گذشتہ ہفتہ کے دوران 27جنوری کے روز شوپیاں میں دو نو جوانوں جاوید احمد بٹ اور سہیل جاوید کی فوجی دستوں کی بندوقوں سے نکلی ہوئی گولیوں کے سبب موت نے اِس بحث کو پھر اجاگر کیا ہے کیا افسپا کے ہوتے ہوئے کشمیر میں کسی بھی غیر قانونی اقدام کی صورت میں کسی بھی فوجی کے خلاف کوئی بھی کاروائی ممکن ہے؟؟ ابھی اِس کالم کی ابتدائی لائنیںہی رقم ہو رہی تھیں کہ اِس سانحہ میں مجروح ایک جواںرئیس احمد گنائی کی وفات کی خبر آئی ۔رئیس احمد سکمز میں زیر علاج تھے۔سانحہ شوپیاں میں تین نوجوانوں کی ہلاکت سے پہلے جنگجوؤں کے خلاف ایک کاروائی میں دو جنگجوؤں کے علاوہ ایک سویلین کی ہلاکت کے سبب حالات پہلے ہی سے کشیدہ تھے ۔اِسی دوراں فوج گاڑیوں میں سوار گنو پورہ نامی گاؤںسے گذری اور یہ دلدوز واقعہ پیش آیا۔ مقامی آبادی کا یہ کہنا ہے کہ فوجیوں کی جانب سے فائرنگ بلا جواز تھی جبکہ فوج کا یہ کہنا ہے کہ وہ پتھراؤ کی زد میں آئے جسکی وجہ سے ایک فوجی زخمی و بے ہوش ہوا اور وہ فائرنگ پہ مجبور ہوئے جو پہلے ہوائی تھی لیکن شدید دباؤ میں آ کر اُنہیں مجموعے پہ فائرنگ کرنی پڑے جس سے دو نو جواں ہلاکت کا شکار ہوئے۔
ایک مہذب معاشرے میں جائے حادثے پہ کیا ہوا اُس کی غیر جانبدارانہ تحقیق کے بعد ہی یہ مشخص ہو سکتا ہے کہ غلطی کس جانب سے ہوئی ہے اور اُس کے بعد ہی عدالت میں سزا کا تعین ہو سکتا ہے ۔شوپیاں سانحہ کے بعد جہاں بظاہر تحقیق کا اجرا بھی ہوا ہے وہی ایف آئی آر میں فوجی دستے کے کمانڈر کے خلاف قتل کا الزام بھی لگایا گیا ہے۔ فوجی دستے کا کمانڈر ایک میجر ہے اور یہ گروال کے فوجی یونٹ سے تعلق رکھتا ہے۔ فوجی بیاں کے مطابق میجر جائے وقوع سے دور تھا جبکہ فوجی دستے کی کچھ گاڑیاں الگ ہو گئی تھیں اور یہ گاڑیاں ایک عوامی مجموعے میں پھنس گئیں ۔مجموعے کی تعداد 200کے قریب بیاں ہوئی ہیں۔فوجی بیاں کے برعکس مقامی لوگوں کا ماننا ہے کہ فائرنگ کا کوئی جواز ہی نہیں تھا۔یہ سوال بھی پوچھا جا رہا ہے کہ اگر فائرنگ کی نوبت آ ہی گئی تھی تب بھی جسم کے حساس حصوں کو نشانہ بنانا جو فوری موت کا سبب بن جائے کہاں تک صیح قرار دیا جا سکتاہے؟؟
سانحہ شوپیاں نے اُن سب سوالوں کو جنم دیا ہے جو کہ ایسے دلدوز حادثے کے بعد پوچھے جانے کا امکاں ہے اور یہ بھی صیح ہے کہ ایسا اگر پہلی دفعہ ہوا ہوتا تو جہاں مقامی لوگوں کی بات سنی جاتی وہی اُس فوجی دستے کی بات بھی مد نظر رکھی جاتی جو کہ اِس حادثے میں ملوث ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ جب سے کشمیر میں مزاحمتی تحریک نے زور پکڑا ہے ایسے ان گنت واقعات پچھلے کم و بیچ تیس سالوں میں پیش آئے ہیں ۔صورت حال کو پرکھا جائے تو یہی نظر آتا ہے کہ کشمیر کا چپ چپہ فوج کے نرغے میں ہے ۔ جہاں سویلین آبادی اِس قدر شدید فوجی نرغے میں ہو وہاں دیر یا سویر ایسے دلدوز سانحات کا پیش آنا بعید نہیں بلکہ عین ممکن ہے۔ ایک گھناونا سچ یہ بھی ہے کہ فوج جو بھی اقدام کرے اُسے افسپا کا تحفظ حاصل ہے اور جہاں اِس قدر تحفظ حاصل ہو کہ فوج کچھ بھی کر گذرے اُسے مورد الزام قرار نہیں دیا جا سکتا وہاں زیادتیاں ہوتی رہیں گیں۔ کونن خوشپورہ و مژھل اور ایسی ہی ان گنت جگہوں کا نام لیا جا سکتا ہے کہ جہاں بھیانک زیادتیاں ہوئی لیکن کوئی بھی ملزم کیفر کردار تک نہیں پہنچا۔آج بھی کوئی بھی یہ دعوہ کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ سانحہ شوپیاں انصاف سے روبرو ہو گا؟؟
ریاست میں لمبے عرصے سے ایک مزاحمتی تحریک چل رہی ہے جس کا مدعا و مقصد ریاست جموں و کشمیر کے لوگوں کے لئے ایک ایسے نظام کا حصول ہے جو اُن کے فطری رحجان کے عین مطابق ہو ۔یہ تحریک عین انسانی فطرت کے مطابق ہے جہاںہر خطے کے لوگوں کو اپنے طور و طریقے سے جینا کا حق مانگنے کا مجاز مانا جاتا ہے ۔تاریخی انسانی گواہ ہے کہ ایک فطری رحجان کو دبانے میں کتنے ہی نا مناسب قوانین کا اطلاق ہو انجام کار یہ حق دیر یا سویر حاصل ہو ہی جاتا ہے۔اِس حق کے حصول تک سیاسی فضا میں جس قدر امنیت رہے اتنا ہی مناسب ہے چونکہ یہ صیح ہے کہ مسلہ کتنا ہی پیچیدہ کیوں نہ ہو اُس کا مناسب ترین حل ایک امنیت کی فضا میں ہی حاصل ہو سکتا ہے لیکن جہاں ایک مقاوتی تحریک کو جبر و استبداد سے کچلنے کی کوشش کی جائے وہاں تشدد امنیت پہ بھاری پڑ جاتا ہے۔ریاست جموں و کشمیر بھی ایک ایسے ہی دور سے گذر رہی ہے جہاں ریاستی جبر امنیت پہ بھاری پڑ رہا ہے اور ہر وقفے وقفے سے شوپیاں جیسے سانحات سے گذرنا پڑتا ہے بنابریں حتی المکان کوشش یہ رہنی چاہیے کہ افسپا جیسے کالے قوانین سے سیاسی فضا کو تاریک نہ کیا جائے اِس احساس کے ساتھ کہ ایسے قوانین کے اطلاق سے جذبات بھڑک اٹھتے ہیں اور وقتاََ فوقتاََ بے قابو ہو جاتے ہیں۔
مزاحمتی تحریکوں سے نبٹنے کیلئے ریاستوں کو عالمی قوانین کے تابع رہنا پڑتا ہے۔23 مارچ 2009 ء کے روز اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے حقوق انسانی نوانیتہم پلے [Navanethem Pillay]کے افسپا کی تردید میں دئے گئے بیاں کے جواب میں بھارت نے آئین ہند کی دفعہ 355 کا حوالہ دیاجس کے مطابق’’یونین (مرکزی حکومت) کا حق بنتا ہے کہ وہ ریاستوں کو خارجی حملات و داخلی فساد سے محفوظ و ماموں رکھنے کی تدابیر کرے تاکہ ریاستی امورآئین کے مطابق طے ہوتے رہیں‘‘ ۔نوانیتہم پلے کا اعتراض یہ تھا کہ ’’افسپا ماضی کے نو آبادی دور کا قانون ہے جو دور جدید کے بین الا قوامی حقوق انسانی کے معیار پہ پوارا نہیں اترتا‘‘۔پلے کے اِس تردیدی بیاں کے جواب میں بھارت کے اٹارنی جنرل نے کہا کہ بین الاقوامی قوانین کا اطلاق علحیدہ پسندتحریکوںپہ نہیں ہو سکتا ۔اِس کا مطلب یہی ہو سکتا ہے کہ بھارت جموں و کشمیر کی مزاحمتی تحریک کو بین الاقوامی قوانین کے اجرا سے خارج مانتا ہے؟؟ 2009 ء سے پہلے بھی1991ء میں اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کی کمیٹی(United Nations Human Rights Committee [UNHRC]) نے افسپا کے اطلاق پہ سوالیہ اٹھایا تھا؟؟افسپا کو بین الاقوامی شہری و سیاسی حقوق کے اتفاق نامے (International Covenant on Civil and Political Rights [ICCPR])کی دفعہ 4 کے پلڑے میں پرکھا جائے تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ افسپا بین الاقوامی شہری و سیاسی حقوق کے اتفاق نامے پہ پورا نہیں اترتا۔
بین الاقوامی شہری و سیاسی حقوق کے اتفاق نامے میں بھارت بھی ممبر کی حثیت سے شریک ہے البتہ جیسا کہ پہلے ہی مشخص ہوا اِس اتفاق نامے کے اطلاق کا وہ علحیدہ پسند تحریکوں کو مستحق نہیں مانتا البتہ کشمیر میں علحیدہ پسند جماعتوں و کئی شہری تنظیموں کے نظریے کے مطابق بھارت کے ساتھ الحاق کو حتمی نہیں مانا جا سکتا چونکہ یہ عارضی اور کچھ شرطوں پہ مبنی ہے لہذا علیحدہ پسندگی کا سوال ہی در پیش نہیں ہے ۔ اِن متضاد نظریات کی روشنی میں دفعہ 4 اور اُس کی مختلف شقوں کا جائزہ لینے کے بعد ہی بین الاقوامی تنظیموں کے افسپا پہ اعتراضات کو سمجھا جا سکتا ہے۔ دفعہ 4 کی شق نمبر ایک4:1)) دو (4:2) اور تین (4:3) کو در نظر رکھنا ہو گا۔ 4:1)) میں یہ مانا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کے کسی بھی ممبر کو داخلی ہنگامی حالات (ایمرجنسی) کا سامنا ہوسکتا ہے جس سے ملکی وجود کو خطرہ لا حق ہو ۔ اِس کا اعلان رسمی طور پر بھی ہو جائے تو ایسی صورت حال میں بھی وہ ممبر ملک جنہوں نے شہری و سیاسی حقوق کے اجرا کے اتفاق نامے پہ دستخط کئے ہوں صورت حال سے نبٹنے کیلئے اُسی حد تک اقدامات کریں گے جس حد تک کہ ضرورت ہوالبتہ یہ کسی بھی صورت میں امضا کنندگاں قوانین ثانوی بین الملی کے تحت اپنی ذمہ واریاں پوری کرنے سے اجتناب نہیں کریں گے اور رنگ و نسل،جنس،زباں، مذہب یا سماجی بنیاد کی بِنا پر امتیاز نہیں برتا جائے گا۔
دفعہ(4:2) میں مختلف شقوں کاحوالہ دیا گیا ہے جن کی خلاف ورزی کو 4:1)) کے اطلاق کے وقت ملحوظ خاطر رکھنا ہو گا ۔یہ شقیں ہیں6, 7, 8 11, 15, 16 ہیں۔ (4:2) کی شق 6:1 کے تحت ہر شخص کو زندہ رہنے کا حق ہے اور اِس حق کا تحفظ قانوناََ فرض ہے اور کسی کو بھی اِس حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا جبکہ شق7 میں آیا ہے کہ کسی کو بھی تشدد کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا،ظلم ،غیر انسانی و تذلیلی سلوک روا نہیں رکھا جائے گا۔ کشمیر میں کام کر رہی انسانی حقوق کی تنظیموںنے حتّی کہ حقوق انسانی کے ریاستی کمیشن نے جس کو ریاستی سرکار نے قائم کیا ہے سیکورٹی فورسز پر ایسے الزامات عائد کئے ہیں جو کہ (4:2) کی شق 6:1 اور شق 7 کی سریحاََ خلاف ورزی ہے البتہ افسپا میں عدالتی کاروائی کیلئے مرکزی سرکار کی متعلقہ وزارتوں ،بھارتی افواج کی خلاف ورزیوں کی صورت میں وزارت دفاع اور سی آر پی ایف [CRPF] کی خلاف ورزیوں کی صورت میں وزارت داخلہ کی اجازت مطلوب ہے اور چونکہ یہ اجازت شاز و نادر ہی ملی ہے اسلئے شکایات کی تحقیق پایہ تکمیل کو نہیں پہنچی ہے بنابریں سانحہ شوپیاں میں تحقیقات کے بعد بھی اگر کسی کا جرم ثابت بھی ہو جائے تب بھی عدالتی کاروائی کیلئے وزارت دفاع کی اجازت کے بغیر کوئی بھی اقدام امکاں پذیر نہیںبھلے ہی اِس سے انصاف روندا جائے!جہاں کالے قوانین نے ہر جانب اپنا سایہ پھیلایا ہو وہاں کیسے انصاف کی امید رکھی جا سکتی ہے؟
عالمی قوانین کے تحت کسی بھی ملک میں دفعہ4 کے تحت غیر معمولی اقدامات اٹھانے کی ضرورت پیش آئے تو (4:3) کے تحت ریاستوں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ اپنے کئے گئے اقدامات سے متعلقہ ایجنسیوں یعنی اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کی کمیٹی کو بوسیلہ سیکرٹری جنرل با خبر رکھے اور اگر کسی شق کی خلاف ورزی ہوئی ہے تو کس حد تک اور کس وجہ سے ہوئی ہے ؟ یہاں صورت حال یہ ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کی مزاحمتی تحریک کو ریاستی تشددسے مٹانے کی کاروائی میں بھارت کسی بھی عالمی قانون کے تابع نہیں رہنا چاہتا ۔بھارت نے مزاحمتی تحریک کو علیحدہ پسندگی سے جوڑکے اور سرحد پار کی دہشت گردی کا نام دے کر ریاست کیلئے کسی بھی اقدام کو جائز قرار دیا ہے بھلے ہی اِس سے حقوق بشر کی بیخ کنی ہو۔ جہاں بھارت قوانین بین الملی کے اطلاق کو نہیں مانتا بعید ہے کہ وہ کسی بھی عالمی ایجنسی کو کشمیر میں اپنے اقدامات کے بارے میں آگاہ رکھنے کا پابند رہے۔
جسٹس بشیر الدین جو کہ حقوق انسانی کے ریاستی کمیشن کے سابقہ سربراہ تھے اپنے عہدے سے سبکدوش ہونے سے پہلے اپنی اختتامی رپورٹ میں جسے نیوز لیٹر [Newsletter]کا عنواں دیا گیا تھا رقمطراز ہیں’’ افسپاکے تناظر میںمسلح افواج کے خلاف سنگین الزامات ہیں جس میں طاقت کا بیجا استعمال کیا گیا ہے۔بلا تردید حقوق انسانی کے ریاستی و قومی کمیشن کو نچلی سطح کے افسراں کے بارے میں در مورد بلاجواز گرفتاریاں ،حبس بیجا ،غیر انسانی و غیر اخلاقی سلوک ،تشدد و موت دوران حبس ، زنا بالجبر و نقلی مقابلوں کی شکایات موصول ہوئیں ہیں‘‘ شکایات کے ضمن میں جسٹس بشیر الدین کی اختتامی تحریر میں آیا ہے ’’بد قسمتی سے مرکزی حکومت کی اجازت جو اِن شکایات کی تحقیق لے لئے ضروری ہے وقت پہ حاصل نہیں ہوتی یا ملتی ہی نہیںچناچہ چھتی سنگھ پورہ،برک پورہ،کونن خوش پورہ،ہندوارہ میں زنا بالجبرجیسے واقعات کے بارے میںجو قانونی کاروائی ہونی چاہیے تھی ہوئی نہیں ہے‘‘ ۔افسپاکے بارے میں جسٹس بشیر الدین تنہا جج نہیں جنہوں نے سخت الفاظ کا استعمال کیا ہے بلکہ بھارت میں شمال مشرقی ریاستوں مخصوصاََ منی پور میں جسٹس جیون ریڈی کمیشن نے افسپا کے نفاز کے خلاف رائے دی۔منی پور میں شہری تنظیموں کی ایجی ٹیشن کے بعدجسٹس جیون ریڈی کی قیادت میں ایک پنج ممبری کمیشن نے 6 جون 2005ء کے روز افسپا کو ہٹانے کی سفارش کی البتہ اُس زمانے میں وزیر دفاع پرناب مکر جی نے ایک سرکاری کمیشن کی سفارش کو رد کرتے ہوئے یہ رائے دی کہ فساد زدہ علاقوں میں افسپا ہٹانے حتّی کہ اُس میں ترمیم سے فوج موثر انداز میں کام نہیں کر سکتی ۔
افسپا کا جہاں ماضی میں بھارتی حکمراں دفاع کرتے رہے ہیں وہی حال ہی میں بھارتی افواج کے سربراہ جنرل راوت نے اُس کے اطلاق کو ضروری قرار دیا۔اِس روش کو مد نظر رکھتے ہوئے سانحہ شوپیاں کی دا رسی ہو بعید نظر آتا ہے۔شوپیاں جیسے حادثات کو روکنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ سویلین علاقوں کو فوج کے نقش پا سے تحفظ بخشا جائے ثانیاََ افسپا جیسے کالے قوانین سے زیادتیوں کی صورت میں فوج کو تحفظ بخشنے سے دریغ کیا جائے ثالثاََ حقوق بشر کے احترام میں مسئلہ کشمیر کے پُرامن حل کیلئے مناسب اقدامات کا آغاز کیا جائے۔
Feedback on:[email protected]