی بدقسمت واقع ہوئے ہیں۔کشمیر کے تئیں عالمی طاقتیں بے ضمیری اور بے نیازی کا کھلامظاہرہ کر رہی ہیں۔ عالمی چودھری امریکہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ٹس سے مس نہیں ہوتابلکہ اپنے ملکی مفاد کے ارد گرد ہی اس کی غرض مندانہ پالیسیاں بنتی بگڑتی ہیں۔ اقوامِ متحدہ کمزور اور بے نوا قوموں کے لئے ایک معذور ومفلوج ادارہ بن چکا ہے ، جس سے حق وانصاف کی حمایت یا مسلم مسائل کے حل میں کسی پیش رفت کی امید نہیں کی جاسکتی۔ نیند کے ماتو اسی اقوامِ متحدہ میں کشمیر کا کیس سات دہائیوں سے بغیر کسی تصفیہ کے پڑا ہوا ہے۔ بہر کیف مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لیے فی الفور کارگر اقدامات کرناناگزیر ہے۔ اس کے لئے دونوں ممالک کو سیاسی غیر متزلزل عزم وارادے سے آگے آنا ہو گا اور کشمیریوں کے دُکھ درد کے ازالے کے لیے ایک متفقہ لائحہ عمل مرتب کرنا ہوگا جو کشمیر کے ساتھ ساتھ پورے ہندوپاک کے سیاسی ، معاشی ، سماجی اور تہذیبی موسم کے لئے خوشگوار ثابت ہو ، جس میں بقائے باہم اور خیر سگالی کا جذبہ پیوست ہو ، جس میں انسانیت کی جیت اور حیوانیت کی شکست کا پیغام پوشیدہ ہو ، جو نفرتوں اور شکوک و شبہات کے بادلوں سے مطلعٔ دوستی کو صاف کرے اور ہم سب جو جیو اور جینے دو کی شاہراہِ حیات پر دال دے۔ وگرنہ دشمنی کے ماحول میں آر پار لاشوں کو اُٹھانے کا یہ سلسلہ طویل سے طویل تر ہوتا جائے گا، جنازے اٹھتے رہیں گے اور چتائیں جلتی رہیں گی ، یتمیوں ، بیواؤں اور معذوروں کی فوج در فوج پیدا ہوتی رہے گی اور انسانیت کو شکست فاش ملے گی۔ (ختم شد )