قصور پاکستان کے واقعے پر ہر آنکھ اشکبار ہے۔ زینب کا ایک شیطان صفت اور انسان نما درندے کے ہاتھوں انسانیت سوز قتل پر ہر انسان یہ سوال کر رہا ہے کہ اب ہماری زینبوں کو کون بچائے گا؟ صرف قصور شہر میں درندگی کا یہ تیرہواں واقعہ ہے اور اب بھی کئی بچیاں لاپتا ہیں۔ زینب کے قتل کے بعد پورا ضلع قصور اور اس کا گردو نواح سوگ میں تھا۔ ان کے ساتھ ہر شہری کا یہ مطالبہ ہے کہ اس درندہ صفت شخص کو قرار واقعی سزا اور کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔کمسن زینب گھرسےقرآن پڑھنے نکلی تھی کہ اس سفاکی کا نشانہ بن گئی، زینب کے والدین عمرے کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب میں تھے۔ وہیں انہیں یہ درد ناک خبر ملی۔ امی، ابو کو عمرے کے لیے الوداع کرتے وقت اس نے ساتھ جانے کی بڑی ضد کی تھی۔ والدین کی لاڈلی بیٹی نے اتنی ضد اس سے پہلے کبھی نہیں کی تھی۔ یہ والدین کی چہیتی اور لاڈلی تھی، آج والدین ایک بیٹی سے نہیں بلکہ اس کے مقدر سے ڈرتے ہیں۔ نہ جانے اس بیٹی کے لیے اس کے والدین نے کیا کیا سپنے سجا رکھے ہوں گے۔ اسکول کے آخری روز زینب کا لکھا ایک مضمون سامنے آیا ہے۔ جسے پڑھ کر آدمی کا دھاڑیں مار مار کر رونے کا دل کرتا ہے۔ زینب کو ڈرائنگ بنانے کا بے حد شوق تھا۔ ’’میری ذات‘‘ کے عنوان تلے ’’میں ایک لڑکی ہوں‘‘ کا ہوم ورک کچھ اس طرح ہے ’’میں ایک لڑکی ہوں، میرا نام زینب ہے، میرے والد کا نام امین ہے، میری عمر 7سال ہے، میں قصور میں رہتی ہوں، میں اول جماعت میں پڑھتی ہوں، میں الفاروق اسکو ل میں پڑھتی ہوں، مجھے آم بہت پسند ہیں‘‘۔ اسی کے ساتھ ایک بہتر ین ڈرائنگ بھی ہے جس میں زینب امین خوب صورت کر کے لکھا ہے۔ اوپر 4 جنوری کی تاریخ بھی درج کر دی، یہ وہی تاریخ ہے جب وہ لا پتہ ہوئی اور پھر گھر واپس نہ آسکی۔اس وقت میرے سامنے ننھی زینب امین کی تصویر دھری ہے۔ جو یہ کہہ رہی ہے کہ میرا کیا قصور تھا؟ جو میں حکمرانوں کی بے حسی، اداروں کی چپقلش اور قانون کے سقم کا شکار ہوئی ہوں۔ کمسن زینب کی تصویر پکار پکار کر سوئے ہوؤں کو گہری نیند سے جگارہی ہے۔ خدا کرے کہ زینب امین کی لاش اور بے دردانہ قتل آخری ثابت ہو۔