معقول ٹرانسپورٹ سہولیات کے فقدان کے باعث مسافر بسوں میں ائورلوڈنگ ،تیز رفتاری ، سڑکوں کی خراب حالت اور حکام کی بے حسی سے آئے روز سڑک حادثات رونماہورہے ہیں جس کی وجہ سے ہرسال سینکڑوں قیمتی جانوں کا زیاں ہوتاہے ۔ خطہ پیر پنچال اور خطہ چناب میں یہ حادثات زیادہ ہی بھیانک ثابت ہوتے ہیں جہاں خطرناک اور خستہ حال سڑکوں پر ڈرائیور کی معمولی سے غلطی بھی جانوں کے اتلاف کا سبب بن بیٹھتی ہے۔ گزشتہ دنوں راجوری کے بدھل علاقے میںمسافر گاڑی کو پیش آئے ایک حادثہ میں چار افرادلقمہ اجل بن گئے جبکہ چودہ زخمی ہوئے ۔اسی طرح سے کچھ روز قبل ڈوڈہ کے بھلیسہ علاقے میں بھی منی بس حادثے کاشکار ہوئی جس سےکئی ہلاکتیں واقع ہوئیں ۔ اگرچہ حکومت کا یہ دعویٰ ہے کہ محکمہ ٹرانسپورٹ نے سڑک حادثات کو کم سے کم کرنے کیلئے متعدد اقدامات کئے ہیں تاہم ہلاکتوں کے اعدادو شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ نہ ہی ان حادثات میں کوئی کمی ہوئی ہے اور نہ ہی ان اہم نکات پر توجہ دی گئی ہے جو حادثات کا مؤجب بنتے ہیں ۔ پچھلے ایک سال کے دوران صرف جموں پونچھ قومی شاہراہ پر 73حادثات رونماہوئے جن کے نتیجہ میں 57افراد لقمہ اجل بنے۔حکومت کے مطابق سڑک حادثات کم کرنے کے مقصد سے ٹریفک قوانین کی پاسداری کو یقینی بنانے کے اقدامات کئے گئے ہیں اورخطرناک ڈرائیونگ ، ڈرائیونگ کے دوران موبائل فون کے استعمال ، دو پہیہ گاڑی پر دو سے زائدافراد کے سوار ہونے ،بغیر ہیلمٹ کے موٹرسائیکل چلانے والوں ، اورلوڈنگ اور اورٹیکنگ و ڈرائیورنگ کے دوران سیٹ بیلٹ کے استعمال نہ کرنے والوں کے خلاف ٹریفک پولیس کی طرف سے کارروائی کی جارہی ہے۔ساتھ ہی عوامی بیداری کیلئے ریلیاں ، سیمینار اور دیگر قسم کے پروگرام منعقد کئے جارہے ہیں ۔ تاہم اس سب کے باوجود حادثات کے واقعات میں کوئی کمی نہیں آئی اور آئے روز قیمتی جانیں تلف ہورہی ہیں ۔اگر دیکھاجائے تو معلوم ہوتاہے کہ ٹریفک پولیس اور دیگر حکام کی کارروائیاں اپنی کارکردگی کو بہتر دکھانے کیلئے زیادہ سے زیادہ چالان کرنے اور جرمانے عائد کرنے پر مرکوز ہوتی ہیں اور اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہوتاکہ ٹریفک کے مجموعی نظام میں کیسے سدھار لایاجاسکتاہے ۔دیہی اور دور دراز علاقوں میں سب سے بڑا مسئلہ مسافر بسوں کی ضرورت کے مطابق عدم دستیابی ہے اور جب لوگوں کو سفر کرنے کیلئے گاڑی نہیں ملتی تو وہ مجبوراًانہیںاور لوڈ میں سوار ہونا پڑتا ہےاور اس مجبوری کا ڈرائیور و مالکان بھی ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ جو بالآخر حادثات کا سبب بنتا ہے۔حکومت کی طرف سے بارہا یہ اعلانات کئے گئے ہیں کہ سرکاری بسیں فراہم کی جائیںگی لیکن اس پر عمل درآمد نہیںہوسکا اور نہ ہی ایس آر ٹی سی سروس کامیاب بھی رہی ۔اگر بیرون ریاست کا حال دیکھاجائے تو بیشتر ریاستوں میں سرکاری بس سروس نظام اس قدر مقبول اور کامیاب ہے کہ ہرکوئی ان ہی بسوں پر سفر کو ترجیح دیتاہے تاہم ریاستی حکام اس جانب کوئی توجہ نہیں دے رہے ۔ دوسرا بڑا مسئلہ سڑکوں کی خراب حالت ہے اور کئی سڑک پروجیکٹ دہائیوںسے زیر تعمیر ہیں جبکہ کئی سڑکوں کی تعمیر کے بعد پھر کوئی ان کی طرف کوئی توجہ ہی نہیں دی جاتی جس سے ان کا حلیہ ہی بگڑ جاتاہے ۔ٹریفک قوانین توڑنے والوں کے خلاف کارروائی کرکے انہیں ٹریفک قوانین کا پابند بنانا کوئی مشکل کام نہیں اور یہ کام بڑی آسانی سے کیاجاسکتاہے مگر جب تک ہر ایک علاقے کے لوگوں کو بہتر سڑک روابط اور سفر کیلئے معقول بسیں فراہم نہیں ہوںگی تب تک لوگوں کی جانیں اسی طرح سے حادثات میں ضائع ہوتی رہیںگی اور ہر سال سینکڑوں افراد معذور بھی بنتے رہیںگے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سڑک حادثات پر قابو پانے کیلئے ٹرانسپورٹ نظام کو مستحکم بنایاجائے ۔