ہریانہ راجستھان اور مدھیہ پردیش میں حالیہ ایام کےد وران کشمیریوں کے ساتھ پیش آمدہ زیادتیوں کے واقعات سے یہ بات مترشح ہو رہی ہے کہ ہرگزرنے والے دن کے ساتھ بیرون ریاست مقیم کشمیریوں، خواہ وہ طالب علم ہو ں ،تاجرو ہوں یا ہنر مند نوکری پیشہ، کےلئے حالات مشکل ہوتے جارہے ہیں اور بدقسمتی کا مقام یہ ہے کہ انتہا پسند عناصر کی جانب سے پیش آنے والے ان واقعات میں مقامی انتظامیہ بروقت اور غیر جانبدارانہ انداز میں کاروائی عمل میں نہیں لاتی، جس کی وجہ سے ایسے عناصر کے حوصلے بلند ہورہے ہیں۔ اگرچہ ہریانہ میں کشمیری طلبہ کی مارپیٹ کے واقع پر رواں اسمبلی اجلاس میں زبردست ہنگامہ آرائی دیکھنے کو ملی اور ریاستی حکومت کی فوری حرکت پذیری کے ردعمل میں حکومت ہریانہ نے تین حملہ آوروں کی گرفتاری بھی عمل میں لائی۔ لیکن کیا ان حملہ آوروں کو اپنے کئے کی سزا ملے گی؟ یہ کہنا ابھی غالباً قبل از وقت ہوگا۔ تاہم جموںوکشمیر اور ہریانہ کی حکومتوں کی بروقت کاروائی سے اُن طالب علموں کے اعتماد میں مضبوطی پیدا ہوئی ہے، جو گھروں سے ہزاروں کلو میٹر دور خوف و تذبذب کے عالم میں مبتلاء ہے۔ اسی طرح راجستھان میں بھی گزشتہ دنوں بانڈی پورہ کے چھ نوجوانوں کو شکوک و شبہات کی بنا پر گرفتار کیا گیا ، حالانکہ وہ کاروباری سلسلہ میں اُس علاقہ سے گزر رہے ہیں۔ریاستی وزیر مالیات عبدالرحمٰن ویری نے کل ہی اسمبلی میںیہ انکشاف کیا کہ ان چھ نوجوانوں کو بھی ضروری پوچھ تاچھ کے بعد رہا کیا گیا ہے۔ یہ ساری کاروائیاں خوش آئند ہیں اور ان پر اطمینان کا اظہار کیا جانا چاہئے ۔ تاہم ریاست سے باہر کشمیریوں کےخلاف ایسا ماحول کیوں تشکیل پا رہا ہے اور اسکی حوصلہ افزائی کن حلقوں سے ہو رہی ہے انکی نشاندہی کرکے انکے عزائم کو ناکام بنانے کی ضرورت ہےاور اس کے لئے کلیدی ذمہ داری ریاستی حکومت پر عائد ہو تی ہے۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ میڈیا کے ایک حلقے کی جانب سے، جس میں الیکٹرانک میڈیا پیش پیش ہے، کشمیر کی تاریخ، جغرافیہ ،سیاسی تاریخ اور سیاست کےحوالے سے متواتر زہر افشانی کرکے کچے اذہان کو آلودہ کرکے کشمیر دشمنی پر آمادہ کیا جا رہا ہے۔بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ اس یورش میں انہیں نئی دہلی میں برسراقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی کے کچھ قائدین کی طرف سے بھر پور اعانت مل رہی ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ کئی مرکزی وزراء اور اعلیٰ سیکورٹی افسران کی جانب سے بار بار کی بیان بازیوں سے اس پروپگنڈا مہم کو دست و بازو فراہم ہو رہے ہیں۔ چنانچہ بھارت بھر میں اس وقت جو سیاسی صف آرائیاں ہو رہی ہیں اس میں کشمیر اور کشمیریوں کو ایک ایشو بنا کر سیاسی عزائم کی تکمیل کےلئے ہاتھ پائوں مارنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ حالانکہ ملک بھر میں سنجیدہ فکر طبقہ کشمیر کے حالات کے حوالے سے پریشان ہے اور اس شبہ کا برملا اظہار کر رہا ہے کہ کشمیر میں حالات کی مسلسل خرابی کے ساتھ کئی حلقوں کے سیاسی اور اقتصادی مفادات وابستہ ہو رہے ہیں ، اسی طرح ایل او سی پر آئے روز کے ٹکرائو کو بھی دونوں ممالک کے اندر مختلف حلقوں کے معیشی مفادات سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ اگر چہ دونوں جانب سے اسے قومی مفادات کا نام دیکر جائز ٹھہرانے کی کوششیں کی جارہی ہیں لیکن ایسا کرتے ہوئے ریاستی عوام اور خاص کر ایل اوسی کی دونوںجانب سے رہنے والے لوگوں کی مشکلات اور مصائب کو متواتر نظر انداز کیاجا رہا ہے۔ حکومت کی جانب سے بر وقت کاروائی کرکے بیرون ریاست پیش آئے حالیہ واقعات کا ازالہ کرنے کی کوششیں کی گئی ہے تاہم مختلف ریاستوں میں مقیم جموںوکشمیر کے عوام کو بار بار ان مشکلات کا مقابلہ کرنا پڑ رہا ہے۔ گزرے ایام میں کرناٹک اور آندھرا میں بھی کشمیریوںکی ہراسانی کے واقعات پیش آئے ہیں، جبکہ مہاراشٹر کے شہر پُنے میں بھی گزشتہ دنوں کشمیری تاجروں، طلبہ اور کامگاروں نے پولیس سے رابطہ قائم کرکے ہراسانی سے حفاظت کےلئے امداد و اعانت طلب کی ہے۔ ریاستی حکومت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بیرون ریاست مقیم کشمیریوں کی حفاظت اور انہیں ہراسان کرنے والوں کےخلاف کاروائی کرنے کےلئے مرکزی حکومت اور متعلقہ ریاستی سرکاروں کو آمادہ کرے۔ وگرنہ ایک جانب کھیل کود، ادب و ثقافت اور تفرریح کے نام پر ریاستی طلبہ اور نوجوانوں کو بیرون ریاست لے جا کر وہاں کے تمدن اور سوچ سے ہم آہنگ کرنے کے پروگراموں، جن پر کروڑوں روپے خرچ کئے جارہے ہیں، کا مفاد اور مقصد کیا رہتا ہے۔ اور تو اور ان پروگراموں میں فوج اور پولیس پیش پیش رہتی ہے۔ ہراسانی کے یہ واقعات اکثر و بیشتر اُن ریاستوں میں پیش آرہے ہیں ، جہاں بھاجپا کی حکومتیں ہیں ۔ ایسا کیوں ہو رہاہے؟ اس کےلئے ریاستی سرکار کو جواب دینا چاہئے، کیونکہ جموںوکشمیر میں بھاجپا بھی پی ڈی پی کے ساتھ شریک اقتدار ہے۔ ایسا کیوں ہے کہ وہ ان ریاستوں کو قائل کرنے میں کامیاب نہیں ہو پار ہی ہیں، حالانکہ پی ڈی پی حکومت کا یہ بنیادی ایجنڈا ہے کہ تصادم آرائی کی سیاست کو ترک کرکے افہام و تفہیم اور مذاکرات کی سیاست کو بڑھاوا دیا جانا چاہئے۔ لیکن جس عنوان سے کشمیر اور کشمیریوں کو بدنام کرنے کی مہم چھیڑ کر انہیں نشانہ بنانے کا عمل جاری ہے، اسکے رہتے افہام و تفہیم کے ماحول کےلئے کون سی جگہ باقی بچتی ہے۔ ریاستی حکومت کو کم از کم ایسے عناصر کو کیفر کردار تک پہنچانے کےلئے ہمہ تن مہم شروع کرنی چاہئے، جو بیرون ریاست کشمیریوں پر حملے کرنے میں ملوث پائے جائیں۔ وگرنہ ریاستی عوام کے اعتماد میں مزید کمزوری پیدا ہونے سے صورتحال کی مزید ابتری کا اندیشہ نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔