ہم برسوں سے یہ لکھتے آرہے ہیں کہ فرقہ پرستوں کو مسلمانوں پر مظالم کی چھوٹ دے کر یہ سمجھنا کہ ہندوستان کی دوسری قومیں ،دوسرے فکری گروہ یا سول سوسائٹی کے دوسرے اجزاء محفوظ و مامون رہیں گے یا مستقبل میں بھی اپنی خیر مناتے رہیں گے،احمقوں کی جنت میں رہنا ہے۔۔۔اب دیکھئے مودی جی کے ساڑھے تین سالہ دار حکومت میں وہ نوبت آچکی ہے۔آج سول سوسائٹی کا کوئی جز محفوظ نہیں ہے،ایک طرف مسلمانوں کا خون پیتے پیتے آد م خور طاقت ور ہو چکے ہیں اور دوسری طرف وطن عزیز کی دیگر اقوام مسلمانوں کا خون بہتے دیکھ کر اس درجہ بے حس ہوچکی ہیں کہ اب جب کہ وہی کچھ ان کے ساتھ ہو رہا ہے توبھی زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد والا معاملہ درپیش ہے۔
آزاد بھارت کا پہلا سورج مسلمانوں کے قتل عام کے ساتھ طلوع ہوا تھا مگر دیگر اقوام یہ سوچ کر خاموش رہیں کہ جنہوں نے دیش کے دو ٹکڑے کئے ان کے ساتھ یہ سب ہونا تو واجب ہے۔وہ قومیں بھی جو اپنے آپ کو بڑ ا پڑھا لکھا سمجھتی ہیں ،انھوں نے بھی گہرائی میں جا کر اس بات کا مطالعہ کرنا ضروری نہیں سمجھا کہ تقسیم کس کی خواہش تھی ،کس کے مفادات اس سے وابستہ تھے اور کس کے ایماء پر ہوئی؟چلئےجو ہوا سو ہوا۔۔مگر اس کے بعد بھی بھارت کے محب وطن مسلمانوں کے خلاف فسادات کا نہ تھمنے والا سلسلہ چلتا رہا۔ جب اچھی طرح دیکھ لیا گیا کہ اب مسلمانوںمیں مزاحمت کی طاقت نہیں رہی،ان کے تمام لیڈروں کو متاع کوچہء وبازار بنا لئے گئے ہیں تو عیسائیوںسے خونی چھیڑ چھاڑ شروع کی گئی۔اب عیسائی نکّو بن گئے۔کہتے تو کیا کہتے، کس سے شکایت کرتے ؟ کس سے مدد مانگتے؟وہ تو اس خوش فہمی مبتلا تھے کہ ہم تو بڑےSophisticatedلوگ ہیں ،ہم ہی نے تو ان کو حکومت سپرد کی ہے،یہ ہم سے کیوں چھیڑیں گے؟کیوں ستائیں گے؟جب مار پڑنے لگی تو ان کے پاس مار کھانے کے سوا چارہ نہ تھا۔فرقہ پرستوں کی ہمتیں خود ان کی پیاری کانگریس نے اتنی بڑھادی تھیں کہ جب تخت اقتدار خود ان کی ہم قوم کے کنٹرول میں تھا تب بھی اُڑیسہ کے کندھمال اور کیرالہ میں اگست ۲۰۰۸ ء میں فرقہ پرست شر پسندوں نے ان پر ظلم کی انتہا کردی تھی ۔کئی بار ملک کی مختلف ریاستوں میں ان کی راہباؤں کی عصمت دری ہوئی ہیں۔جنوری ۱۹۹۹ء میں اڑیسہ میں ہی دارا سنگھ نامی ایک زعفرانی دہشت گرد نے گراہم اسٹینس نامی ایک پادری اور اس کے دو بچوںکو زندہ جلا دیا تھا۔حیرت اس وقت ہوتی ہے کہ مسلمان کیا اور مسلم ممالک کیا، کسی ایک یہودی کو دنیامیں کہیں بھی تکلیف پہنچ جائے تو اسرائیل اور امریکہ آتش زیر پاہو جاتے ہیں مگر انڈیا میںعیسائیوں پر ظلم کے خلاف عیسائی دنیا مہر بلب رہتی ہے ۔
مودی کے اقتدار سے پہلے بھی دلتوں کو مسلمانوں کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا تھا ۔خصوصاً گجرات کے تو ہر فساد میں دلت فرقہ پرستوں کے ہتھیار کے طور پر ہی لڑے ہیں۔اتنی جانبازی کی کے باوجود ’’کبھی کبھی ‘‘ ان کو بھی ٹارگٹ بنا لیا جاتا تھا مگر مودی جی کے برسراقتدار آنے کے بعد چونکہ عملاً ہندتو کی حکومت قائم ہو چکی ہے،مرکز ہی نہیں بہت ساری ریاستوں میں بھی ہندتو کے متوالے برسر اقتدار ہیںاوراب انہیں نہ دلت ووٹ بینک کی ضرورت ہے نہ دلتوں کی منہ بھرائی کی ۔اس لئے اب ان کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جارہا ہے اور مسلسل کیا جا رہا ہے جو اب تک مسلمانوں کے ساتھ کیا جاتا تھا،کیونکہ اب تک جو کام دلت کرتے رہے ہیں اب وہی کام ہندتو کے جیالے کر رہے ہیں۔اب تو سیاں بھئے کوتوال والا معاملہ ہے۔اب کسی کو کوئی سزا ملنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔اب تو عدالتوں میں بھی اپنے ہی لوگ بیٹھے ہوئے ہیں۔جب ملک کے کروڑوں لوگوں کی کوئی سننے کو تیار نہیں تو سپریم کورٹ کے ۴؍ جج صاحبان کسی کا کیا بگاڑ لیں گے ؟پہلے دلتوں کو اسی لئے استعمال کیا جاتا تھا کہ اگر کوئی پکڑا بھی جائے اور اسے سزا بھی دینی ہی پڑ جائے تو وہ دلت ہو یعنی اکثریتی طبقے کے ورن آشرم کے سب سے نچلے طبقے کا فردجس کی جنم سدھ ڈیوٹی ہی یہ ہے کہ اونچی ذاتوں کی خدمت کرے اور بدلے میں ان کا غصہ اور نفرت پائے۔ اب رہ گئے جین بودھ اور خالصہ پنت۔۔۔وہ بھی اقلیتوں کا ہی ایک حصہ ہیں ، مگران تینوں دھارمک گروہوںمیں یہ دم نہیں کہ وہ ہندتو کے چاہنے والوںکوعملاً کوئی چیلنج دے سکیںبلکہ سچ یہ ہے کہ ہندتو ان تینوں اقلیتوں کو آئین میں گھول کر پی چکا ہے۔ان تینوں مذاہب کے اکابرین لاکھ چیخیں چلائیں کہ ہم ہندو نہیں ہیں،عدالتوں سے لاکھ اپنے حق میں فیصلے کروائیں کہ ہمیںمائنارٹی اسٹیٹس دیا جائے مگر ان کے عام خام اپنے آپ کو نہ صرف ہندو سمجھتے ہیں بلکہ اکثریتی معاشرے کا رکن ہونے کا مزہ بھی لوٹتے ہیں ۔وہ بھی یہ سمجھتے ہیں کہ مسلم پرسنل لاء ختم ہونا چاہئے اور مسلمانوں کو بھی اپنی شناخت سے دست بردار ہو کر ہندتو کے دھارے میں مدغم ہو جانا چاہئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے اکابرین نے خود اپنی عوام کے درمیان اپنی شناخت کا شعور بیدار کرنے کوئی کوشش نہیں کی،جب کہ سنگھ پریوار قریب ایک سال سے نہ صرف ہندؤں کے بلکہ غیر ہندؤں کو بھی ہندتو کی شناخت دینے کی کوشش میں کامیاب ہو چکا ہے اور اس کے لئے قربانی کا بکرا صرف اور صرف مسلمانوں کو بنایا ۔
ابھی حال میں کرناٹک میں دو قتل ہوئے ہیں ۔ایک پروفیسر ملیشپا کلبرگی اور دوسرا گوری لنکیش کا۔۔دونوں کا تعلق کرناٹک کے لنگایتطبقے سے ہے۔ہمیں تو گوری لنکیش کے قتل کے بعد معلوم ہوا کہ یہ لوگ بھی ہندو فولڈ سے فرار ہونے کی کوشش میں قتل کئے جارہے ہیں ۔کیسی ستم ظریفی ہے کہ زبردستی مسلمان بنانے کا الزام لگانے والوں کا منہ خود اپنے کرتوتوں سے کوئی اور رام کہانی سنا رہا ہے۔لنگایت کرناٹک کی سب سے بڑی ذات ہیں ۔کرناٹک کی سیاست ان کے گرد ہی گھومتی ہے۔اگر لنگایت ہندو فولڈ سے نکل جاتے ہیں تو کم سے کم کرناٹک کی حد تک تو ہندتو سیاست کی لٹیا ہی ڈوب جائے گی۔اب بھی کچھ کہا نہیں جا سکتامگر اس سے ایک بات تو صاف ہے کہ ہندتو کے متوالوں کو ہندو دھرم سے کچھ لینا دینا نہیں ہے ۔ ان کے نزدیک اگر دھرم کی مٹی بھی پلید ہوتی ہے تو ہونے دو ،سیاسی اقتدارہاتھ سے نہ جائے۔یہ بات غیرہندؤٔں سے زیادہ سچے اور پکے ہندؤؤںکے لئے قابل غور وفکر ہونی چاہئے۔اسی طرح شمال مشرق کے باشندے بھی اپنے آپ کو ہندو نہیں سمجھتے۔اب سوال یہ کہ وطن عزیز میں ہند تووالے ہندو دھرم کے سیوک ہونے کے کیا کیا فسانہ طرازیاں کر رہے ہیں وہ بھی اَہنساوادی ہندودھر کے نام پر ؟ تو جواب ہے محض کرسی کے لئے؟
ہمارے نزدیک فلم پدماوتی بھی ایسی ہی کہانی ہے جیسی مغل اعظم اور انار کلی تھی مگر سوال یہ ہے کہ پھراس قسم کے نان ایشو کو ایشو کیوں بنایا جاتا ہے؟ہم نے اوپر ہندتو کے کھوکھلے پن پر روشنی ڈالی ہے۔اسی کھوکھلے پن کو برادران وطن کی نظروں سے چھپانے کے لئے نان اشوز اٹھائے جارہے ہیں۔ورنہ ہر صاحب عقل کو سوچنا چاہئے کہ تین طلاق سے ملک کو کیا فائدہ یا نقصان پہنچتا ہے؟اگر کچھ ہے تو وہی کچھ ورنداونکی بیواؤں سے کیوں نہیں ہے؟۔اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جس کا شوہر زندہ ہے اور وہ اپنی بیوی کو سرراہ چھوڑ جائے اس نیم بیوہ کا کیا؟اس کی حالت کے بارے میں کیوں نہیںسوچا جاتا؟حج بیت اللہ کے پاک ومطہر سفر پر جانے کے لئے اگر اسلام میں محرم کی شرط ہے تو اس سے ملک کا کیا فائدہ یانقصان ہے؟یہ چند حالیہ تماشے ہیں جو صاف بتاتے ہیں کہ ہندوتو راج نیتی کامکھوٹا ہے جس کا مقصد دین دھرم کے نام پر عوام کو تقسیم کر نا ،ان میں نفرتوں اور شکوک کی دیواریں کھڑی کرنا، ان کو ایک دوسرے سے لڑوانا اور پھردھرم اور دیش کے نام پر کرسیاں بٹورتے ہوئے پیارے پیارے ملک میں گاؤ رکھشااور گھرواپسی کے ہتھیاروں سے ا س کی گنگا جمنی تہذیب کو ذبح کرنا۔ یہ بد نیتی اور لڑاؤ بھڑکاؤ پالیسی نہ ہوتی تو ہندتو کے پہلوانوں کو نان اشوزکو اشو بنانے کی بڑی لمبی تاریخ بنانے کی کیا ضرورت تھی۔ وہ ایسا اس لئے کرتے ہیں تاکہ سادہ لوح عوام انہی بھول بھلیوںمیں الجھے رہیں۔ بہر حال نریندرمودی کے ساڑھے تین سالہ دور میں جو کچھ ہوا ہے، اس نے وطن عزیز کی بہت ساری خوابیدہ ذاتوں کو انگڑائی لینے پر مجبور کردیا ہے ۔اب ظلم کے خلاف آوازیں اٹھ رہی رہیں بلکہ شور مچ رہا ہے۔ اب اگر ہماری سول سوسائٹی پھر بھی نہ جاگ جائے ،اُسے اب بھی اپنی منصبی ذمہ داریوں کا احساس نہ ہو ،وہ اب بھی ملک کودرپیش برے حالات سے نپٹنے کے لئے کوئی مفید لائحہ عمل طے نہ کر سکے تو شاید سال ڈیڑھ سال بعد وہ کچھ بھی کرنے کے لائق ہی نہیں رہے گی۔یہ سوچ کر بڑی حیرت ہوتی ہے کہ انگریزوں کو ملک سے بھگا نے والی سول سوسائٹی کتنی بے عمل اور فرسودہ ہوچکی ہے۔