جموں//پہاڑی زبان بولنے والے لوگوں کو ریزرویشن کے فوائد دینے سے متعلق3فیصد پہاڑی ریزرویشن بل کو جمعرات کے روز ایوان میں پاس کیا ۔معلوم رہے کہ اس سے قبل عمر عبداللہ سرکار میں اس بل کو ایوان میں پیش کیا گیا تھا لیکن ریاستی گورنر کی طرف سے کچھ اعتراضات اٹھائے جانے پر بل کو واپس بھیج دیاگیاتھا اس وقت پانچ فیصد ریزرویشن دینے کی بات کہ گئی تھی۔ جموں کشمیر ریزرویشن ایکٹ 2004 میں ترمیم کے حوالے سے جموں کشمیر ریزر ویشن ترمیمی بل نمبر18/2014 کو ایوان میں سماجی بہبود کے وزیر سجاد غنی لون نے پیش کیا ۔ وزیر نے اس بل کے مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس طبقے کے لوگ زیادہ تر ریاست کے دور دراز علاقوں میں رہایش پذیر ہیں جن کی سماجی و اقتصادی حالتِ قدرِ کمزور ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سماجی ، اقتصادی اور تعلیمی اعتبار سے پسماندہ یہ لوگ بااختیار طبقے کے لوگوں کے ساتھ مقابلہ نہیں کر پاتے ۔ انہوں نے کہا کہ گُجر اور بکروال طبقوں کو ٹرائیبس کا درجہ دینے کے باوجود بھی پہاڑی زبان بولنے والوں کو خاطر خواہ فوائد دستیاب نہیں ہوتے ہیں اور یہ بات اس طبقے کی سماجی و اقتصادی پسماندگی سے ظاہر ہوتی ہے ۔انہوں نے کہاکہ پہاڑی کیمونٹی کو ’’لسانی اور نسلی‘‘خصوصیات کی بنا پر یہ ریزرویشن دی گئی ہے، پہاڑی لفظ کو اس کے اصلی لغت معنوں میں نہ لیاجائے۔ یہاں پر اس کا مطلب الگ ہے۔ انہوں نے کہاکہ ڈوڈہ، کشتواڑ ، رام بن، ریاسی، کٹھوعہ اور اودھم پور کے پہاڑی علاقوں میں رہنے والے جن پسماندہ لوگوں کی طرف سے ریزرویشن کی آوازیں جو اٹھ رہی ہیں، وہ قدرجائز ہوسکتی ہیں لیکن انہیں ریزرویشن پہاڑی طبقہ کی قیمت پر نہیں دی جاسکتی۔ پہاڑی طبقہ سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی جن میں نیشنل کانفرنس کے محمد شفیع اوڑی، پی ڈی پی کے جاوید حسن بیگ، بی جے پی کے راویندر رینہ کے علاوہ شاہ محمد تانترے، یاور احمد میر، الطاف احمد وانی ، جیون لال ، مبارک گل، عثمان مجید نے حق میں بولاجس کے بعد ووٹنگ کے وقت انہوں نے بھی ووٹ ڈال کر بھاری اکثریت سے بل کو پاس کرایا۔ بل پربولتے ہوئے شفیع اوڑی نے کہاکہ یہ بل پہلے بھی ایوان میں پاس ہوچکا ہے، کچھ کمی رہی تھی جس کو اب دور کیاگیاہے، بیکورڈ کلاس کمیشن کی رپورٹ کو بنیاد بناکر 3فیصد ریزرویشن رکھی گئی ہے لیکن آبادی کے مطابق یہ کم ہے، کم سے کم چھ فیصد ہونی چاہئے تھی۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ انہوں نے کہاکہ ایسا کر کے ہم انصاف دیتے ہوئے بھی طبقہ سے نا انصافی کر رہے ہیں۔ شفیع اوڑی نے کہاکہ پہاڑی طبقہ کو یہ ریزرویشن نسلی اور زبان کی خصوصیت ، منفردتہذیب وتمدن ہونے کی صورت میں دیاجارہاہے۔ انہوں نے کہاکہ اس کو صرف چند علاقوں تک محدود نہیں رکھاجانا چاہئے بلکہ ریاست بھر میں جہاں جہاں ہیں، ان سبھی کو اس کا فائیدہ ملے۔پی ڈی پی کے جاوید حسن بیگ نے کہا1947کی تقسیم میں جموں وکشمیر ریاست میں سب سے زیادہ نقصان پہاڑی طبقہ کوہوا، جوکہ دو حصوں میں بٹ گئی۔ بٹوارے کے بعد سے یہ قوم آج تک اپنے وجود اور تشخص ڈھونڈتی رہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ ستر دہائیوں سے اس قوم کو اپنے وجود کو قائم کرنے کیلئے جدوجہد کرنا پڑی ہے۔ انہوں نے کہا’’آج طبقہ کو صرف3فیصدی ریزرویشن دینے کا مسئلہ نہیں بلکہ اس سے پوری پہاڑی قوم کو پہچان ملی ہے۔