فیلاڈلفیا ، دی ٹریمپٹ(Philadelphia, the Trumpet) ایک عالمی پیمانے کامیگزین ہے۔ یہ دی ٹریمپٹ نامی بین الاقوامی نشرو اشاعتی ادارے کا ایک ذیلی ادارہ ہے۔ ہر مہینے یہ میگزین امیریکی شہر فیلاڈلفیا سے شائع ہوتا ہے۔ اس ادارے کی حیثیت کلیسائی دنیا میں ایک تھنک ٹینک کی سی ہے۔ دنیا کا یہ کثیر الاشاعت نیوز میگزین ہے ، جس میں دنیا بھر کے حالات و کوائف کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔ اس کی سرکو لیشن دنیا کے ۱۲۰ ممالک میں ۱۰ ملین سے زیادہ ہے۔ اس ادارے کی سرگرمیوں پر ایک سرسری نگاہ دوڑانے سے اس کا ایک مختلف قسم کا مقصد منکشف ہو تا ہے کہ عیسائی عقائد کے تلے صیہونی پروپیگنڈوں کو توضیح و تشریح اور تشہیر کی جائے ۔ یہ دنیا میں رونما ہوئے ہر کسی واقعہ کے ڈانڈے بائبل میں پیش کردہ بشارات والے اقتباسات(Biblical Prophecies) سے ملاتا ہے لیکن اس ادارے کو جس کسی واقعہ سے اپنے پروپیگنڈہ کی بیخ کنی دکھائی دے ،تو بیک جنبش قلم اس کے خلاف رائے عامہ کو گمراہ کرتا ہے۔ یہ گھٹیا کام کر تے ہوئے کسی تفریق کئے بغیر ہر کسی کو آڑے ہاتھوں لیتا ہے، لیکن ان کا ٹارگٹ دنیا کا ہر وہ ملک، لیڈر یا جماعت ہوتی ہے جس سے یہ اپنے خوابوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں کوئی خدشہ محسوس کر ے۔ ایک اور جریدہ جرمنی کے شہر ہمبرگ سے ہر ہفتے شائع ہوتا ہے۔ اس جریدے کا نام دارا سپائگل (Der Spiegel) ہے، جس کا لغوی مطلب’’ ایک آئینہ‘ ‘ہے۔ یہ یورپ کا کثیرالاشاعت جریدہ ہے جس کی سرکولیشن ہر ہفتے قریبََا ایک ملین تک جاپہنچتی ہے۔سیاسی اسکنڈل اور عالمی بدحالی کو لے کر اس میگزین نے آج تک کئی ایک اہم رپورٹس شائع کی ہیں۔ آن لائن انسائیکلو پیڈیا کے مطابق متعلقہ میگزین کی شہرت اس کے جارحانہ، بے باک اور بہترین تحریروں کی بنا پر ہے جن سے یہ حکومتی ایوانوں کی نااہلی و ناکارہ گی منظر عام پر لاتاہے۔اس جریدے کے خدو خال پر سرسری نظر دو ڑایئے تو یہ رائے قائم ہوتی ہے کہ جریدہ امریکی بالادستی کا سخت مخالف ہے۔ علاوہ ازیں جریدہ جرمنی کو بھی امریکا کے تئیں اپنائی جارہیں پالیسیوں پر آڑے ہاتھوں لیتاہے۔ موجودہ دنیا میں جب کہ امریکی صدر ٹرمپ کی شخصیت اور اس کی پالیساں عالمی رائے عامہ کے اندر ہدف ِ تنقید بنی ہوئی ہیں، یہ اس کو بھی جارحانہ انداز میں پیش کرنے سے نہیں کتراتا ۔ خیال رہے کہ ۲۰۱۰ ء میں وکی لیکس کی جانب سے متحدہ ہائے امریکا کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ سے افشاء کئے گئے رازوں کواس میگزین کی حمایت حاصل تھی۔ اس جریدے کاآن لائن مطالعہ کرنے کے لئے بھی قاری کو پیپر خریدنا پڑتا ہے۔
اس طرح سے دونوں جریدوں (فیلاڈلفیا ، دی ٹریمپٹ اور دار اسپائگل )کے مابین آسمان و زمین کا فرق ہے۔ یہ ایک دوسرے کی نیوز اسٹوریز اور تجزیاتی رپورٹس کو عمو ماََ ہدفِ تنقید بناتے رہتے ہیں۔ رواں مہینے کی ۱۲؍ تاریخ کو دار سپائگل کے ایڈیٹر ان چیف اپنے جریدے کی کور اسٹوری کو تصوریری انداز میںپیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’ پوری انسانیت کو محض ایک انسان کی نااہلی سے پتھر کے زمانے کی طرف دھکیل دیا جارہاہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ کے رہتے ہوئے دنیا کو کس جانب مڑنا ہے؟ مضمون نگار ٹرمپ کی ایک سالہ کارکردگی کو ’’آگ اور شعلہ‘‘ سے تعبیر کرتے ہوئے کہاہے کہ امر یکی صدر عالم انسانیت کو پتھر کے زمانے کی طرف لے جاتے ہیں۔ صاحب مضمون سوال کرتا ہے ’’ آیا دنیا کا طاقتور ترین انسان حقیقت میں دماغی توازن کھو سکتا ہے؟ کیا وہ اتنا نااہل بھی ہو سکتا ہے ؟ کیا وہ ٹیلی ویژن کا عادی ہو سکتا ہے؟ کیا وہ اتنا احمق ہو سکتا ہے کہ سونے سے پہلے اپنے تین من پسند ٹی وی سیرئل دیکھنے میں بچوں جیسی دلچسپی رکھتا ہو ؟ جیسا کہ ٹرمپ کے حالات و کوائف پر لکھی گئی کتا ب میں ظاہر کیا گیا ہے۔‘‘ ظاہر ہے کہ ٹرمپ ایک نیوکلیر ہتھیار سے لیس ایک بے وقوف ہے اور اپنی حماقتوں کے دباؤ میں آئے روز متنازعہ بیانات دیتا رہتا ہے۔
دارا سپائگل کی یہ کور اسٹوری فیلاڈلفیا، دی ٹریمپٹ سے ہضم نہیں ہوئی ۔ متعلقہ میگزین کے ایڈیٹر اِن چیف نے اس اسٹوری کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اپنے جوابی مضمون میںلکھا ہے کہ صدر ٹرمپ کے اقتدار میں آتے ہی اُس پر میڈیا کے ذریعے سے منفی پروپیگنڈے کی بوچھاڑ کی کی گئی۔اس کرم فرمائی میں سب سے زیادہ جرمن میڈیا کا ہاتھ ہے ۔ مزید یہ لکھا ہے کہ دار دپائگل نے مائیکل ولف کی کتاب جو انہوں نے صدر ٹرمپ کی صدارتی زندگی کے متعلق لکھی ہے ،کی تشہیر کرنے میں سب سے زیادہ نمایاں رول ادا کیا۔ مضمون نگار کچھ آنکڑے پیش کرکے دعویٰ کرتاہے کہ نہ صرف جرمنی بلکہ پوری دنیا میں صدر ٹرمپ کی خلاف منفی رائے عامہ ہموار کی گئی ہے۔ایسا واضح طور پر دکھائی دے رہا ہے کہ صدر ٹرمپ کی سفارتی پالیسی کوئی کٹر صیہونی ایجنٹ مرتب کر رہا ہے،جسے اس بات سے کوئی سرو کار نہیں کہ صدر امریکہ ملامت زدہ ہوں یا امریکہ بد حالی کے بھنور میں گھر جائے مگر اُ سے صرف اپنے صیہونی منصوبوں کی فکر لا حق ہے۔ اس طرح یہ بات روز روشن کی طرح آشکار ہے کہ صدر ٹرمپ واقعی سیاسی و سفارتی معاملات سے نابلد ہیںاور اُس کے دماغ کا کنٹرول کوئی اور کیا ہوا ہے۔ وہ اس سے جو بیان یا جو کوئی بھی قدم اٹھوانے کے لئے کہہ رہا ہے ، صدر بلا چون و چرا وہ اٹھادینے میں جٹ جاتاہے، قطع نظر اس سے کہ کوئی اس سے دیوانہ کہے، بچہ سمجھے ، یا مہلک ہتھیاروں سے لیس بے وقوف و احمق جانے۔
ای میل [email protected]