عھدحاضرمیں اُردو افسانے کی دنیا میں بلراج بخشی کا نام ممتاز حیثیت کا حامل ہے۔ ان کی شناخت ایک معتبر شاعر، ماہر لسانیات اور معروف ادیب کی ہے۔ گذشتہ چالیس برسوں سے وہ اردو شعرو ادب کی زُلفیں سنوار رہے ہیں۔ یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ ان کی پیدائش جموں کے ایک رفیوجی کیمپ میں ہوئی۔ دراصل ان کے والد کرپا رام بخشی، پونچھ (موجودہ پاکستان) کے باشندہ تھے۔ ہجرت کا کرب انھیں بھی جھیلنا پڑا اور حالات کے پیش نظرانھیں جموں رفیوجی کیمپ میں پانچ چھ برسوں تک قیام کرنا پڑا۔ یہیں ۷ دسمبر ۱۹۴۹ء کو بلراج بخشی کی پیدائش ہوئی۔ کچھ عرصے بعد ان کا خاندان ادھم پور آ بسا اور جموں کشمیر کے ضلع ادھم پور میں یہ لوگ مستقل طور پر مقیم ہو گئے۔ انھوں نے مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی ہے۔ ان کا افسانوی مجموعہ ’ ایک بوند زندگی ‘ ۲۰۱۴ٗ میں شائع ہوا جس کی علمی و ادبی حلقوں میں بڑی پذیرائی ہوئی۔ ان کا شعری مجموعہ زیر ترتیب ہے اور انھوں نے اُردو زبان میں اپنی نوعیت کی پہلی لغت افعال و اسماء کے تعلق سے بعنوان ’ آسانیات ‘ تیار کی ہے جو عنقریب شائع ہوگی۔ ’ آسانیات ‘ میں انھوں نے ترجمے کی مضحکہ خیزیوں کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ بلراج بخشی نے اپنی کتاب ’ آسانیات ‘ میںمختلف الفاظ کو الگ الگ موضوعات اورعنوانوں کے تحت پیش کیا ہے۔ چونکہ موجودہ ترقی یافتہ دور اور سائنس اور ٹیکنالوجی کے زمانے میں نئی اصطلاحوں کی اشد ضرورت ہے لیکن نئی اصطلاحیں عام طور پر زبان زد خاص و عام نہیں ہوتیں، ان کو اپنانے میں خاصی مشکل ہوتی ہے اور اس کوشش کو اکثر بے سود اور مضحکہ خیز بھی قرار دیا جاتا ہے۔ چند مثالیں تو اس طور پر دی جا سکتی ہیں لیکن مجموعی طور پراصطلاح سازی کا عمل ایک مشکل لیکن قابل ستائش عمل ہے۔ بلراج بخشی کی اس کتاب کی آمد پر یقیناً اس موضوع پر گفتگو ہو گی۔ ان کے افسانوں کا مجموعہ ’ ایک بوند زندگی ‘ جب منظر عام پر آیا تو اسے بے حد ذوق و شوق سے پڑھا گیااور اس کی کئی وجہیں تھیں۔ اپنے افسانوں میں اچھوتے اور منفرد موضوعات کو بلراج بخشی نے بہت مہارت اور منجھے ہوئے فنکار کی طرح پیش کیا ہے۔ وہ عام آدمی کے المیے کو اس طورپر بیان کرتے ہیں کہ ذہن و دل کو جھنجھوڑ دیتے ہیں۔ اس مجموعے میں ان کے افسانے فیصلہ ،ڈیتھ سرٹی فکیٹ ،زِچ ، مُشترکہ اعلامیہ ، مُکتی، کیا نہیں ہو سکتا، مُکلاوہ ، گرفتہ، کھانسی ایک شام کی، ہارا ہوا محاذ، چور ، اور ایک بوند زندگی شامل ہیں۔ ان افسانوں کو پڑھنے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے افسانوں کے کردار جیتے جاگتے ہیں جو جانے پہچانے ماحول میں سانسیں لے رہے ہیں۔ ان کے افسانوں پر جیلانی بانو ، اقبال مجید ، عبدالصمد، علی احمد فاطمی ، کوثر مظہری ، سلام بن رزاق ، مولا بخش ، طارق چھتاری، رؤف خیر ، افتخار امام صدیقی ، کرشن کمار طور ، دانش الہ آبادی، مشتاق صدف ، نند کشور وکرم کی آراء شامل ہیں۔ جبکہ اقبال مجید ان کی افسانہ نگاری پر اظہارخیال کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’ موضوعات میں تنوع ہے۔ فیصلہ ، زِچ ، ڈیتھ سرٹی فکیٹ اور چور کو اردو کی بہترین کہانیوں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ زبان و بیان پر بلراج بخشی کے مکمل عبور سے ایک خوشگوار حیرت ہوتی ہے۔ ان کی کہانیوں میں الفاظ کا دروبست برمحل ہے۔‘‘ یہ اور اس طرح کی متعدد آراء ہیں، جن میں ان کی افسانہ نگاری کو اہم قرار دیا گیا ہے۔ کرشن کمار طور ان کے افسانوں کے متعلق فرماتے ہیں ’’ بلراج بخشی کے افسانوں کا کینوس متنوع اور زندگی کے بو قلموں پہلوؤں کا ترجمان ہے اور ان کا اختتام ہمیشہ Poetic Idiom پر ہوتا ہے۔ زبان پر مکمل عبور ، مناسب الفاط کا استعمال اور کہانی پن بلراج بخشی کے افسانوں کا وصف ہے اور اسی لئے ان کے افسانوں کو ایک ہی نشست میں پڑھے بغیر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ بلا شبہ بلراج بخشی صف اول کے افسانہ نگاروں میں سے ہیں جن پر ناقدین کو توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔
بلراج بخشی ایک غزل گو کی حیثیت سے بھی اپنی خاص شناخت رکھتے ہیں۔ گرچہ ان کا شعری مجموعہ تادم تحریر منظرعام پر نہیں آیا ہے لیکن ان کی جو غزلیں اور اشعار نظروں سے گزرے ہیں، ان میں ایک قسم کی تازگی کا احساس ہوتا ہیے۔ بلراج بخشی نے اپنی پوری زندگی جس کرب کو جھیلا ہے اس کا درد ان کا اشعار میں عیاں ہے۔ کشمیر کی خوش نما وادیوں میں جہاں محبتوں کے نغمے لکھے جاتے رہے ہیں، اس کی موجودہ تصویر انھیں بے چین کرتی ہے۔ ان محسوسات کو نہ صرف وہ شعری قالب میں ڈھالتے ہیں بلکہ وہ تمام پیکر اور احساست خودبخود ان کے قلم سے ڈھل جاتے ہیں ۔
زمین پاؤں سے میرے لپٹ گئی ورنہ
میں آسمان سے تارے اتار سکتا تھا
۔۔۔۔۔۔۔
بارود کے موسم نے کھلائے ہیں نئے گل
سنتے ہیں کہ اب ڈل میں شکارا نہیں ہوتا
۔۔۔۔۔۔۔
یہ کیسی جنگ جاری ہے کہ دونوں سمت ماتم ہے
کسی کی جیت کا پرچم ہی لہرایا نہیں جاتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان اشعار میں جن علامات، استعارات اور تشبیہات کا برمحل استعمال کیا گیا ہے وہ ایک خاص فضا کی دین ہے۔ بلراج بخشی کے شعری کمال اور ہنرمندی کے چند نمونے مزید ملاحظہ ہوں :
لحاظ رکھتا ہوں احباب کا بڑی حد تک
میں ان کی سازشوں سے بے خبر نہیں ہوتا
۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی بھٹکے مسافر کو بھی ہم مہمان کہتے تھے
مگر اب دوست کو بھی گھر میں ٹھہرایا نہیں جاتا
۔۔۔۔۔۔۔۔
فیصلہ ہے کہ ترے دل میں ٹھہرنا ہے مجھے
اور اِک درد کے عالم سے گزرنا ہے مجھے
۔۔۔۔۔۔۔
بلراج بخشی آج بھی تازہ دم ہیں اور اردو شعروادب کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ میں اس تخلیقی فنکار کی خدمت میں ہدیۂ تبریک پیش کرتا ہوں اور یہ خواہش رکھتا ہوں کہ اردو زبان و ادب کہ یہ شیرینی اور مٹھاس وہ اپنے بعد کی نسلوں تک بھی منتقل کریں تاکہ اردو جو محبت ، رواداری ، اخوت و بھائی چارگی کی زبان ہے، اس زبان اور اس کے ادب سے نئی نسل بھی بخوبی واقف ہو سکے۔۔
(پروفیسر شعبہ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی)