شوپیان//18 دنوں تک موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد شوپیان کی لڑکی ندگی کی جنگ ہار گی۔اس طرح شوپیان مسلح جھڑپ کے بعد جاں بحق ہونے والے شہریوں کی تعداد 6 تک پہنچ گئی۔24 جنوری کو ژھے گنڈ شوپیان میں فورسز اور جنگجوؤں کے بیچ ہونے والی خون ریز تصادم آرائی میں حزب المجاہدین سے وابستہ دو جنگجو فردوس احمد لون ساکنہ گنہ پورہ اور سمیر احمد وانی ساکنہ ژھے گنڈ اور عام شہری شاکر احمدکی موت واقعہ ہوئی اور متعدد زخمی ہوئے تھے جن میں ایک کمسن مشرف اور دو لڑکیاں سمیہ جان اور سایمہ جان شدید زخمی ہوئے تھے۔کمسن مشرف فیاض ولد فیاض احمد نجار ساکنہ دارمدور کیگام شوپیان عمر گیارہ سال 1 فروری کو زندگی کی جنگ ہار گیا اور سنیچر کی شام کو سائمہ جان دخترہلال احمد وانی ساکنہ ژھے گنڈ عمر 18سال اٹھارہ دنوں تک کومہ میں رہنے کے بعد زندگی کی جنگ ہار گئی۔واضح رہے کہ سایمہ جان جنگجو سمیر احمد کی بہن ہے۔سائمہ اینکاونٹر کے دوران گولی لگنے سے زخمی ہوئی تھی جو سرینگر کے سکمز اسپتال میں تشویش ناک حالت میں زیر علاج تھی ۔سائمہ جان کی میت کو جوں ہی اسکے آبائی گاؤں ژھے گنڈ پہنچایا گیا تو ہر طرف کہرام مچ گیا۔ کچھ ہی پلوں میں آس پاس کے علاقوں سے آئے ہوئے ہزاروں کی تعداد میں لوگ ژھے گونڈ پہنچ گئے اور ایک میدان میں سایمہ جان کا دو بار نماز جنازہ پڑھا۔ جلوس کی صورت میں اسلام و آزادی کے حق میں نعرے بازی کی گونج میںلوگوں نے سائمہ کومقامی مقبرہ میں پر نم آنکھوں سے سپرد لحد کیا۔سایمہ جان کے رشتہ دار نے بتایا کہ اینکاونٹر اگر فورسز اور جنگجوؤں کے بیچ تھا تو ہماری بے گناہ بچی کو کیوں مارا گیا ۔ ہم ہندوستان سے ہمارا حق مانگ رہے ہیں ہم کوئی بھیک نہیں مانگ رہے ہیں۔ مہاتما گاندھی نے بھی آزادی مانگی اسے کرانتی کاری کہاجا رہا ہے اور ہم کشمیریوں کو دہشت گرد قرار دیا جارہا ہے۔ادھر پلوامہ اور شوپیان اضلاع میں موبائل انٹرنیٹ خدمات سنیچر کی رات کو بند کر دی گئی۔