جموں //سنجوان جموں میں فدائین حملہ کیابازگشت سنیچر کو قانون ساز اسمبلی میں بھی سنائی دی جس بیچ ممبران نے پاکستان زندہ باد اور مردہ باد کے نعرے بلند کرنے کے علاوہ ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کی جبکہ اسمبلی کے اسپیکر کویندر گپتا نے اس حملہ کی وجہ روہنگائی اور بنگلہ دیشیوں کی وہاں موجودگی قرار دیا اور بعد میں اپوزیشن کی سخت مداخلت کے بعد انہوں نے ایوان سے ان الفاظ کوحذف بھی کرایا ۔ سخت نعرہ بازی اور شور شرابہ کے بیچ اسمبلی کے اسپیکر کو ایوان کی کارروائی 15منٹوں کیلئے ملتوی بھی کرنی پڑی ۔ ایوان زیرین میں جمعرات کو اسمبلی کی کارروائی جیسے ہی شروع ہوئی تو حزب اختلاف سے وابستہ تمام ممبران اپنی نشستوں سے کھڑے ہوئے اور انہوں نے سنجوان فدائیں حملہ پر سرکار کو آڑے ہاتھوں لینے کی کوشش کی ۔ممبران نے اس دوران سرکار پر الزام عائد کیا کہ وہ ریاست میں سیکورٹی صورتحال میں بہتری لانے میں ناکام ہوئی ہے اس پر بی جے پی ممبران اپنی نشستوں سے کھڑے ہوئے اور پاکستان مردہ باد مردہ باد کے نعرے بلند کرنے لگے، جبکہ اپوزیشن کے ممبر ان جن میں نیشنل کانفرنس کانگرنس ،پی ڈی ایف اور سی پی ایم لیڈر محمد یوسف تاریگامی نے فدائیں حملے کی مذمت کرتے ہوئے سرکار کو آڑے ہاتھوں لیا اور اس کیلئے موجودہ سرکار کو ذمہ دار ٹھرایا ۔بی جے پی ممبر اسمبلی ست پال شرما نے اسپیکر سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ کے اسمبلی حلقہ میں جس طرح آج پاکستان کی جانب سے حملہ کیا گیا ہے وہ قابل مذمت ہے ۔اس پر بی جے پی کے تمام ممبران پھر سے اپنی نشستوں سے کھڑے ہوئے اور پاکستان مردہ باد کے نعرے بلند کرنے لگے جبکہ دوسری طرف این سی رکن علی محمد ساگر،نے بی جے پی ممبران سے مخاطب ہو کر کہا کہ ریاست کو یہاں پہنچانے والے بی جے پی اور پی ڈی پی والے ہیں اور آپ کی غلط پالیسوں کی وجہ سے اُس طرح کی کارروائیاں ہو رہی ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ریاست میں کوئی بھی محفوظ نہیں ہے ،تاہم بی جے پی ممبران ایوان میں لگاتار پاکستان مردہ باد مردہ باد کے نعرے لگا رہے تھے ۔ سخت شور شرابہ کرتے ہوئے ممبر اسمبلی بانڈی پورہ عثمان مجید اور ممبر اسمبلی اودھمپور پون کمارگپتا ایوان کے وسط میں آگئے اور مطالبہ کیا کہ سرکار اس واقعہ پر بیان دے کہ سنجوہ میں کیا ہوا ہے، تاہم اس بیچ اپوزیشن کے ممبران اور بی جے پی میں سخت بحث وتکرار بھی ہوئی جو شور شرابہ کینذر ہو گئی ۔اپوزیشن کے ممبران اگرچہ اسمبلی اسپیکر سے سرکار کو ہدایت دینے کا کہہ رہے تھے کہ وہ ایوان میں اس پر بیان دیں تاہم اس بیچ اسمبلی اسپیکر کویندر گپتا نے جو زبان کھولی اُس سے ایوان میں مزید شور شرابہ بڑھ گیا اسپیکر نے کہا کہ ’’پہلے بھی سرکار کو بار بار یہاں یہ کہا گیا کہ وہاں پر جو روہنگائی اور بنگلادیشی ہیںاُن کی موجودگی سے اس طرح کی کارروائی ہو رہی ہیں۔‘‘اس پر اپوزیشن کے ممبران سنچ پا ہو ئے اور اسپیکر کے اس بیان پر سخت احتجاج کرنے لگے ۔ این سی رکن ساگر نے کہا کہ اسپیکر کی زبان سے ایسی کوئی بات نہیں کہی جانی چاہئے تھی اور انہیں اس پر ایوان میں معافی مانگنی چاہئے اور یہ الفاظ واپس لینے چاہیں اس بیچ اگرچہ پی ڈی پی ممبران اپنی نشستوں پر بیٹھے رہے تاہم بی جے پی اور اپوزیشن جماعتوں کے ممبران نے ایک دورسرے پر تیکھے وار کئے ۔ اپوزیشن کے ممبران جن میں علی محمد ساگر، میاں الطاف ، جاوید رانا ، عثمان مجید ، مجید لارمی ،سید آغا روح اللہ، الطاف کلو ایوان چاہ میں پہنچ گئے اور اس پر احتجاج کرنے لگے اور اسپیکر کو اس بات کیلئے معافی مانگنے کو کہا اسی اثنا میں این سی رکن اسمبلی سونہ واڑی محمد اکبر لون اسپیکر کے سامنے چلے گئے اور انہیں اس پر معافی مانگنے کو کہا جہاں اپوزیشن اس بیان پر سنچ پا کو کر اسمبلی کو بیان لانے کو کہہ رہے تھے وہیں بی جے پی ممبران لگاتار پاکستان مردہ باد کے نعرے لگا رہے تھے تاہم چاہ ایوان میں اُس وقت ایک عجیب وغریب صورتحال پیدا ہو گئی اور سب حیران ہو ئے جب نیشنل کانفرنس کے سینئر لیڈر اور ممبر اسمبلی سونہ واری محمد اکبر لون نے اُس وقت پاکستان زندہ باد ،زندہ باد کے نعرے بلند کئے جب بی جے پی ممبران پاکستان مردہ باد مردہ کے نعرے لگا رہے تھے ۔اس بیچ ایوان میں سخت شورشرابہ ہنگامہ کے کو دیکھتے ہوئے اسمبلی کے اسپیکر کوندر گپتا نے ایوان کی کارروائی 15منٹوں کیلئے ملتوی کر دی ۔15منٹ بعد ایوان کی کارروائی دوبارہ جیسے ہی شروع ہوئی تو اپوزیشن کے ممبران جن میں علی محمد ساگر ، حکیم محمد یاسین ، جی ایم سروڑی ، محمد یوسف تاریگامی کے علاوہ دوسرے ممبران نے اسپیکر سے کہا کہ پورا ایوان اس فدائین حملہ کی مذمت کرتا ہے لیکن انہیں اپنے الفاظ واپس لینے چاہئیں ۔اس بیچ پارلیمانی امور کے وزیر نے مداخلت کرتے ہوئے واقعہ کی مکمل تفصیلات ایوان میں پیش کی اور ایوان میں کی گئی بیان بازیوں کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ایوان میں جو مسئلہ اپوزیشن نے اٹھایا تھا وہ ٹھیک تھا ،انہوں نے اسپیکر سے مخاطب ہو کر کہا کہ اس مسئلے پر اپوزیشن ابھی بات ہی کر رہی تھی کہ اور بنا کسی تحقیقات کے یہ کنفوژن پیدا کیا گیا۔ مجھے لگتا ہے اسمبلی اسپیکرکو ایسی بات نہیں کہنی تھی انہوں نے تمام ممبران سے ہاتھ جوڑ کے گزارش کی کہ یہ ایک سنگین مسئلہ ہے ریاست جموں وکشمیر ایک سیکولر ریاست ہے انہوں نے جموں کے لوگوں کا شکریہ ادا کیا کہ جو بھی کشمیر سے لوگ آئے انہیں جموں کے لوگوں نے پنا ہ دی ۔ممبر اسمبلی کولگام محمد یوسف تاریگامی نے کہا کہ فدائین حملہ سب کیلئے قابل تشویش ہے اور اس کی مذمت کی جاتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ ایوان میں لوگ آتے اور جاتے رہیں گے مگر ملک اور عوام کو تقسیم مت کرو،انہوں نے کہا کہ اگر اسپیکر صاحب کے اپنے کوئی خیالات ہو سکتے ہیں لیکن اس کرسی پر بیٹھ کر انہیں ایسی چیزیں شوبھا نہیں دیتیں لہٰذا انہیں اپنے بیان کو ایوان س کی کارروائی یحذف کرنا چاہئے ۔جبکہ ممبر اسمبلی نگروٹہ دیوندر رانا نے سنجوہ جموں میں ہوئے حملہ کی شدید الفاظ میںمذمت کرتے ہوئے کہا کہ جو بیان ایوان میں دئے گے تب میں یہاں نہیں تھا تاہم میں پھر بھی کہتا ہوں کہ اگر یہ باتیں اُن کی طرف سے ہوئیں یا پھر ہماری طرف سے اس سے باہر بُرا اثر پڑے سکتا ہے ۔انہوں نے جموں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سب لوگ جموں کو اچھی طرح سے جانتے ہیں جموں کے لوگوں نے ہمیشہ صبر سے کام لیا ہے اور یہاں بھائی چارے کو قائم رکھا ہے آپ کا بیان اور جو بیان اپوزیشن سے آیا ہے اس سے ایوان سے باہر برا اثر پڑسکتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ جموں وکشمیر ایک سیکولر سٹیٹ ہے اور جو بھی باتیں ایسی یہاں ہوئی ہیں اُن کو اس اسمبلی سے حذف کیا جائے تاکہ اس واقعہ کو فرقہ وارانہ رنگ نہ دیا جا سکے ۔ جس کے بعد اسمبلی کے اسپیکر کویندر گپتا نے ان الفاظ کو اسمبلی سے حذف کرنے کا حکم دیا اور معمول کی کارروائی دوبارہ شروع ہوئی ۔معلوم رہے کہ اس سے قبل اسمبلی کے اسپیکر کویندر گپتا نے اپنے اس متنازع بیان کو دینے سے قبل حملے کے مقام پر گئے اور وہاں موجود نامہ نگاروں کو بتایا کہ روہنگیا مسلمان پہلے سے ہی شک کے دائرے میں تھے۔ انہوں نے کہا ’اس میں کوئی دو رائے نہیں کہیں کہیں سیکورٹی میں چوک ہوئی ہے۔ انتظامیہ نے پہلے ہی ان کے خلاف کاروائی کی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ جلد ہی ان پر کوئی فیصلہ لیا جائے گا۔