موجودہ دنیا جہاں محیر العقول مادی ترقیوں ا ورسائنسی ایجادات کے میدانوں میں سر پٹ دوڑکر زمین کی گہرائیوں اور آسمان کی اونچائیوں کو برا بر مسخر کر تی جا رہی ہے ،وہاں اس کے بین بین انسانی دنیا کے اخلاقی تنزل کی قیامت خیزیاں بھی اپنے عروج پر ہیں ۔ اس پیہم بربادی کے چلتے دنیا ئے انسانیت بلاناغہ جرائم اور گناہوں کی کھائیوں میں بلا روک ٹوک لڑھکتی جارہی ہے ۔ بدقسمتی سے ریاست میں بھی آبادی کاایک قابل لحاظ حصہ اخلاقی بحران کی لپیٹ میں آچکا ہے ۔ اس بناپرریاست کا اپنے اخلاقی تشخص اورقومی خصائل سے ہاتھ دھو بیٹھنا کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ بے شک یہاںکی جوان پود میںایک جانب شرح خواندگی میں مسلسل بڑھ رہی ہے اور نئی نسل مختلف شعبہ ٔ ہائے حیات میں متاثر کن کارکرگی سے قوم کا سینہ پھلارہی ہے مگر دوسری جانب جرائم ، خلاف قانون حرکات اور سماج دشمن سرگرمیوں کے گراف میں اضافہ در اضافہ کا باعث بننے سے جوان پودبڑے بزرگوں کے سر شرم سے جھکا رہی ہے ۔ یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ ریاست بھر میں اخلاقی فساد وبگاڑ کی تخم ریزی ہونے کے پیچھے مختلف اسباب و محرکات کارفرما ہیں ۔ ان کی ایک شکل سیاسی استحصال پر مبنی نظم ونسق کا غلبہ ہے اور دوسری مہیب شکل مخلوط تعلیمی نظام اور گلی گلی کوچہ کوچہ مخلوط کو چنگ سنٹروں کا وجود ہے۔اس سے انکار کی مجال نہیں کہ ان تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم زیادہ تر سٹوڈنٹ سنجیدگی کے ساتھ کیر ئیر تعمیر کرنے اور مسابقتی امتحانات کے میدان مارنے کے لئے رجوع کر تے ہیں اور ان کے والدین بھی آنکھوں میں اپنی اولاد کے واسطے شاندار مستقبل کے حسین خواب سجا کر اپنے نو نہالوں کو بصد شوق ان میں داخلہ دلاتے ہوئے بھاری بھرکم مالی بوجھ برداشت کرتے ہیں، بلکہ کڑوا سچ یہ ہے کہ اکثر غریب والدین اپنے پیٹوں پر پتھر باندھ کر بچوں اور بچیوںکے تعلیمی اخراجات اوران کی نت نئی فرمائشیں پو ری کر نے میں کو ئی پس وپیش نہیں کر تے۔ بایں ہمہ ’’ ایک گندی مچھلی سارے تالاب کو گندا کر تی ہے‘‘ کے مصداق ان اداروں میں تعلیم و تدریس کا نور پانے کی بجائے بہک کر بعضے طلبہ وطالبات اخلاقی تباہی کے دلدل میں پھنس جاتے ہیں ۔ ان بگڑے بچوں بچیوں کے اصلاح کی اُمید گھر اور معاشرے سے باندھی جاسکتی تھی مگر افسوس کا مقام ہے جب وہاں بھی ان معنوں میں اندھیرا چھایا ہو تو کیا کیجئے ۔ خود ہی فیصلہ کریں کہ جب معاشرہ اخلاقیات سے دن بہ دن تہی دامن ہو تا جارہاہو ،معاشرے کے سنجیدہ طبقے میں آپادھاپی کی فضامیں تطہیر کا جذبہ دن بہ دن مفقود ہورہا ہو ، رشوت ستانی ، رسومات ِ بد، دھوکہ دہی ، اذیت پسندی ، بے شرمی اور منشیات جیسے ناقابل بیان امراض جابجا اپنے بال وپر پھیلا رہے ہوں اور جو کو ئی کمی رہ جا ئے اُسے بالی وڈ فلموں کا ننگا پن ، ماردھاڑ ، جنسی ہیجان کی آگ بھڑکا نے والی چیزیں اور فیشن پرستی جیسی جان لیوا وبائیں پورا کر رہی ہوں تو سدھار کا سورج کہاں سے طلوع ہو؟ اوپر سے تعلیم وتعلم کا آدم گر انہ کام سر تا پا کمرشلزائز ہو رہا ہو اور تعلیم کا ناقص تصور اور ناہنجار تدریسی نظام نسل ِ نو میں فرسٹیشن بڑھارہا ہو تو جرائم کا ارتکاب، خلاف قانون سرگرمیوں کا پھیلاؤ اور غیر اخلاقی حر کات کا صدور ہونا لازم و ملزوم ہے ۔ بہر حال ا س بدترین صورت حال کے سامنے سرینڈر کرنا کسی بھی باشعور فرد اور ذمہ دار سماج کو زیب نہیں دیتا کیونکہ غلط کاریوں کوکو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرنا خلافِ عقل ہی نہیں بلکہ ایسا رویہ انسانی جذبے سے ماوراء بات قرارپاتی ہے۔ لہٰذا اس سے پہلے کہ ہمارے یہاںیہ آگ گھر گھر کو بھسم کردے ، ہمارا یہ بیک وقت انفرادی اور اجتماعی فرض ہے کہ اولین فرصت میںا صلاحِ احوال کے لئے اپنے اپنے دائرہ اثر میں کمر بستہ ہوجائیں۔اس ضمن میں سول سوسائٹی اور سماجی اصلاح کاروں پر واقعی ناقابل التواء ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ۔ یاد رکھیں اگر وہ بالفرض ان ذمہ داریوں سے سے تجاہل عارفا نہ بر تنے لگیں تو بگاڑ کے خزاں کا بناؤ کی بہاروں میں بدلنے کی تو قع قطعی طور نہیںکی جاسکتی اور نہ سماجی سطح پر انتہائی ناگفتہ بہ حالات کے اس مایوس کن منظر نامے میں نئی نسل کے اندرجرائم کی طرف میلان اوررجحان بڑھنے کی راہ روکی جا سکتی ہے ۔ ٹھیک ہے اس بارے میں سر کاری سطح پر اصلاح ِ احوال کی ایک موہوم سی امید پولیس فورس کے ڈنڈے سے وابستہ کی جاسکتی تھی مگر سال ہا سال کی طویل اورقیامت خیزسیا سی ہلچل نے کشمیر میں خاص کرموثر پولیسنگ کے غبارے سے ہو ا نکال کے رکھ دی ہے ۔ اس کا نتیجہ ہم کھلی آنکھوں دیکھ رہے ہیں کہ یہاں سماج اور قانون ہر قماش کے مجرموں کے سامنے خود کو گونگا ، بہرا اور اندھا ثابت کرتا جارہا ہے۔ اس وجہ سے سماج میں آئے دن جرائم کا بول بالا اور گناہوں کا بے تحاشہ دور دورہ ہو نا کوئی غیر متوقع بات نہیں ۔ ظاہرہے جب تک پولیس فورس کے شانہ بشانہ خود ہمارا سماج بھی جرائم اور خلافِ شرافت و انسانیت سرگرمیوں کی منظم روک تھام کے لئے آگے آکر ایک ثمر بار غیر سیاسی اصلاحی مہم کی باگ ڈور نہیں سنبھالتا ، پیر واری کہلانے والی اس سرزمین میں جرائم کی نرسریاں کبھی کو چنگ سنٹروں کے بہا نے ، کبھی باغات اور میلوں ٹھیلوں کی آڑ میں اور کبھی بے ہودہ کلچرل پروگراموں وغیرہ کے رُوپ میں پروان چڑھتی رہیں گی۔ اس سلسلے میں فی الحقیقت والدین کسی بھی حال میں اپنے بچوں اور بچیوں کے تئیںاپنی ہمہ وقت نگرانی اور اصلاح کارانہ ذمہ داریوں سے مستثنیٰ نہیں ہو سکتے۔انہیں یہ دیکھنے کی لامحالہ زحمت گوارا کر نی چا ہیے کہ ان کی اولادیں کیا کررہی ہیں ، ان کی دلچسپیاں کیا ہیں ، ان کے دوست کس قبیل وقماش کے ہیں ۔ نیز انہیں خود کو ٹٹولنا ہوگا کہ اپنی اولاد کی اصلاح وطہارت کے لئے وہ خود کس طرح زندگی کی صحت مند قدروں کو عملاً برت کر انہیں شعوری طوربچوں اور بچیوں میں منتقل کررہے ہیں۔ انفردای ، سماجی اور سرکاری سطحوں پر اگر اپنی اپنی ان مفوضہ ذمہ داریوں سے بھر پور ا نصاف کیا گیا تو بڑی حد تک ہماری نسل ِ نو غلط کاریوں یاجرائم کی بھینٹ چڑھنے سے محفوظ رہے گی اور یہ سب ممکن العمل ہے۔