۔24جنوری کو چی گنڈ شوپیان میں فوج کی گولی سے ایک سترہ سالہ نوجوان کو زندگی سے محروم کردیا گیااور دو لڑکیاں گولیاں لگنے سے زخمی ہوئیں۔26جنوری کو جب پورے ہندوستان میں یوم جمہوریہ کا جشن منایا جارہا تھا ریاست کے گورنر این این ووہرا نے جموں میں پرچم کشائی کی تقریب سے خطاب کے دوران ایجی ٹیشنوں میں نوجوانوں کی شرکت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ افسوسناک بات ہے کہ ہمارا سیاسی نظام اور سماج نوجوانوں کو ایجی ٹیشنوں میں شامل ہونے سے بچانے کی ہمت نہیں کرپایا ہے۔ انہوں نے زور دیکر کہا کہ ایسے اقدامات اٹھائے جانے چاہئے جن کی بدولت نوجوانوں کو تشدد کا راستہ اختیار کرنے سے روکا جاسکے۔ان کے یہ الفاظ ابھی چوبیس گھنٹے بھی پرانے نہیں ہوئے تھے کہ 27جنوری کو شوپیان میں فوج کی فائرنگ سے مزید دو نوجوان موت کی ابدی نیند سوگئے ، اب تو ہلاکتوں کی تعداد تین ہوگئی ہے۔
اس سانحے نے ایک بار پھر پوری وادی کو ہلاکر رکھ دیا۔وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے واقعہ پر افسوس کرتے ہوئے کہا کہ ایسے واقعات امن عمل کی کوششوں کو پٹری سے اتارنے کا سبب بن رہے ہیں۔ انہوںنے فوری طور پر وزیر دفاع کے ساتھ فون پر رابطہ قائم کیا اور واقعہ کی مجسٹریل تحقیقات کا حکم صادر کردیا۔ٍٍ پولیس نے بھی فوری طور پر ایف آئی آر درج کرلیا۔ لیکن عوام کا غم و غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوششیں بار آور ثابت نہیں ہورہی ہے۔ جنوبی کشمیر میں خاص طور پر شدید غم و غصے کا عالم ہے اور شوپیان ہنوز ماتم میں ڈوبا ہوا ہے۔ اس دوران فوج کی متعلقہ یونٹ نے اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے کہا کہ دو سے ڈھائی سو نوجوانوں کی ٹولی نے فوج کی ایک گاڑی میں جوانوں پر حملہ کردیا تھا اور ایک افسر سے ہتھیار چھین کر اسے مار پیٹ کر قتل کرنے کی کوشش کی چنانچہ فوج نے اپنی حفاظت کیلئے گولی چلائی۔اس بیان نے جلتی پر تیل کا کام کیا کیونکہ شوپیان میں عوام اور عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ فوج نے بلااشتعال فائرنگ کی۔
اسی اثناء میں ریاستی حکومت میں شامل پی ڈی پی کی اتحادی جماعت بی جے پی جو مرکز میں برسر اقتدار ہے کے ایک ممبر اسمبلی رویندر رینا کا بیان سامنے آیا جس میں فوج کی فائرنگ کو اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ شوپیان میں پا کستان اور علیحدگی پسندوں نے فوجی گاڑیوں پر حملے کی سازش رچی تھی۔ دو سو پتھر بازوں ، غنڈوں ، مجرموں اور ملک دشمنوں نے فوج کے قافلے میں شامل ایک گاڑی پر حملہ کیا جس میں ہمارے چند ایک جوان زخمی ہوئے جبکہ گاڑیوں کو بھی نقصان پہونچا اور جب ہمارے جوانوں کے ہتھیار چھیننے کی کوشش کی گئی تو جوابی کاروائی وقت کی اہم ضرورت تھی۔اس بیان کو سوشل میڈیا پر فوج کی حمایت کرنے والوں نے خوب استعمال کیا جبکہ اس کے جواب میں تحریک مزاحمت کے حامیوں نے پوری صلاحیتیں اور قوتیں صرف کردیں۔اس طرح جس علیحدگی پسندی یا انتہا پسندی کی بات کی جارہی ہے اسے زندہ رکھنے اور مضبوط کرنے میں وہی قوتیں کلیدی کردار ادا کررہی ہیں جو اس کے خاتمے کے لئے گولیاں چلانے کو حق بجانب قرار دے رہی ہیں۔
29جنوری کو اسمبلی کے بجٹ اجلاس کے دوران شوپیان سانحے پر بحث ہوئی۔ اپوزیشن نے خوب واویلا کیا اور جب وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے بحث کا جواب دیا تو انہوں نے اس واقعہ کو ایک سانحہ قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ تحقیقات کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔ انہوں نے ایوان کو اس بات سے بھی آگاہ کیا کہ جب وزیر دفاع کے ساتھ ان کی بات ہوئی تو ان کا ردعمل بھی حوصلہ افزاء تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہر ادارے میں کچھ کالی بھیڑیں ہوتی ہیں۔ لیکن ان کی تقریر سے پہلے خود ان کی اتحادی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی فوج کے خلاف ایف آئی آر واپس لینے کا مطالبہ ایوان میں ہی کرچکی تھی۔
واقعات اور بیانات کی یہ پوری کہانی بجائے خود ایک نئی کہانی بیان کررہی ہے جو یہ خدشات پیدا کرنے کیلئے کافی ہے کہ تحقیقات کا حشر بھی سابق تحقیقاتوں جیسا ہوسکتا ہے اور جو کچھ ہورہا ہے وہ اسی طرح سے آگے بھی ہوتا رہے گا۔انسانی خون زمین پیتی رہے گی۔ حکومت تحقیقات کا حکم دیتی رہے گی۔ نہ کوئی مجرم قرار پائے گا اور نہ ہی کسی کو سزا ہوگی اور نہ ہی اس طریقہ کار میں کوئی تبدیلی آسکے گی جو اس وقت جاری و ساری ہے۔اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ انتظامی اور سیاسی سطح پر کسی پہل کا کوئی وجود نہیں ہے۔ اسی کا شدید احساس گورنر این این ووہرا کو بھی ہے جس کا انہوں نے یہ کہہ کر اظہار کیا ہے کہ ہمارا سیاسی نظام اور سماج نوجوانوں کو ایجی ٹیشنوں سے باہر لانے کے لئے کچھ نہیں کررہا ہے اور جب انتظامی اور سیاسی پہل کا سرے سے فقدان ہے تو باقی وہی راستہ بچ جاتا ہے جو خون کے دریا سے گزرتا ہے۔نئی دہلی سے سرینگر تک اقتدارکے ایوانوں میں یہ احساس نہ کبھی پیدا ہوا اور نہ ہی پیدا ہونے کا کوئی امکان موجود ہے کہ ایک ایسی سوچ پیدا کی جائے جو مثبت نتائج پیدا کرنے میں مددگار ہو۔ ایک ہی حکومت کے اندر اتنا بڑا اختلاف ہے کہ اقتدار کی سب سے بڑی کرسی پر بیٹھی وزیر اعلیٰ کی سوچ کو ااسمبلی کے ایوان کے اندر وہی لوگ مستر د کررہے ہیں جنہوں نے انہیں اپنا اعتماد دیکر وزیر اعلیٰ کی کرسی پر بٹھا دیا ہے ۔ اگر سوچ اور نظرئیے کا بنیادی فرق موجود ہے تو پھر اتحاد کیسا اورکیوں ہے۔
سوچ کے الگ الگ دھاروں کے ساتھ ایک ایسی پالیسی کیسے بن سکتی ہے جو ایک مقبول سوچ کو بدل سکتی ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کا کشمیر سے متعلق ایک جارحانہ نظریہ ہے اور یہی جماعت مرکز میں برسر اقتدار ہے۔ وہ کشمیر کے نام پر اپنی سیاست کررہی ہے اور پی ڈی پی کی ایک مختلف سوچ ہے اس کی کانسچونسی کشمیر ہے اس لئے اپنی کانسٹچونسی کے احساسات سے ہم آہنگ ہونے کی کوشش کرنا اس کی مجبوری ہے۔ دونوں اپنی اپنی سیاست کررہے ہیں، ایسے میں کشمیر کے حالات کو بدلنے کیلئے سیاسی پہل کہاں سے آسکتی ہے۔حق یہ ہے کہ پچھلے تیس سال میں خاص طور پر مرکزی اور ریاستی سرکاروں کی سوچ کے تضاد نے ہی حالات کو یہاں تک پہنچایا ہے جہاں ایک خونین تاریخ رقم ہورہی ہے۔
اگر یہی صورتحال جاری رہتی ہے تو وہ لوگ بھی ایک دن غلط ثابت ہوں گے جو آج یہ دعوے کررہے ہیں کہ کشمیر میں آئی ایس آئی ایس کا کوئی وجود نہیں۔انہیں یہ بات سمجھ لینی ہوگی کہ کشمیر میں تشدد کا بھی کوئی وجود نہیں تھا۔ کشمیری خمیر میں تشدد کے لئے کوئی جگہ ہی نہیں تھی لیکن جس نسل کو اس بات پر اٹل یقین تھا کہ خون خرابہ حیوانیت کا ایک جذبہ ہے جو انسانوں کو زیب نہیں دیتا، اسی نسل کے بچے سیاسی استحصال اور غیر یقینی کے ماحول میں اپنے لئے تشدد کے سوا کوئی اور راستہ کھلا نہیں پاسکے۔ انہوں نے احتجاج کئے۔ انتحابات میں حصہ لیکر اپنی تقدیر اپنے ہاتھ سے لکھنے کی کوشش کی، لیکن جب ناکام ہوئے تو بندوق کا سہارا ایک آخری سہارا بچ گیا۔اب تشدد بھی ان کی امیدوں اور آرزووں کو پورا نہیں کررہا ہے، اس لئے وہ اس سے بھی زیادہ بھیانک راستوں کا انتخاب کرنے سے دریغ نہیں کریں گے۔
قومی دھارے کا سیاسی نظریہ ہی ناکام ہوچکا ہے۔ اس نے عوام کی کوئی امید پوری نہیں کی بلکہ قومی دھارے کی ہر جماعت موقع پرستی اور سیاسی دھوکے بازی کا کھلا مظاہرہ کررہی ہے۔عوام اتنے بے وقوف نہیں کہ وہ ان سیاسی چالبازیوں کو نہ سمجھ سکیں۔تعلیم یافتہ نوجوان خاص طورپر اس بات کو سمجھ سکتے ہیں اس لئے وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے ہی بندوق کا راستہ اختیار کررہے ہیں۔تعلیمی اداروں میں انسان کا شعور بیدار ہوتا ہے۔
جب کشمیری نوجوان کا شعور بیدار ہوتا ہے تو وہ سوچنے لگتا ہے کہ اس کے ساتھ کیا ہورہا ہے۔ اس کے سرپر دفعہ 35اور دفعہ370کی تلوار کیوں لٹک رہی ہے۔اسے اپنی حکومت خود چننے کا حق بھی کیوں حاصل نہیں ہے۔ دہلی سے ہی حکمراں کیوں چنے جاتے ہیں۔انتخابات میں جیت اور ہار کے فیصلے ووٹ ڈالنے سے پہلے خفیہ ایجنسیوں کے ایوانوں میں کیوں ہوتے ہیں۔نئی دہلی میں ہی سیاسی پارٹیاں کیوں بن رہی ہیں۔سٹیٹ سبجیکٹ قانون ختم کرنے کی آوازیں کیوں اٹھ رہی ہے۔کشمیریوں کو اپنی تہذیبی اور سیاسی انفرادیت کے ساتھ اپنی شرطوں پر جینے کا حق کیوں نہیں دیا جارہا ہے۔یہ سارے سوالات اسے دیوانہ کردیتے ہیں اور وہ بندوقوں کے سامنے ہاتھوںمیں پتھر لیکر کھڑا ہوجاتا ہے۔ہندوستان کا اقتدار ان حقائق کو سمجھنے کے بجائے یہی سمجھتا ہے کہ یہ سب پاکستان کررہا ہے اور اس میں مذہبی انتہا پسندی کا بہت اہم کردار ہے اگر یہ نہ ہو تو کشمیر موم کی گڑیا ہے جسے ہم جیسے چاہے نچا سکتے ہیں۔یہ غیر انسانی ، غیر جمہوری اور غیر اصولی سوچ ہے۔زمینی حقائق اس بات کی کھلی گواہی دے رہے ہیں کہ جو کچھ بھی ہورہا ہے اسے انتفاضہ کہئے ، بغاوت کہئے یا مزاحمت کہئے۔ اس کی قیادت کسی کے ہاتھ میں نہیں۔ مزاحمتی قایدین کا مشترکہ فورم بھی اگر اس سے ہاتھ کھینچ لیتا ہے اور اگر کسی روز پاکستان بھی کشمیر سے دستبردار ہونے کا اعلان کرتا ہے تب بھی اس کے ختم ہونے کی بات تو دور تھم جانے کے بھی امکانات نظر نہیں آرہے ہیں کیونکہ یہ ایک پوری قوم کے اندر جاگا ہوا ایک احساس ہے اور احساس جب تک موجود ہے اس کے نتائج بھی موجود رہیں گے۔
ہندوستان کا پورا سیاسی نظام حالات کی سنگینی کو قبول کرنے سے عمداًانکار کررہا ہے حالانکہ جنوبی کشمیر کی اننت ناگ پارلیمانی نشست پر انتخاب کرانے کی ہمت بھی اس عظیم نظام میں نہیں تھی اور اب پنچایتی انتخابات سے بچنے کے راستے بھی تلاش کئے جارہے ہیں۔آج جب بھارت اپنے راشٹر پتا مہا تما گاندھی کی ساگرہ منا رہا ہے سیاسی پنڈتوں کو کشمیر کے حالات کی گہرائی اور شدت کا احساس کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اس کی تاریخ کا نئے سرے سے مطالعہ کرکے موجودہ شورش کو سمجھنے کے بعد ان عوامل کو تلاش کرنا چاہئے جو خود انہی کے پیدا کردہ ہیں۔ اس کے بعد ہی علاج کی کوئی صورت نظر آسکتی ہے ورنہ کشمیر کا آتش فشاں پورے برصغیر ہند و پاک کیلئے نہ جانے کیسی قیامت لیکر آئے گا۔
ماخذ: ہفت روزہ نوائے جہلم سری نگر