گذشتہ دنوںمحمد مقبول بٹ اور محمد افضل گورو کی برسیاں منائی گئیں۔ حسب روایت اہل کشمیر نے ایک عدد ہڑتال کی اور اپنے آپ کو پورے ایک برس کیلئے تحریک کے تئیں تمام ذمہ داریوں سے فارغ مان کر ۱۲ فروری کی صبح سے اپنی نارمل زندگی کا آغاز کیا ۔ میرا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اہل کشمیر سال بھر صرف ہڑتالیں کریں یا افضل گورو اور مقبول بٹ کی قربانیوں کا احاطہ کرنے اور انہیں عام کشمیریوں کے ہیرو ثابت کرنے میں ہی اپنی عمر گذاریں بلکہ ہر ذی حس کشمیری کی طرح ہمارے ذہنوں میں بھی یہ بات بوجھ کی طرح سوار ہوئی ہے کہ کیا تحریک مزاحمت صرف قربانیاں دینے کا نام ہے یا پھر منزل پر پہنچنے کیلئے سنجیدہ کوششوں کا نام ہے ۔ اس بات میں بھی شک نہیں کہ موجودہ پُر آشوب حالات میں اہل کشمیر کے پاس شائد ہڑتال کی کال دینے اور اس پر عمل کرنے کے سوا کوئی دوسرا موثر متبادل راستہ اپنی جائز بات اور مظلومیت بیان کرنے یا اس سے ثابت کرنے کیلئے نہیں ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ تحریک مزاحمت صرف فی الحال ہڑتالوں کی ہی محتاج نظر آتی ہے ۔ مزاحمتی قیادت اور دیگر ایسے تمام افراد اور جماعتوں پر سرکاری قدغنیں اور انہیں ہراساں کرنے کی آئے روز کی سرکاری خرمستیاں اگر چہ اپنی جگہ باوزن اور سو فیصدی صحیح ہیں لیکن ان بندشوں اور قدغنوں کو جواز بنا کر اصل ہدف کی طرف پیش قدمی نہ ہونے کو جواز بخشنا ناقابل قبول ہے۔ افضل گورو اور مقبول بٹ کو تختہ دار پر چڑھانے کے پیچھے نئی دلی کی جو بھی مجبوریاں رہی ہوں یا مقاصد کارفرما ہوں لیکن غیر جانبدارانہ تجربہ ہزار زاویہ سے یہی بات ثابت ہوتی ہیںکہ افضل گورو اور مقبول بٹ کو پھانسی پر چڑھانے سے نئی دلی کو فائدہ بہت کم اور نقصان بہت زیادہ ہونا چاہیے تھا ۔ اگر کوئی بھی ایسا شخص جو دل سے کشمیر میں ہندوستانی موقف کی حمایت کرتا ہو کبھی ہندوستانی نظام سے مایوس ہوا ہو تو وہ مقبول بٹ اور افضل گورو کی پھانسیوں کے واقعات اپنے دل و دماغ میں لاتے وقت ہوتا ہوگا۔ صرف اس لئے نہیں کہ محمد افضل گورو اور محمد مقبول بٹ کو انصاف کے تقاضوں کا خون کر کے قتل کر دیا گیا بلکہ اس سے زیادہ اس لئے کہ جو ہندوستان کو اہنسا کا سب سے زیادہ علمبردار ہونے کا دعویدار کہلاتا ہے دو اشخاص کی سزا ئے موت کو معاف کرکے کشمیر میں اپنے کم ہی سہی لیکن مخلص چاہنے والوں کے جذبات کا اندازہ نہیں لگا سکا اور نہ ہی اس بات کا خیال رکھا کہ کشمیر میں ہندوستانی مفادات کا بلواسطہ یا بلا واسطہ دفاع کرنے والو ں پر اس جارحانہ قدم کے کیا نتائج مرتب ہونگے ۔ یہ بات ایک تحقیقی بحث مباحثہ کیلئے بہت اچھا موضوع فراہم کر سکتی ہے کہ کیا افضل گورو اور مقبول بٹ کو انصاف کے تقاضات کے مطابق تختہ دار پر چڑھایا گیا لیکن تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ اگر یہ فرض کر بھی لیا جائے کہ محمد مقبول بٹ اور محمد افضل گورو پر ہر لحاظ پر لگائے گئے الزامات سو فی صدی صحیح تھے اور انہیں اپنا دفاع کرنے کا بھی بھر پور موقع فراہم کیا گیا تھا اور ان کے اپنے مداح اور اہل خانہ تک بھی اس بات کے قائل تھے کہ ان کو سزائے موت دینا قانون کے تقاضوں کے عین مطابق تھا تو کیا پھر ان دونوں کو سزائے موت دینا درست تھا ؟ جواب شائد یہی ہوگا کہ ایسی حالت میں بھی ان کی پھانسی کئی اعتبار سے ناقابل قبول اور انصاف کا خون ہی قرار پائے گی۔ وجہ صاف ہے کہ جموں کشمیر میں صرف افضل گورو اور مقبول بٹ پر ہی قتل کے مقدمہ یا الزامات عائد نہیں کئے گئے بلکہ ایک لاکھ کشمیریوں کو سو من مٹی کے نیچے دفن کرنے والے آسمانی فرشتے نہیں بلکہ وردیاں پہنے ہوئے فوج ، بی ایس ایف، سی آر پی ایف ، جموں کشمیر پولیس اور دیگر ایجنسیوں کے لوگ تھے۔ ایسے سینکڑوں واقعات عام لوگوں کی نظروں میں ہیں جہاں وردی پوشوں نے دن دھاڑے عام شہریوں کو معمولی بات کا بہانہ بنا کر گولیوں سے ابدی نیند سلا دیا ۔ لیکن ان قاتلوں کو سزا کے بدلے میں انعامات اور تعریفوں سے نوازا گیا ۔ لہذا 29برسوں کی مسلح شورش کے دوران صرف مقبول بٹ اور افضل گورو کو تختہ دار پر چڑھانا انصاف کا خون کرنے سے بھی بدتر عمل تھا ۔ بہر حال یہ تصویر کا ایک پہلو ہے ۔ دوسرے زاویہ سے دیکھا جائے تو پتہ چلے گا کہ مزاحمتی تحریک افضل گورو اور مقبول بٹ کی بے مثال قربانیوں کا وہ صلہ اپنی قوم اور تحریک مزاحمت کو دینے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہوئی ہے جو کہ ان دو عظیم قربانیوں کے عوض حاصل کیا جا سکتا تھا ۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ اندرون ریاست مزاحمتی قیادت کیلئے کام کرنا نئی دلی نے بے حد مشکل بنا دیا گیا ہے لیکن پوچھا جا سکتا ہے کہ وہ ہزارو ں کشمیری جو 1990ء کے بعد یا اس سے پہلے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں آباد ہو گئے ہیں آخر کشمیریوں کے بیرونی دنیا کے لئے سفیر کیوں نہیں بن پائے ہیں۔ یہاں سے ہجرت کرنے والے اگر مخلص اور سنجیدہ ہوئے تو انہوں نے تحریک مزاحمت کے مثبت پہلوئوں کو اجاگر کرکے ایک تاریخ رقم کی ہوتی ۔ یہودیوں نے کس طرح پوری دنیا خاص طور سے یورپ اور امریکہ میں اپنی مہاجرت کے دوران اپنا مقدمہ عالمی طاقتو ں کے سامنے رکھا یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج کی تاریخ میں اسرائیل پوری دنیا کو ڈکٹیشن دے رہا ہے ۔ خود فلسطینیوں کا معاملہ دیکھیں ۔ ناقابل بیان مظالم سہنے کے با وجود انہوں نے سفارتی مخاذ کو تھا م کر رکھا ۔ جب اسرائیلی وزیر اعظم گذشتہ ماہ ہندوستان آئے تو اور لوگوں کے علاوہ اہل کشمیر نے بھی دلی کو اس بات کیلئے خوب تنقید کا نشانہ بنایا کہ اس نے فلسطینیوں کے قاتلوں کو یہاں باہوں میں لیا لیکن صرف چند دن بعد جس طرح فلسطینیوں نے نریندر مودی کا اپنے ہاں استقبال کیا اس کو بہترین سفارتکاری ، تدبر اور شاندار حکمت کے علاوہ اور کیا نام دیا جا سکتا ہے ۔حتٰی کہ طالبان نے بھی درپردہ امریکہ کے ساتھ مذاکرات کا دامن کبھی نہیں چھوڑا۔ یہ تلخ حقیقت ہمیں ماننی ہی پڑے گی کہ بیرون ریاست بسنے والے کشمیریوں نے اپنی قوم کو مایوسیوں کے سوا کچھ بھی نہیں دیا۔ کبھی کبھار چند درجن افراد کو جمع کرکے خلیل خان کی طرح فاختے اڑانے والوں نے کشمیر کاز کے نام پر بیرون ممالک میں خوب دکانیں تو چمکا لیں لیکن کسی ایک بھی عالمی طاقت کو کشمیریوں کی جائز آواز کی داد رسی کیلئے آمادہ نہ کر سکے ۔ یہ فیصلہ قیادت کے دعویدار وں کو کرنا ہے کہ کیا تحریک صرف قربانیوں اور جذبات کو ابھارنے کا نام ہے یا پھر کسی منزل پر پہنچنے کا نام ۔ ہم نے اپنا محاسبہ کیا ہوتا تو افضل گورو کی پہلی برسی سے لیکر آج تک ہر سال 9فروری کے دن ان کی اہلیہ تبسم گورو کو کبھی یہ نہ کہنا پڑ ھتا کہ انہیں شبیر شاہ کے علاوہ باقی ماندہ قیادت نے مایوس کر دیا ۔ وہ الفاظ صرف تبسم گورو کے نہیں بلکہ بیشتر شہداء کے وارثین کبھی کھلے عام تو کبھی دبے الفاظ میں یہ جائز واویلا کرتے رہتے ہیں کہ قیادت اور عوام دونوں نے انہیں حقارت آمیز حد تک بھلا دیا ہے۔ سوال کرنے والوں پر فتویٰ بازی سے حقیقت کو نہ بدلا جاسکتا ہے اور نہ ہی منزل کی طرف کوئی فیصلہ کن پیش قدمی ممکن ہے ۔ اگرچہ گرم گرم لہو تحریک مزاحمت پر نچھاور کرنے والوں کے جنازوں میں بھاری عوامی اجتماعات کی شرکت اپنی جگہ لیکن صرف چند دن بعد ان شہداء کے وارثین ہر طرف دھکے کھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں کیونکہ ان کی باز آبادکاری کیلئے کسی کے پاس کوئی بھی لائحہ عمل نہیں ہے ۔ بات تو ہر کوئی جموں کشمیر اور لداخ کی کرتا ہے لیکن کشمیر کے سوا باقی دو صوبوں کی زمینی حالت کیا ہے اور وہاں کے عوام کی کیا رائے ہے اس کا شائد نہ کسی کو کوئی ادارک ہے اور نہ ہی اس پر غور تک کرنے کی کوئی زحمت گوارہ کر رہا ہے ۔ آج نہیں تو کل مزاحمتی قیادت کو اپنے روایتی طور طریقوں سے ہٹ کر اپنی پالیسیوں کو بدلتے حالات کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ہی ہوگا۔ اپنی ہر دانستہ یا غیر دانستہ غلطی کو دوسروں کے سر تھونپنے سے ہم میں سے اگر چہ ہر کوئی ماسوائے اپنے آپ کو دھوکہ میں رکھنے کے علاوہ اور کچھ بھی حاصل نہیں کر پائے گا لیکن ہمارا ذاتی فائدہ یا نقصان تو ایک طرف بدنصیب کشمیری قوم جومصیبت کے گہرے بھنور میں پھنسی ہے اس کیلئے اس سے نکلنا ہمارے غیر سنجیدہ رویہ کے باعث اور مشکل ہوتا جائے گا۔ �����