بنارسؔ ہندو یونیور سٹی کے ایک سابقہ سکالر پرانؔ ناتھ اپنے تحقیقی مقالے ’’نقش ِ ملتان‘‘میں رقم طراز ہیں :’’سمیری قوم (قوم بابلؔ و فلسطینؔ)شمالی ہندوستان سے لے کر مصرؔ تک بسی ہوئی تھی ۔سنسکرت زبان سمیریؔ،شامیؔ،اور مصریؔ زبان کا مرکب ہے اور شاید یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ شمالی ہندوستان میں کشمیر بھی آتا ہے اور یہودی قوم کے دو بار فلسطین سے خروج کے بعد اُن کا اطراف و اکناف میں پھیل جانا کیونکہ عالمی یہودی تاریخ (World Jew History)کے مطابق بارہ قبیلوں میں سے گیارہ قبیلوں کے بارے میں، جنہیں تاریخ گمشدہ قبایل (Lost Triles)سے یاد کرتی ہے ،کے تعلق سے کچھ بھی معلوم نہیں ہے ۔ بابلؔ کے فرمانروا بخت نصرؔ اُن چار شہنشاہوں میںسے تھے جنہوں نے اپنے عہد میں پوری دنیا پر حکومت کی۔انہوں نے فلسطین پر سن 585قبل از مسیح میں چڑھائی کرکے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجائی۔ہیکل سلیمانیؔ کو منہدم کردیا اور ہزاروں یہودیوں کو قتل کرنے کے بعد ہزاروں کو اپنے ساتھ غلام بناکر لے گیا ۔نہ صرف یہ بلکہ ملک کی عبادت گاہوں میں جتنے بھی سونے، چاندی ،ظروف تھے اُن کو بھی اپنے ساتھ لے گیا ۔اُس وقت بہت سارے یہودؔجان بچانے کی خاطر اِدھر اُدھر بھاگ نکلے۔اُس خروج میں یہود کا افغانستان ،ایران ، سنٹرل ایشیا اور کشمیر میں ورود بعید از قیاس نہیں ہے ۔یہاں کے آثار و قرائن اور کشمیری تمدن میں شامل مختلف چیزوں کی روشنی میں مورخ یہ پہلے ہی ثابت کرچکے ہیں کہ یہودؔ کشمیر میں آئے تھے اور یہاں بود و باش اختیار کی تھی ۔ظاہر ہے کہ کچھ اُن میں سے کنورٹ (Convert)بھی ہوئے ہوں گے ۔یہی وجہ ہے کہ یہاں یہودی مہریں اور بُت تراشی کے نمونے بھی ملے ہیں۔
کشمیر ی تمدن میں کئی چیزیں راست یہودیوں سے آئی ہیں اور یہاں کے تمدن کے ساتھ گھل مل کر آج تک باقی ہیں، گرچہ امتداد زمانہ کے ساتھ کچھ رسومات معدوم ہوگئی ہیں ۔مثلاً آج سے پنتالیس پچاس سال تک شادی بیاہ کے موقعے پر دولہے کے دائیں بائیں برات کے ساتھ کاغذی پھولوں اور پھرکیوں سے مزین کئی مشعلیں ہوا کرتی تھیں ۔اُن مشعلوں کے آخری سرے پر ٹین سے بنی ایک کپُی یا ڈبیا تیل کے ذریعے جلتی رہتی تھی اور اُسی طرح سے بارات میں روشنی کا انتظام بھی ہوجاتا تھا ۔بعد میں برات کے ساتھ ہنڈو سے یا گیس (Petromax)اور بینڈ باجا بھی ہوتا تھا ۔ یہ کام تو نہیں رہا مگر شہرخاص میں مشعل محلہ حول آج بھی اپنے نام اور سابقہ کام کا برملا اعلان کررہا ہے ۔مشعلوں کے جلو میں دولہے یا برات کا نکالنا ٹھیٹ یہودی رسم تھی۔
دیگر چیزوں میں یہودؔ کی ایک بڑی دین سودی کاروبار تھا جو عام طور پر کشمیری پنڈت کیا کرتے تھے اور موجودہ وقتوں میں اب ہم یعنی نام نہاد مسلمان کررہے ہیں ۔ سُکھائی اور بھُنی ہوئی مچھلی کا آج بھی بڑے شدو مد کے ساتھ سیون ہوتا ہے ۔نائو کا چپو آ ج بھی پان کے پتے جیسا بنتا ہے بلکہ مستعمل بھی ہے اور اسی طرح سے لمبی پتھر کی سِل پر نماز ادا کرنا ،شہر سے باہر بزرگوں کے مزارات (آستان) بنانا ،آستان کے دروازے پر لوہے کی زنجیر ڈال دینا ،زنجیر کے بیچ میں گول ٹکیہ کا ہونا ،ایسے سارے رسم و رواج یہودیوں کے تھے جو اُن کے یہاں آنے کے بعد نسل در نسل ہم میں بھی مروج ہوگئے۔
یہ سوال بہر حال قابل غور ہے کہ یہود کا تمدن یا اُ ن کے رہن سہن کا طریقہ ،رسم و رواج مسلمانوں میں کیسے منتقل ہوگیا، اُس کا جواب بڑا آسان ہے ،جب یہود کا ورود وادی میں ہوا ۔مورخوں کا خیال ہے گلیلو جیسا کہ توراۃ میں مذکور ہے یعنی گلگت کے راستے سے تواُس وقت یہاں کی تمام آبادی اور حکمران ہندو مذہب کے ساتھ تعلق رکھتے تھے اور اسلام کا ظہور ہنوز باقی تھا ،حتی ٰ کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام بھی ابھی معبوث نہیں ہوئے تھے ۔ظاہر ہے کہ یہود میں سے کچھ لوگ ہندو دھرم میں شامل ہوئے ہوں گے اور بعد ازاں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ظہور اسلام کے بعد جب اسلام کی دعوت لے کر حضرت شاہ ہمدان رحمتہ اللہ علیہ وادی میں تشریف لائے تو اُس وقت جنہوں نے کلمہ توحید کو لبیک کہا وہ سارے کے سارے گرچہ ہندو تھے مگر اُن میں وہ ہندو بھی تھے جن کے اسلاف یہودی مذہب سے ہندو مذہب میںآگئے تھے ۔اس لئے یہ سیدھی سی بات ہے کہ انہوں نے بے شک اسلام قبول کرلیا مگر اپنے سماج سے جُڑے کچھ سابقہ بے ضرر رسم و رواج کو انہوں نے اپنے ساتھ ملاکر زندہ رکھا اور ویسے بھی جِین مرتا نہیں وہ نسل در نسل منتقل ہوتا رہتا ہے ۔اس کے علاوہ وادی کے ہندوؔ،مسلمؔ،سکھؔمشترکہ سماج میں مشترکہ رسم و رواج کا ہونا لابدی ہے ،البتہ کسی کسی بات میں ادائیگی کی تفریق ہوسکتی ہے ۔ہمارے بچپن میں مسلمان لڑکیاں اپنے صحنوں میں روو یا روف کیا کرتی تھیں،پنڈت لڑکیاں بھی کرتی تھیں ۔ تازہ ،بھنی ہوئی اور سُکھائی ہوئی مچھلی پنڈت بھی کھاتے تھے اور مسلمان بھی اُسی رغبت سے کھاتے ۔گوشت کا سیون ہر دو طبقہ جات میں ہوتا تھا ،تہری (پیلے چاول)وہ بھی بانٹتے تھے جب کہ ہم نے آج تک اُس تقسیم کو گلے سے لگاکر رکھا ہے اور اس بارے میں لطف کی بات یہ ہے کہ گولیاں اور پیلٹ برسانے والے سی آر پی ایف کے جوانوں کو بھی ہم نے اُس وقت تہری کھلائی جب وہ ہمارے مکانوں کے شیشے توڑرہے تھے ۔
شادی بیاہ کے موقعہ پر ’’بچہ نغمہ‘‘تو پنڈت فیملیوں میں جزو لاینفک تھا اور وَنہ وُن(شادی کے گیت)ہر دو طبقہ جات میں ہوتا تھا ۔دونوں طبقے دف اور گھڑا بجایا کرتیں تھیں اور ایک ہی نغمہ چاہے جس شاعر کا بھی ہو دونوں محفلوں میں ایک ہی طرز پر چلتا تھا یا گایاجاتا تھا ۔کسی کے مرنے پر دسواں ،پندرہواں (پچھ وار)،چالیسواں (ماسہ وار)سال پورا ہونے کے بعد برسی (وہُرہ وُود)دونوں فرقے کرتے تھے اور آج بھی کرتے ہیں ،اِلا ماشا ء اللہ، کچھ لوگ بے شک ان بدعات میں نہیں پڑتے ہیں۔ویسے چلتے چلتے یہ بھی عرض کرتا چلوں اور یہ بات یقیناًآپ کی دلچسپی کی باعث بنے گی کہ مرد ے کا چالیسواں کرنا ،شادی کے موقعہ پر لڑکی کو سات دن کے بعد واپس مایئکے لانا ،پنڈتانیاں جو مخصوص ڈھنگ کا پھرن پہنا کرتی تھیں ،کانگڑی میں خلقہ (اسبند) جلانا ،بڑی میٹھی روٹی (روٹھ) تقسیم کرنا اور اس طرح کی بیسیوں باتیں ہمیں توراۃ میںملتی ہیں ۔رسم و رواج یونہی جنم نہیں لیتے ۔دلچسپی ہو تو دیکھئے : پیدائش 29 : 27،50 : 3 گنتی 15 : 37،6 : 16اور28 : 9، ( توراۃ)
(ختم شد )
رابطہ:- پوسٹ باکس :691جی پی او سرینگر-190001،کشمیر،
موبائل نمبر:-9419475995