حکام کی خاموشی اور مسافروں کی مجبوری کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے جموں سرینگر شاہراہ پر چلنے والے ڈرائیوروںنے من مرضی کا کرایہ وصول کرنا شروع کررکھاہے۔ اگرچہ متعلقہ حکام کی طرف سے ہر ایک مسافر گاڑی کیلئے کرایہ متعین بھی کیاگیاہے لیکن ڈرائیور اس پر بالکل بھی عمل نہیں کرتے اور وہ مسافروںسے منہ مانگی رقم وصول کررہے ہیں ۔محکمہ ٹرانسپورٹ کی طرف سے جموں سے سرینگر تک سومو اور تویراگاڑیوں کےلئے سات سواریوں کے عوض4800روپے کرایہ مقرر اور مشتہر ہے۔لیکن ڈرائیور جہاں ان گاڑیوں میں دس دس سواریاں بھردیتے ہیں وہیں کرایہ بھی چھ ہزار اور بعض اوقات سات ہزار تک وصول کر تے ہیں،جو فی سواری ایک ہزار کے آس پاس بنتا ہے۔اسی طرح سے 7سیٹوں والی انووا گاڑ ی کا کرایہ اگرچہ 5100مقرر ہے مگر مسافروںسے 7ہزار اور ساڑھے سات ہزار روپے تک رقم وصول کی جارہی ہے ۔غرض جموں سرینگر شاہراہ پر چلنے والے ڈرائیور وہی کرتے ہیں جو ان کا من چاہتا ہے اور نہ ہی قوانین کی پاسداری ہوتی ہے اور نہ ہی مسافروں کو بہتر ٹرانسپورٹ خدمات فراہم ہورہی ہے ،بلکہ ڈرائیوروں کا واحد مقصدمسافروں سے زیادہ سے زیادہ پیسہ اینٹھناہوتا ہے ۔ اس چکر میں وہ کبھی کبھار مسافروں کو دربدر بھی کردیتے ہیں ۔ ایسا آئے روز سننے میںآتاہے کہ موسم کی خرابی یا کسی اور وجہ سے جب شاہراہ پر ٹریفک بند کردیاجاتا ہے یا ٹریفک یکطرفہ ہوتوپھر ڈرائیور مسافروں کو سوار کرکے جموں سے نگروٹہ یا اودھمپور تک چھپ چھپاتے چلے جاتے ہیں لیکن پولیس کی طرف سے آگے جانے سے روکنے پر وہ بچنے کیلئے رات بھر کہیں ویران جگہ میں گاڑی کھڑی کردیتے ہیں یاپھر واپس جموں کی راہ اختیا ر کرتے ہیں ،اس طرح سے نہ صرف مسافروں کاقیمتی وقت ضائع ہوتاہے بلکہ ان کو غیر ضروری طور پراضافی پیسے بھی خرچ کرنے پڑ تے ہیں ۔ ریاست کی سب سے مصروف ترین شاہراہ پرٹریفک کا ایسا حشر نہیں ہوناچاہئے تھا لیکن بدقسمتی سے یہ ایسا روٹ بن گیاہے جس میں زمینی سطح پر کرایہ کہیں متعین ہی نہیں اور اگر حکام نے اس سلسلے میں کوئی مشق کی بھی ہے تو وہ صرف کاغذوں میں دکھائی دیتی ہے، جس پر ڈرائیوروں کی طرف سے عمل درآمد نہیں ہوتا۔یہاں یہ سوال ابھرتاہے کہ اگر جموں سرینگر شاہراہ کا یہ حال ہے تو پھر دیگرروٹوں پر کرایوں کا حال کیا ہوگا؟۔ حکام کی خاموشی کا ہی نتیجہ ہے کہ شہر و دیہات جانے والی گاڑیوں کے مسافروںکی طرف سے آئے روز اس طرح کی شکایات سننے کو ملتی ہیں مگر ان کی کوئی شنوائی نہیںہوتی اور اسی سے حوصلہ پاکر ڈرائیوروں نے من مرضی اپنارکھی ہے ۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بیشتر نوجوانوں نے بنکوںسے قرضہ وغیرہ لیکر گاڑیاں خریدی ہیں اور ان کیلئے روزگارکا یہی ایک واحد ذریعہ ہے لیکن یہ کہاں کا انصاف ہے کہ مسافروں کو دودو ہاتھ سے لوٹاجائے ۔جہاں پولیس ، ٹریفک و ٹرانسپورٹ حکام کی یہ ذمہ داری ہے کہ ان ڈرائیوروں کے حقوق کی پاسداری کی جائے وہیں ڈرائیوروں کا بھی یہ فرض بنتاہے کہ وہ لوگوں کو بہتر سے بہتر ٹرانسپورٹ خدمات فراہم کریں اوران کے حقوق کا خیال رکھاجائے ۔ جموں سرینگر شاہراہ پر ٹریفک کے نظام کو پوری طرح سے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اور ڈرائیوروں کوقوانین کو پابند بناتے ہوئے اس بات کویقینی بنایاجاناچاہئے کہ مسافروں کی مجبوری کاناجائز فائدہ نہ اٹھایاجاسکے ۔