نوجوانی ہر انسان کی زندگی کی ایک درخشاں حقیقت اورحیات انسانی کا بے بدل اور عدیم المثال باب ہے۔ جس معاشرے میں بھی صحت مند بنیادوں پر نوجوانوں کی سیرت سازی پر کما حقہ توجہ دی جائے گی ،وہ لامحالہ عروج وکمال کا آسمان چھو لے گا اور اس کے لئے خود کو ایک صالح معاشرے میں ڈھالنا اور صلاح وفلاح کی راہ میں بڑی کامیابیاں حاصل ہونا بائیں ہاتھ کا کھیل ہو گا۔ عالمِ شباب ضوفشانی کاوہ دور ،دور ہ ہوتاہے کہ جو اپنی کم طوالت کے باوجود انسان کی پوری زندگی پر طویل المیعاد اور دائمی اثرات مرتب کرتا ہے۔جس طرح نوجوانوں کے جسم انرجی اور شادابی کی آماج گاہ ہوتے ہیں، اُن کی روح بھی اسی طرح شاداب ہوتی ہے۔اچھی تربیت میں پلے نوجوان اپنی نوجوانی کے ایام میں فداکار، با ہوش فعال اور پیش قدم نوجوان کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔وہ پر خطر میدانوں میں سینہ سپر ہو جاتے ہیں اور دشوار ترین کام اپنے ذمے لے لیتے ہیں، سماجی امور میں وہ ہر لحاظ سے پیش پیش رہنے والے اورہردستہ اول کے طور پرہوتے ہیں۔
نوجوانی کے قابل تعریف خصائص میں، توانائی، قدرت، جدت عمل اور جوش و جذبہ ہے۔ کیا نوجوان کی یہ خصوصیات اکتسابی ہیں یعنی کیا اس نے یہ خصوصیات اپنے اندر پیدا کی ہیں؟ نہیں، انصاف پسندی، جوش و جذبہ، بلند ہمتی یہ خصوصیات جو نوجوان میں پائی جاتی ہیں، وہ ایسی نہیں ہیں کہ اس نے ان کے لئے خاص محنت کی ہو۔ یہ تو اس کی زندگی اور اس کی عمر کے اس مرحلے کا فطری تقاضا ہے۔ بنابریں یہ عطیات ہیں، تو ظاہر ہے کہ اس کے جواب میں کچھ فرائض بھی ہوں گے جنہیں پورا کیا جانا چاہئے۔ اس متنفس کو اس کی فکری توانائی، اس کی عقلی صلاحیت، اس کی جسمانی طاقت، اس کی اعصابی قوت اور اس کے ناشناختہ پہلوئوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے خلق فرمایا ہے تاکہ وہ ان قدرتی نعمتوں اور اس مادی دنیا کو وسیلے کے طور پر استعمال کرے اور خود کو قرب الہیٰ کے بلند مقامات پر پہنچائے۔ عظیم نوجوان نسل ایک فیاض اور متلاطم دریا کی مانند ہے۔ یہ دریا مسلسل بہہ رہا ہے اور برسوں بعد بھی اسی طرح بہتا رہے گا۔ اس دریا کے سلسلے میں دو طرح کا طرز عمل اختیار کیا جا سکتا ہے۔
نوجوان کو جن امورکے ساتھ میلان اور رغبت ہوتی ہے، ان میں سرفہرست یہ ہے کہ وہ سر اٹھا کے چلنا چاہتے ہیں، کسی غیر کا اسیر اور تابع نہیں رہنا چاہتے۔نوجوان کی فطرت میں ہے کہ سر اٹھا کے کھڑا ہوتاہے، وہ اغیار کے سامنے سر جھکایا نہیں کرتا اورجب ہم کشمیرکی بات کرتے ہیںتوگذشتہ ستائیس برسوں کے عرصے میںہرطرف اس کی بے حدوحساب تاباں مثالیں ملتی ہیں۔ گوناگوں خطرات اور خوف و ہراس کے باوجود کشمیری نوجوان نے اپنے اندپسپائی کی نفسیات کو اپنی خودی ، طبیعت اور افکار میں نقب لگانے کی راہ نہیںدی۔نوجوان حق بات کو آسانی سے قبول کر لیتا ہے، یہ اپنے آپ میں بہت اہم ہے۔ نوجوان پوری صداقت کے ساتھ واضح الفاظ میں اپنا اعتراض بیان کرتا ہے اور بغیر کسی اندرونی جھجک اور پس و پیش کے بے فکری کے ساتھ اقدام کرتا ہے۔ یہ بھی بہت اہم حقیقت ہے۔ آسانی سے بات کا قبول کرنا، سچائی کے ساتھ اپنا اعتراض بیان کر دینا اور بے فکری کے ساتھ عمل کرنا،اگر آپ ان تینوں خصوصیات کو ایک ساتھ رکھیں اورغور کر یں تو آپ کو دنیا بڑی خوبصورت اور دلکش حقیقت نظر آئے گی، آپ کو معلوم ہوگا کہ مسائل کے حل کی کتنی اہم کنجی آپ کو مل گئی ہے۔نوجوان فطری طور پر اصلاح پسند اور انقلاب آفریں ہوتا ہے۔ فطری طور پر عدل و انصاف کا خواہاں ہوتا ہے،آزادی اور اسلامی امنگوں کو عملی جامہ پہنائے جانے کا خواہشمند ہوتا ہے۔ اسلامی اہداف اور مقاصد اس کے اندر ہیجانی کیفیت پیدا کر دیتے ہیں، اس کے اندر جوش و جذبہ پیدا کر دیتے ہیں۔ مقائسے اور موازنے کے ذریعے چیزوں کی خامیوں کی نشاندہی کرکے انہیں دور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ بہت بڑی اور بالکل نمایاں خصوصیت ہے۔
نوجوان چاہتا ہے کہ مذہبی اور دینی باتیں اسے بتائی اور سمجھائی جائیں۔ آج کا نوجوان چاہتا ہے کہ اپنے دین کو عقل و منطق اور دلیل و استدلال کی روشنی میں سمجھے، یہ بالکل بجا خواہش ہے۔ اس خواہش اور مطالبہ کی تعلیم تو خود دین نے لوگوں کو دی ہے۔ قرآن ہمیں سکھاتا ہے کہ اسلامی تعلیمات کے سلسلے میں فکر و نظر اور فہم و تدبر کے ساتھ آگے بڑھیں۔ متعلقہ ذمہ دار افراد اول والدین ،دوئم استاداورسوئم علماء الدین ومفکرین اگر نوجوانوں میںخالص فکری عمل رائج کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو وہ دیکھیں گے کہ نوجوان دینی احکامات و تعلیمات پر عمل آوری سے بہت مانوس ہوتاچلاجاتا ہے۔لیکن کشمیرمیں دینی مزاج کے حامل نوجوانوںکوتقسیم کرنے کی سازشیں عروج پر ہیں جن سے وہ بے خبرہیں۔اگروہ ان سازشوںسے بے خبرنہ ہوتے توپھروہ مسالک کے نام پرتقسیم درتقسیم نظر نہ آتے ۔انہیںمسالک کی پہچان ایسی کرائی گئی جیسے یہ متحارب سلسلے ہیں اورانکی لڑائی بڑائی ہونی ہی ہونی ہے۔انہیں اختلاف تفہیم یااختلاف رائے اورجھگڑے میں تمیزکرناسکھایاہی نہیں جاتا۔کشمیرجسے مزاحمت و ردِ مزاحمت نے ایک بڑے مذبح میں تبدیل کردیاہے،ہرروزجنازے اٹھ رہے ہیں اورنوجوانوں کی بربادیوں کے خاکے میں رنگ بھرنے کے لئے ہزارہا محاذوں پر آپرویشن آل آؤٹ شب وروزجاری ہے۔ ہم اسے سمجھ پارہے ہیں یا نہیں اس سے قطع نظر ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ اس آتشیں فضا میں فائدہ کس کااورنقصان کس کا ہو رہاہے ؟ہم سب ا س سے ہرگزلاتعلق نہیں رہ سکتے۔
سوال یہ ہے کہ مسالک آج بے نیام تلواریں کیوں؟جب کہ مسلمانوں کے مختلف مسالک کے درمیان اتفاق بہت زیادہ ہے اور اختلاف رائے بہت کم۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ دین کے کچھ مسائل کو سمجھنے یافہم دین کے معاملے میںاکابرین امت کی آراء میں اختلاف رہاہے لیکن ماضی میں یہ اختلافِ رائے شائستگی اور برداشت کی حد میں رہے ہیں۔کاش ہم بھی اسلاف کے طرزعمل کواختیارکرکے شائستگی اور ادب کے ساتھ اختلافِ رائے کااظہارکریں اوراسے ردوقبول کریں۔ہم دیکھتے ہیںکہ ہمارے اسلاف نے ہم آہنگی اوریکجہتی اورتنوع وگوناگونی کے معاملات پر دانشورانہ انداز میں غوروفکرکیا ہے ۔اس لئے لازم تھاکہ ہم اپنے اسلاف کی طرح ہم نہ خود مشتعل ہوں گے اور نہ دوسروں کو مشتعل کریں گے۔ اس سے بھی بڑھ کر عزیمت کا راستہ یہ ہے کہ ہم یک طرفہ طور پر صبروبرداشت کا راستہ اختیار کریں۔ یہی سبق ہمیں سکھایا گیا ہے اور اسی میں امتِ مسلمہ کا وسیع تر مفاد ہے لیکن ہماری صورتحال کتنی گھمبیراوراپنے اسلاف کے طورطریقوںسے دورہے، اس پرمیں سینکڑوں صفحات لکھے جا سکتے ہیںاور حق یہ ہے کہ اس عنوان سے روشن و مبرہن اور واضح احکامات کے باوجود ہم سبھی کچھ ہے بس ملت واحدہ نہیں ہے ۔ ہم فرقوں میں کھو کر بھٹک گئے ہیں ،ملت واحدہ کی ہماری اصل شناخت ہی گم ہو گئی ہے اورمسلکی بنیاد پر اپنی اپنی پہچان اور شناخت بنالی ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارا رزوال یہیںسے شروع ہوتا ہے ۔یہی سے نفرت کدورت اور دشمنی جنم لیتی ہیں۔ لفظی جنگ کا محاذ کھلتا ہے الفاظ کے وار سے اس جنگ کی شروعات ہوتی ہے، ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالی جاتی ہے پھر انجام اس کا انسانیت کی تذلیل پر ختم ہو جاتی ہے اوراس طرح اقدار اس چپقلش میں پائوں تلے رونڈ ڈالے جاتے ہیں ۔
مسلمان جب توحید ورسالت اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ قرآن مجید کو واجب الاتباع مانتے ہیں،رسول اللہ کے فرامین کو اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں اوردین کوحرزجان بنالیتے ہیں۔تویہی دین مبین کاکل ہے اورکل ہی ایمان کہلاتاہے ۔ یقینادین کے جزو کے کچھ معاملات پر اختلاف تفہیم بھی ہے لیکن اگر نسبت کا جائزہ لیا جائے تو نونانوے فیصد اتفاق ہے اورایک فیصد اختلاف لیکن بدقسمتی سے جزو پراِس ایک فیصد اختلاف تفہیم یااختلاف رائے نے اِس ملت کو یوں ٹکڑے ٹکڑے کرکے رکھ دیا ہے کہ دشمنی اور منافرت کا ایک گرم بازاری ہے۔ ایک دوسرے کی توقیراور آبرو پرتابڑتوڑ حملے ہورہے ہیں اورہرایک دوسرے کی مخالفت میں غیظ وغضب میںغلطان وپیچان ہے۔علمی قنوطیت اور تنگ نظری کا یہ طوفان اِس حد تک امتِ مسلمہ کے اندر سرایت کرگیا ہے کہ مسلمانوںکے مابین ایک معرکہ کارزار برپا ہے ۔ اس طرزِعمل نے اِس امت کی وحدت کو پارہ پارہ کردیاہے، اور مقابل اورمحارب قوتوں کاکام آسان ہوچکاہے۔وہ ہاتھ پرہاتھ دھرے ہماراتماشہ دیکھ رہی ہیں۔
بکھرے ہوئے مسلمانوں کوایک لڑی میں پرودینا،امت مسلمہ کے افراد کی یکجہتی کو دوام اور بقاء بخشنے کے لئے علمائے امت اورمفکرین ذمہ دارہیں ،مسلمانوں کوچاردانگ عالم امہ کے نظریے اور فلسفے پر اکھٹا کرنے کافریضہ ان پرعائد ہوتا ہے۔کیا خوب ہوتا کہ ہم ہزار فرقوں مسلکوں کی بجائے ایک امت ایک جان کی مثال پیش کرتے تو اغیار بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ پاتے۔ واضح رہے کہ فرقہ بندی کی شروعات ہی محراب و منبر سے ہوتی ہے اور اس کا اختتام بھی محراب و منبر ہی سے ہوگا ۔یہ ذمہ داری ہمارے مفکرین، اکابرین اور علمائے کرام کی ہے کہ وہ اپنے مواعظ میں منبر و محراب کی تقدس کا اسی طرح خیال کریں کہ جیسااس کاحق ہے یعنی یہ سیدالانبیاء ؐاورآخری نبی اورآخری رسول ؐکے مقام ومر تبہ کے نگاہ دار ہیں۔ اس ٹھوس حقیقت کے پیش نظر اس مقام پرفائزوارثانِ منبر رسولؐ مسلمانوں کو اتحاد و اتفاق کا درس دیں نہ کہ آپس میں باہمی جذبات کو بھڑکائیں۔ اس حوالے سے بہت سے جید علمائے کرام اپنے فرائض بخوبی انجام دے رہے ہیںلیکن ایک قلیل تعداد میں خطباء کی یاسی بھی پائی جاتی ہے جو اس بارے میں کچھ شتر بے مہار بنے ہوئے ہیں۔ کیا پتہ ان کی تاریں کہاں سے ہلائی جارہی ہیں کہ وہ نتائج وعقوب اور دینی مزاج کو نظر انداز کر کے جلتی پر تیل ڈالنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے ۔ کشمیرجسے معلوم ونامعلوم قوتوں نے ایک بڑے مذبح میں تبدیل کردیاہے ، ہمارے بعض اکابرین اوراہل علم وفضل کواس کاعشروعشیرکابھی ادارک نہیں۔کاش انہیں یہ بات سمجھ میں آجاتی کہ نمسلکوں کی جنگ کا مقصد صرف اور صرف مسلمانوں کو آپس میں لڑانا ، امت مسلمہ کے اندر بے چینی پھیلانا اور امت مسلمہ کو اندر سے کمزور کرنا ہے ۔ہمیں بحیثیت مسلمان اور بحیثیت کشمیری مسلمان اس امرکاادارک ہونا چاہئے اورہماری منفی اداوں سے دشمنوں کو کامیاب نہیں ہونے دیناچاہئے ۔یہی ہم سب کے مفاد میں ہے اور اسی میں قوم ِکاشمر کا فلاح وبہبود مضمر ہے ۔
کشمیرمیں تفریق اور اختلافات، اُمت کے اجتماعی ماحول اور مقاصد کے لیے نقصان کا باعث بن رہے ہیں، ان کو سمیٹنے کی صورت نکالنی چاہیے ۔عظیم مقاصدکے حصول کے لئے تمام دینی حلقوں کو مل جل کر محنت کرنی چاہیے۔ لیکن اگروہ باہم دست گریبان رہے تو باہمی مسلکی اختلافات کے بارے میں مل بیٹھ کر باہمی اتفاق رائے سے ہر مسئلہ میں قدر مشترک طے کر کے اس کا اعلان کیا جائے۔امت کی اجتماعی ضروریات کا احساس رکھتے ہیں اور اختلافات امت میں اجتماعی دینی جدوجہد میں جس طرح رکاوٹ بنے ہوئے ہیں وہ بھی ہمارے سامنے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ آپس کی ملاقاتوں اور رابطوں کو بڑھائیں۔ اس لیے کہ باہمی ملاقاتوں، تبادل خیالات اور افہام و تفہیم کے ذریعہ بہت سے مسائل خود بخود حل ہو جاتے ہیں اور ایک دوسرے کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ اسی طرح اختلافی مسائل کو بلا ضرورت نہ بیان کیا جائے اور جہاں بیان کرنے کی ضرورت محسوس ہو وہاں ان کا اظہار دلیل اور سلیقہ کے ساتھ ہو۔ اس طرح ایک ایسا ماحول قائم ہوگا جس میں ہم متنازعہ مسائل پر باہمی بحث و مباحثہ اور کوئی قدر مشترک طے کرنے کی طرف بھی پیش قدمی کر سکیں گے۔ فاصلوں کو مٹانا اور روایات کاتجزیہ کرکے ایسی بامعنی افہام و تفہیم کو فروغ دینا اور باہم دگر تعظیم وتکریم کی فضا کو پروان چڑھانا علماء کی منصبی ذمہ داری ہے۔ اس کے لئے اولین ضرورت یہ ہے کہ جہالت اور خود غرضی وانانیت کے دروازوں کو بند کرنا ہوگا – بات صاف ہے اگر ہم اسی طرح دینی مسائل کی تشریح و تفہیم اورتعبیرکے مسئلہ پر جھگڑتے رہیںگے توجیساعرض کیاجاچکاہے کہ ہم دشمن کاکام آسان بنادیتے ہیں۔جو قدم ہمیں اٹھانا ہے وہ یہ ہے کہ ہم ایک مثبت رویہ اپنائیں جس کے نتیجے میں ہم میں یکجہتی پیدا ہوسکتی ہے اور ہم دینی مسائل کی مختلف تشریحات کا احترام کرنا سیکھ سکتے ہیں -تاہم جس چیز کی حوصلہ شکنی کرنے کی ضرورت ہے وہ ہے فرقہ پرستی کیونکہ اس کے نتیجے میں ہم میں علیحدگی ، خودنمائی اور دوسروں کے خلاف جن کی تعبیرات ہم سے مختلف ہیں تشدد کے جذبات پیدا ہو سکتے ہیں۔
کتنااچھاہوتاکہ علمائے دین عوام الناس میںاختلافی موضوعات کو نہ چھیڑتے ،اور اپنے اپنے مسالک اور فرقوں کے موقف کو حق ٹھہرانے اور ودسروں کا سرعام ابطال کر نے کی بجائے تمام ائمہ و فقہا کے دلائل و براہین پر داخلی طور تہذیب وسنجیدگی کے دائرے میں بنحث ومباحثہ کرتے ، اختلافی نقطہ نظر پر توضیح و تشریح کرنے کے بعدجس کو جو موقف زیادہ اقرب الی الصواب اورمناسب معلوم پڑتا وہ خود اختیار کرلیتا۔اس طرح علم و آگہی کی روشنی میں فرقہ بندی اور مسلک پرستی خود ہی ختم ہوجاتی مگر ہم نے علم کو ہی افتراق و انتشار کا باعث بنا لیاہے ۔ ہم نے امت کے افتراق و انتشار اور تنازعات و اختلافات پر تنبیہ و تحذیر کرنے والی متعدد قرآنی آیات و احادیث کی کو نظر انداز کردیاہے ۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ہم نے جان بوجھ کر خود کو تفرقہ بازی اور انتشار کے دلدل میں دھکیلاہے ،جس کے لیے ہم نے دلائل تلاش کیے،تاویلات گڑھے ، عصبیتوں کو ابھارا اور مختلف فیہ امور کو ہوا دی جس کا انجام یہ ہوا کہ اس امت کی ہوا نکل گئی اور دنیا میں ہم بے وقعت ہوکر رہ گئے ہیں۔ لہٰذا علی وجہ البصیرۃ اسی میں ہم سب کی بھلا ئی اور خیر مخفی ہے کہ مسلک کے معاملے میں انتہا پسندانہ اور پر تشدد مزاج کو فی الفور ترک کردیں، علماء اور مقررین ایک دوسرے کے خلاف مختلف گندے القاب کا استعمال اور نفرت کی آبیاری کرنا چھوڑ دیں۔اگر نجات کی بشارت پانے والوں میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو تفرقہ بازی اور مسلک پرستی کے موضوع پررسول اللہؐ ، صحابہ کرامؓ اوراجماع امت کے موقف کو اپنانا ضروری ہے،کیوں کہ مسلمانوں کو قرآن وحدیث کی رُوسے خلوص ومروت کی اساس پر وحدت فکر کے ساتھ اختلاف رائے برادشت کر نے کی ہدایت دے کر کامیاب ی کی نوید سنائی گئی ہے ، بصورت دیگر ہماری ہو ا اُکھڑتی جائے گی ہونے اور ہمیں خاد ملے گا نہ وصال صنم ہو گا ع
شاید کہ اُتر جائے تیرے دل میں میری بات
����