محبوبہ مفتی کی کابینہ میں بعض اعلی تعلیم یافتہ وزراء کو شکایت ہے کہ کشمیری قوم جدید دنیا سے بلاوجہ بیزار ہے۔میدانِ سیاست میں چھپڑ پھاڑ کر گرنے والے اِن وزراء کا خیال ہے کہ دنیا بہت آگے نکل چکی ہے، حق خودارادیت کے مسلے مشترکہ حاکمیت سے حل ہوچکے ہیں اور عالم انسانیت استعماریت اور آمریت کے دور سے کب کی آزاد ہوچکی ہے۔آرام دہ کمروں میں چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے جھاڑی جارہی یہ دانشوری بظاہر حقائق سے بعید بھی نہیں۔بھلے ہی مشرق وسطیٰ اور عرب دنیا میں فی الوقت امریکہ کی پراکسی حکومتیں موجود ہوں، لیکن مجموعی طور پر دنیا نے استعمار اور مطلق العنانیت کو ترک کردیا ہے، اب تو ایران جیسی قدامت پسند قوم بھی جمہور نواز ہے، پاکستان میں بھی جمہوریت پاؤں جما رہی ہے اور دوسرے ممالک میں بھی رائے عامہ کسی فردواحد کی خواہش پر بھاری ہے۔
حریت ِآدم اور جمہوریت کا یہ فکری انقلاب جنگ عظیم دوم کے بعد اْسوقت آیا جب لیگ آف نیشنز کی جگہ اقوام متحدہ کا قیام عمل میں آیا۔ قوانین اور ضوابط وجود میں آئے جن کے مطابق محض طاقت کی بنیاد پر کمزور قوموں پر جارحیت ایک متفقہ گناہِ کبیر قرار پایا، لوگوں کے حق خودارادیت کو تسلیم کیا گیا اور غیر قانونی فوجی مداخلت کے خلاف مزاحمت کو جائز ٹھہرایا گیا۔اس کے بعد بھی جہاں جہاں وطنیت اور حاکمیت کے مسلے پیدا ہوئے، انہیں مصنفانہ اصولوں کے مطابق یا تو حق خود ارادیت کے ذریعہ حل کیا گیا یا پھر لوگو ں کی مرضی کے مطابق مقامی روایات اور سیاسی آرزؤں کی لاج رکھی گئی۔جدید اصولوں سے الجیریا، اریٹیریا، جنوبی سوڈان، کوسووا، ناروے، آئیس لینڈ، لاتوییا، ایسٹونیا، کروشیا،مالٹا، سلووینیا ، مشرقی تیمور وغیرہ قوموں کو حق خودارادیت سے استفادہ ہوا۔ کیونکہ دنیا استعمار سے آزاد ہورہی تھی، یعنی ڈی کالونائز ہورہی تھی۔ اور یہی وہ دور تھا جب انگریزوں کی نگرانی میں ہی انڈیا انڈپینڈینس ایکٹ پاس ہوا اور ہندوستان کے بطن سے دو آزاد مملکتوں نے جنم لیا۔
ہمارے دانشمند وزراء کی خیال آرائی کا تجزیہ جب اس پس منظر میں کیا جائے تو لگتا ہے کہ اقتدار کے یہ نئے سْورما بات تو پتے کی کہتے ہیں۔واقعی دنیا بہت آگے نکل چکی ہے۔لیکن بیسویں صدی کے ڈی کالونائزیشن عمل کا اہم پہلو یا تو ہمارے دانشور نما وزراء کے ذہنو ں سے محو ہوا ہے یا وہ اسے جا ن بوجھ کر صرف نظر کررہے ہیں۔برصغیر جب جنگ عظیم دوم کے بعد ڈی کالونائز ہورہا تھا، تو کشمیر دو قوموں کے بیچ نزاع کا باعث بن کر اس اہم عمل کا حصہ نہ بن سکا۔ کشمیرپر برطانوی سرداری تو خودبخود ختم ہوگئی، لیکن دنیا کو ڈی کالونائز کرنے کا جو عظیم عمل جاری تھا وہ کشمیر میں شروع ہی نہ ہوسکا۔ اس طرح کشمیر کا تنازع تاریخی پس منظر میں جیسا بھی نظر آئے، لیکن بنیادی طور پر یہ نامکمل ڈی کالونائزیشن کا مسلہ ہے اوردہائیوں سے استعمار کے جرثوموں کو کشمیر میں اس قدر پھلنے پھولنے کا موقعہ ملا کہ آج کے جدید اور جمہوری دور میں بھی کشمیر ایک کالونی معلوم ہوتا ہے، جس پر کل انگریزوں کی بالواسطہ سرداری قائم تھی اور آج ماڈرن انڈیا کی جدید سرداری قائم ہے۔اور اس سرداری کو قائم رکھنے کے لئے دنیا کی پانچویں بڑی فوج کسی جنگی تیاری میں مصروف نہیں بلکہ عوامی مزاحمت سے جوجھ رہی ہے۔
اس مخصوص پس منظر پر تین سال قبل آر ایس ایس انقلاب نے جو تڑکا لگا دیا ہے، اْس نے کشمیر اور کشمیریوں کو نئے ہندوستان کے لئے ایک نظریاتی تجربہ گاہ بنا کے رکھ دیا ہے۔ہمارے دانشور وزراء جس جدید دور کی بات کرتے ہیں، اس کی ہوا تک کشمیر کو نہیں لگی ہے۔ فکری انقلاب کا پہلا ثمرہ جمہوریت تھا۔ لیکن کیا ہمارے یہاں واقعی جمہوریت ہے؟
شوپیان میں نوجوان مظاہرہ کررہے تھے، چلئے مان لیتے ہیں وہ مشتعل بھی تھے اور انہوں نے فوجی گاڑیوں پر پتھر بھی برسائے۔ یہ بھی مان لیتے ہیں کہ گھبراہٹ میں فوج نے گولی چلائی اور ’’وشفاً‘‘ تین کم سن لڑکوں کا قتل ہوا؟ یہ سانحہ ایک طویل سلسلہ کی محض ایک تازہ کڑی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پھر کیا ہوا؟ وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی ریاست کی وزیرداخلہ بھی ہیں، اس کے علاوہ وہ دنیا کے سب سے وسیع اور ہمہ جہتی کونٹر انسرجنسی گرڈ یعنی یونیفائد کمانڈ کی سربراہ ہیں اور دو حاضر جنرل ان کے مشیر ہیں۔اس سب کے باوجود قصورواروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کے لئے انہیں وزارت دفاع کو فون پر مطلع کرنا پڑتا ہے۔اس واردات پر کئی حلقے حسب معمول سیاسی روٹیاں سیک رہے ہیں، لیکن ہوگا وہی جو ہوتا آیا ہے۔
2005میں پی ڈی پی کے رہنما اور اْسوقت کے نائب وزیراعلیٰ مظفرحسین بیگ نے اسمبلی کے اختیار ات پر تبصرہ کرتے ہوئے جوش خطابت میںکہہ ڈالا:’’یہ کوئی اسمبلی ہے، آئی بی کا معمولی حوالدار ایک نوٹ لکھ کر اس ایوان کو تحلیل کرسکتا ہے۔‘‘ بارہ سال بیت گئے، حالت آج بھی وہی ہے۔چلئے ہم اپنے ذہین وزراء کی یہ بات بھی مان لیتے ہیں کہ اجتماعی طور پر قوم جمہوریت اور مثبت سیاست سے خداواسطے کا بیر رکھتی ہے، لیکن قوم کے اس ٹولے کا کیا ہوا جس نے سیاسی افکار کی جدید ہوا کو گلے لگا کر ایوان کا رْخ کیا؟ ایک جونئر پولیس افسر نے وقت کے وزیراعظم شیخ محمد عبداللہ کو گلمرگ کے گیسٹ ہاوس سے گرفتار کرلیا۔ اپوزیشن کانکلیو میں محض شرکت کی خطا پر فاروق عبداللہ کو معزول کرکے ان کے بہنوئی کو ان کی جگہ بٹھا دیا گیا، پھر انتخابات پر نوجوانوں نے اعتمادکرنا چاہا تو ووٹ چوری کے سارے ریکارڈ مات ہوگئے اور نوجوانوں کے جسم پردہکتی ہوئی استریاں لگائی گئیں۔ انہوں نے دوسرا راستہ اختیار کرلیا تو ظلم و ستم اور اجتماعی سزاؤں کا لامتناہی وہ سلسلہ چل پڑا جس کے شواہد آج بھی گمنام قبروں سے چلا چلا کرکہہ رہے ہیں کہ صاحب جدید افکار کی لہر یہاں نہیں پہنچی ہے، ہم آج بھی استعمار اور مطلق العنانیت کی چکی میں پسے جارہے ہیں، بھلے ہی اس استعمار اور آمریت کا لبادہ جمہوری ہو۔
بشکریہ ہفت روزہ ’’ نوائے جہلم‘‘سرینگر