’’اپنے منہ میاں مٹھو بننا ‘‘یہ محاورہ تو ہر کسی نے سنا ہوگا ۔بہت سارے ادیبوں اور دانشوروں نے اس پس منظر میں بہت کچھ لکھا ہے ۔ حالیؔ صاحب کی نظم "خودستائی " اس کی عمدہ مثال ہے۔تو صاحبو !اب بھی اگر آپ نے اس محاورے کو کبھی استعمال نہیں کیا ہے تو اپنے آس پاس کے لوگوں پر غور فرمائیں بہت جلد آپ کا دھیان ان حضرات کی اور جاے گا جن پر یہ محاورہ صادق آئے گا اور عین ممکن ہے کہ آپ کی ذات پر ہی یہ صادق آجائے !
ہاں کچھ افراد ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی قوت برداشت بہت کم ہوتی ہے اور وہ ایسے حضرات سے بہت چِڑھتے ہیں ،کیونکہ میں بھی پہلے پہل اپنے منہ میاں مٹھو بننے والے حضرات سے بہت چِڑھتا تھا اور ان حضرات کو دیکھ کر راہ فرار اختیار کر لیتا تھا مگر آہستہ آہستہ میری سوچ بالغ ہوتی گئی اور ان حضرات کی اہمیت و افادیت کے راز مجھ پر افشا ٔ ہو گئے۔ میں نے اس نقطے کو جلد سوجھا کہ آخر کب تک بھاگوں گا اور کہاں تک بھاگوں گا ،کہیں نہ کہیں ، کبھی نہ کبھی تو ایسے حضرات کی صحبت تو نصیب میں لکھی ہوگی ۔اس لئےقارئین کرام کو بھی مشورہ دیتا چلوں کہ بھائی صاحبان !آپ کیوں چڑھ جاتے ہو ، اگر ان حضرات کو اپنی تعریفوں کے پل باندھنے میں چاشنی محسوس ہوتی ہے تو آپ کا کیا حق بنتا ہے کہ آپ ان کی چاشنی سے جلیں ؟اور پھر اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ تو آپ کی خامی ہے ۔آپ کمزور ہیں ۔آپ کی قوت برداشت کم ہے ۔ اگر باقی لوگ ان کی گفت و شنید سے لطف اندوز ہو رہے ہیں اور ان کی وجہ سے اپنا ٹائم پاس کرتے ہیں تو آپ کیوں جھنجھلاتے ہو؟ کیا آپ کو دوسرے لوگوں کی خوشی راس نہیں آتی؟ ان کو اس ٹائم پاس میں کافی چاشنی محسوس ہوتی ہے۔آپ کو اس چاشنی سے خار کھائے بیٹھنے کا کیا حق ہے ؟مانا کہ آپ میری طرح اتنی چاشنی کے شوقین نہیں اور شکر ہے کہ ہم شوگر کے مریض بھی نہیں ہیں، پر حقیقت یہ بھی ہے کہ چڑھنے والوں کو بھی عقلمندی اور دانشوری کا ثبوت دے کر اپنے منہ میاں مٹھو بننے والوں کی حوصلہ افزائی نہ صحیح حوصلہ شکنی بھی تو نہیں کرنی چاہیے۔
آپ دیکھئے ہر محلے اور ہر بازار میں لوگوں کی الگ الگ ٹولیاں ہوتی ہیں اور بیچ میں کوئی حضرت بڑے وقار اور پر جوش انداز میں اپنے اور اپنے آباء و اجداد کے ان کار ہائےنمایہ پر روشنی ڈالتا رہتا ہے جن کا ان سے دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا ہے ۔پھر بھی وہاں کئی سامعین کان دھر کر تالیاں بجا تے رہتے ہیں ، واہ واہی کرتے ہیں حالانکہ وہ بھی سچائی سے واقف ہوتے ہیں ۔اتنا ہی نہیں بلکہ اب تو ایسے حضرات کے اعداد و شمار میں ماشاءاللہ تسلی بخش اضافہ ہو رہا ہے ۔ دفتروں ،بازاروں ،مسجدوں اور گھروں میں بھی ایسے حضرات کا بڑی بے صبری انتظار کیا جاتا ہے کہ وہ آئیں اور شروع ہوجائیں تاکہ تفریح طبع کا سامان مفت میں ہوجائے، بلکہ اکثر تو یہیں سے قصہ چھیڑ کر ان حضرات کو موضوع اور مضمون کی جانب کھینچ کر اپنی دل بہلائی اور ٹائم پاس کا سامان پیدا کیا جاتا ہے ۔یہ حضرات بھی اردگرد ہجوم دیکھ کر کچھ زیادہ ہی وجد میں آجاتے ہیں اور بغیر کسی بریک کے اپنی رفتار پکڑ لیتے ہیں۔اس کی وجہ سے کبھی کبھار پانی سر کے اوپر ۔۔۔۔ اسی موقع پر سمجھنا چاہیے کہ ان اللہ مع الصٰبرین کا مطلب یہ بھی ہے کہ آپ بور بھی ہوجائیں مگر ان میاں مٹھوؤں کا دل رکھنے کے لئے ہوں ہاں کر تے رہیں تاکہ اللہ آپ کو اس کا اجر وثواب دے ۔ آپ وجد میں آئے ہوئے اس گفتار کے غازی حضرت کا گریبان پکڑنے کے بجائے صبر بس صبر کا دامن پکڑتے رہیں اور یہ سوچ کر ثواب کے مستحق بھی ہو جائیں کہ جہاں آپ کے صبر سے دس لوگ چاشنی اور دل لگی محسوس کر رہے ہیں، وہاں آپ کا بیچ راہ رکاوٹ کیوں بننا ۔ ایسے حضرات ان پر آشوب حالات میں جہاں ہنسی اور چاشنی نایاب ہوتی جارہی ہے ،اپنی گفتنی سے حمام گرماتے ہیں اور الگ الگ اسٹائل سے نہ جانے کتنوں کی دل بہلائی کا مفت میں سبب بن جاتے ہیں ۔اپنے جھوٹے انداز بیان سے کتنے عقل مندوں کے لئے ٹائم پاس کا ذریعہ بنتے ہیں ۔ ایسے حضرات کتنے عظیم اور مہان ہیں ،اس لیے میرے عزیزو! ان حضرات کی حوصلہ شکنی کے بجائے اپنے آپ میں صبر و تحمل کا پارہ بلند سے بلند ترر کھئے ۔ وقت اور حالات کی نزاکت سمجھ کر ان کی سراہنا کیجئے کہ اس زمانے میں جب ہر چیز کاکال پڑا ہے یہ حضرت تو ہیں جو بلا معاوضہ آپ کے دل کو زمین وآسمان کے قلابے ملا کر اپنے دل کابوجھ کم کر تے ہیں اور آپ کے دماغ میں اونچے خیالات کی جعلی عمارت کھڑی کر تے ہیں ۔ہاں مجلس برخاست ہونے کے بعد زیر لب اس محاورے کو ادا کر کے اس کی چاشنی سے بھی لطف اندوز ہوتے رہیے کہ اپنے منہ میاں مٹھو بننا کوئی ان سے سیکھے ۔ جاتے جاتے عرض کرتا جاؤں کہ دور اندیشی بھی دانشوری کی ایک اہم علامت ہے ۔کیا معلوم کل کسی بھیڑ کے بیچ میں آپ بھی وجد میں آکر منہ میاں مٹھو بنیںصا برسامعین کی تلاش میں سر گرداں ہو۔ بقول غالب ؎
میں نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسدؔ
سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا