عورت کی سادہ لوحی سے فائدہ حاصل کرتے ہوئے اسے زیادہ سے زیادہ عریاں کیا تاکہ وہ شمع محفل بن کر مردوں کا دل لبھاتی رہے تاکہ اسے ہر جائز حقوق سے محروم کردیاجائے۔ اس سے خاندانی نظام درہم برہم ہوکر رہ گیا۔دشمن عفت وحیا استعمار اور اغیار کی پوری فکر و کوشش ہے کہ پوری دنیا میں عورت کونام نہاد آزادی دلائی جائے۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے مختلف ناموں سے خواتین کی۔ انجمنیں اور سوسائٹیاں قائم کروائی ہیں ،کثیر رقوم خرچ کر رہے ہیں تاکہ مسلم معاشرہ اپنی میراثِ شرم و حیا سے کوسوں دور ہوجائے۔۔ آج دنیا کے ہوس کار، عقل کے اندھے خود اور اولاد کو مغربی افکار کی نقالی کراور کروا رہے ہیں۔
سب سے پہلے تو والدین کو خود اس لفظ کا معنوی و حقیقی، اخلاقی و مذہبی لحاظ سے شعور ہونا چاہیے۔ شرم و حیا سے عاری گفتگو، انداز و اطوار، حرکات و سکنات اور لب و لہجہ باقی تمام محاسن پر پانی پھیر دیتا ہے۔ اگر اس باب میں احتیاط اور شائستگی نہیں اختیار کی جاتی تو پھر بڑی دین داری اور عبادت گزاری کا بھی بچے پر کوئی تاثر نہیں جم سکتا،لڑکے اور لڑکیوں کو عمر کے ساتھ ساتھ لباس کا احساس دلایا جائے۔ حیا ایمان کا حصہ ہے۔ جہاں پر گفتگو سے لے کر اعمال تک میں حیا نہ ہو، وہاں پر بچوں کے ناپختہ ذہنوں میں شرم و حیا کا تصور کیسے جڑ پکڑ سکتا ہے؟ جس معاشرے میں بچے، جوان اور بوڑھے ایک ہی جیسے فحش و عریاں ماحول میں سانس لیں اور حیا سے عاری ہو جائیں تو انہیں ذلت و رسوائی سے کون بچا سکتا ہے؟ محرم اور غیر محرم کا وہ شعور جو قرآن و سنت میں بتایا گیا ہے اس کو بتدریج اجاگر کیا جائے۔ بیماری کا خطرہ جس قدر بڑھ جاتا ہے، پرہیز اتنا ہی زیادہ کرنا پڑتا ہے۔ عریانی، فحاشی، مرد و زن کا اختلاط، حیا سے عاری گفتگو، ستر سے بے نیاز لباس، بدکاری کو فیشن کے طور پر اپنانا ایسی بیماریوں کا ایک طومار ہے جس کی کوئی انتہا نہیں رہی۔ ان بیماریوں سے اپنے بچوں کو ایک اسلامی اسپرٹ کے ساتھ پرورش کرنا ہوگا۔ اس کو ایک مہم کے طور پر جاری رکھنا پڑے گا۔ معاشرہ ان برائیوں کا عادی ہوتا چلا جائے تو تباہی کے گڑھے کے قعرمذلت میں گرنے سے پہلے کوئی رکاوٹ نظر نہیں آتی۔ وہ بچے جن کو ابتدا ہی سے عمر کے ساتھ ساتھ فرائض کی پابندی کا سبق ملتا رہا ہو، ان کے لئے یہ پابندیاں بالکل دشوار نہیں ہوتیں۔ بچی کو تین سال کی عمر سے ساتر لباس اور پھر گھر میں اور گھر سے باہر محرم اور غیر محرم کی تمیز سکھائی جاتی رہے تو چودہ پندرہ سال کی عمر میں وہ گاون، اسکارف یا پردہ و حجاب کی کسی بھی شکل کو اپنی عمر کا تقاضا سمجھ کر قبول کر لے گی ،گھروں میں نوعمری کے دوران ہی لڑکے لڑکیوں کی نشست و برخواست کا انتظام علیحدہ ہونا چاہیے۔ نرسری اور پرائمری اسکول عام طور پر مخلوط ہی ہوتے ہیں۔لیکن مڈل ،سیکنڈری اورہائی لیول کے تعلیمی اداروں میں مخلوط تعلیم کے رواج کو ختم اورغیرمخلوط طرزتعلیم رائج کیا جائے۔ اسے بچوں کو شعور مل جائے کہ نگاہ اور دل کوپاک رکھنادین کاحکم ہے اورنگاہ اوردل پاک نہ ہوتوپھرکچھ بھی اچھانہ ہوگا۔اسی لئے بتادیاگیاہے کہ نگاہ اوردل کے بارے میں سخت حساب لیا جائے گا ۔ رب نے بدی کی شروعات کو بھی بدکاری ہی قرار دیا ہے۔
موجودہ دور میں اس ضمن میں میڈیا کا مناسب استعمال نہایت ہی اہمیت کا حامل ہے۔ ہمارے ہاں میڈیا کی جو صورتیں موجود ہیں، وہ تواتر سے بچوں اور بڑوں کو بے حیائی کا درس دے رہی ہیں۔ اس میڈیا کو مسلسل دیکھتے رہنے کے نتیجے میں جو نسل پروان چڑھ رہی ہے وہ عفت و عصمت کے تصور سے ناآشنا ہے۔ والدین کو اپنے بچوں سے مکالمے کو فروغ دینا چاہیے اور ان کے ذہنوں میں پیدا ہونے والے سوالات کو سختی سے دبا دینے کی بجائے ان پر کھل کر بحث کرنی چاہیے۔ انٹرنیٹ کے غلط استعمال کو روکنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ کمپیوٹر کو گھر میں مناسب جگہ پر رکھا جائے۔ انٹرنیٹ پر بچوں کے لئے بہت سے مثبت ویب سائٹس موجود ہیں، بچوں کو ان ویب سائٹس کی ترغیب دلائی جانی چاہیے۔بچوں پر سختی سے ہر حال میں پرہیز کرنا چاہیے۔ اس سختی کے نتیجے میں بچے یا تو بغاوت پر اتر آتے ہیں، یا وہ منافقت کا رویہ اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور یا پھر والدین کی مرضی کے مطابق خود کو ڈھال تو لیتے ہیں لیکن ان کی اپنی شخصیت اور تخلیقی قوتیں مسخ ہو کر رہ جاتی ہیں۔ بعض مخصوص حالات میں معمولی سختی کے کچھ فوائد ہوتے ہیں لیکن اس کا استعمال نہایت ہی احتیاط سے کرنا چاہیے۔ بچوں میں شرم و حیا کے جذبات پیدا کرتے ہوئے لڑکیوں پر تو فوکس کیا جاتا ہے مگر لڑکوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اس کے کیا اثرات معاشرے پر مرتب ہوتے ہیں۔
ہمارے اسلاف میں مردانہ حیا اورغیرت زندہ تھی۔ گھروں کے اندر بھی عورتیں دوپٹے اتارنے کا تصور نہ کرسکتی تھیں۔مرد کھانس کر یا آواز دے کر اندر دا خل ہو تے اور گھر کی تما م خواتین اپنی چادریں اور دوپٹے درست کر لیتیں،بھائی غیرت مند تھے،بہنوں کو بے پردہ ساتھ با ہر لے جا نے پر معترض ہو تے تھے۔ شوہر بیوی کو دوستوں کے سامنے لانے میں جھجھک رکھتے تھے۔ گھروں میں زنان خانے اور مردان خانے الگ تھے۔ عموما مردانہ بیٹھکیں باہر ہوتی تھیں۔خاندان میں ایک نہ ایک ایسا باکردار اور رعب دار مرد ضرور ہو تا تھا جس سے سب حیا کر تے تھے اور اس کے سا منے عورتیں تو کیا لڑکے بھی غلط کا م کر نے سے جھجکتے تھے،بڑوں کے سامنے حیا کی جاتی تھی، نگاہیں نیچی رہتی تھیں، اونچا نہیں بولا جاتا تھا۔ کھلے عام نافرمانی نہیں کی جاتی تھی۔آج یہ کیا ہوگیا ہے؟ کہاں گئی آج مسلمان مردوں کی حیا اور غیرت؟ مسلما نوں کے اندروہ ایمانی غیرت اور حیا نہیں رہی جو اغیار اور استعماری قوتوں کو چیلنج کر سکے۔ جو ظالموں کے بڑھتے ہوئے ہاتھوں کو پکڑ کر کیفر کردار تک پہنچا سکے۔آج امت کے سپوتوں کی آنکھوں پر ما دیت کی پٹی بندھ گئی ہے۔ حکمران ڈالروں کے عوض یہودو نصاری کے با جگزار بن چکے ہیں۔ بے دین سیا ست دان اقتدار کی ہوس میں ایمان و حیا فروخت کر چکے ہیں اور وہی اس وقت سیا ست کے میدانوں پر قابض ہیں۔مسلمان تاجر مالی منفعت کے عوض ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اسیر ہوچکے ہیں۔ انہیں اس سے غرض ہے کہ لا محدود منا فع ملے۔ بھلے ہی قوم کا اخلاق و کردار تباہ ہوتا ہے یا ایمان غارت ہوتا ہے۔تعلیم بے حیا کارپردازوں کی وجہ سے تجا رت بن چکی ہے اور اپنے معنی کھو چکی ہے۔ اب تعلیم صرف روٹی کمانے کے گر سیکھنے کا نا م ہے اور استاد اور طبیب جو معا شرے کے معزز ترین منصب تھے، آج اپنا مقام کھوچکے ہیں۔ اس لیے کہ ٹیوشن اور فیس نے علم اور ہمدردی کی جگہ لے لی ہے۔مسلمان رشوت کے بندے اور غلام بن چکے ہیں۔ سچ بتا ئیں حیا کر نے وا لے آج کدھر گئے ہیں؟ ہمارے چوک چوراہوں پر آویزاں فحاشی کو مات دیتے ہوئے سا ئن بورڈ،تعلیمی اداروںمیں بے پردہ نوجوان لڑکیوں کے جم غفیرکسی باحیا شخصیت کے منتظر ہیں۔
ایمانی زوال کے اس دور میںہم پر حیا کی ترویج کی ذمہ داری بڑھ گئی ہے۔ ہمیں اپنے مردوں اور عورتوں میں حیا کے وہ بیج بونے کی کوشش کرنا ہے جو معاشرے کو وا پس پاکیزگی کے اس معیار کے قریب لے آئیں جوہمارے اسلاف کے دور کے خا صہ تھا۔گو یا ایمان کی آبیا ری ہو، اسلام کی نشاہ ثانیہ یا حیا کی ترویج۔ اس کا ماخذدین ہے ۔ خاندان کے گہوارے سے لے کر کا لج اور یو نیورسٹی تک جب تک تعلیم و تدریس کی یہ بنیا دیں درست نہیں ہو تیں انسانوں کا سدھا ر بھی مشکل ہے۔گھر کے اندر مردنگران ہے، ریڈیو کا چرواہا ہے، اس کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اور گھر والوں کے لیے صحیح تعلیم کا بندوبست کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ تقدیس نسواں کا محا فظ دراصل مرد ہی ہے۔ اگر مرد اپنی ذمہ داری سے آگاہ ہوجائیں تو معا شرے سے ان برائیوں کا خاتمہ ہوجائے جو عورتوں کی بے مہا ری کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ مسلمان مردواپنی ذمہ داریوں کو پہچانے تومعاشرے میں حیا کا ڈنکا بج اٹھے گا۔ مرد اگر قوامیت کی اس ذمہ داری کو سمجھ لیں اور اپنے اندر تمام مطلوبہ صفات پیدا کریں تو اس کے نتیجے میں گھر کا نظام درست ہوگا اور بہت ساری معاشرتی برائیاں جس میں بے حجابی اور بے حیا ئی کلیدی حیثیت رکھتی ہیں از خود کم ہو جا ئیں گی۔مردوں کے اندر جذبہ حیا بدرجہ اولی کتنا ضروری ہے اس لیے کہ مرداگر اپنی نگا ہوں کی حفا ظت کر نے وا لاہے او رچونکہ وہ قوام ہے تو گھر میں اس کی بہو بیٹیا ں بھی پا کیزہ اور مکمل لبا س میں ملبوس ہوں گی اور بیٹے بھی۔وہ اسلام کا نظام عفت و عصمت نا فذ کر نے کی کو شش کرے گا اور اگر معا شرے کے مردوں کی اکثریت نگاہوں کو پاکیزہ رکھنا چا ہے گی تو دکا نداروں کی دکانوں کے سائن بورڈ، اشتہارسازوں کے اشتہا ر اور بے حیا ئی کے تما م مناظرتبدیل ہو جا ئیں گے اور کسی ملٹی نیشنل اورمقامی کمپنی کو جرات نہ ہو سکے گی کہ ہما رے ایمان کی قیمت پر اپنی مصنوعات فروخت کر سکے۔ کاش مسلمان مردوں میں اس درجے کی حیا بیدار ہو جا ئے ۔
بہرکیف ایسی صورتحال میںکہ جب ہمارے معاشرے کا انگ انگ بہرنوع بیماریوں کا شکار ہے ۔کشمیرمیں اسلامی جمعیت طلبہ کا حیا کے کلچر کو عام کرنے کیلئے آواز بلند کرنا یقینا ایک نیک اور صالح عمل ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم کشمیر کی اس سٹوڈنٹ صالحیت پسند تنظیم کی اس آواز کے ساتھ اپنی آواز ملا کر اس کے اس پروگرام کو کامیاب بنائیں۔یہ نہ صرف ہماری ملی ذمہ داری ہے بلکہ سرزمین کشمیر میں حیا سوز کوششوں کے توڑ کیلئے وقت کا تقاضا اور عملی مطالبہ بھی ہے۔سوال یہ ہے کہ اس شر کے فروغ میں برابر کے ذمے دار کون لوگ ہیں ؟اگر والدین اپنی اولاد کی صحیح اسلامی خطوط پر تربیت کریں اور انہیں تہذیبی جارحیت کے ان زہرناک حملوں سے آگاہ کرتے رہیں اور اسی طرح اساتذہ بھی اپنے شاگردوں میں دینی تشحص بیدار کریں اور ان میں حق فہمی کا صحیح شعور پیدا کریں توپھر یہ ممکن ہی نہیں رہے گا کہ حق کے دشمن ان چور دروازوں سے مسلمانوں کی صفوں میں شبِ خون مار سکیں۔ اسی طرح دانشوران کرام اور علمائے دین کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ عصرِ حاضر کے تمام فتنوں اور خصوصا ًایسے فتن جو مسلمانوں کے اخلاق ،دینی حمیت اور ان کے عقائد کی سلامتی کے لئے خطرے کا باعث ہوں،ان کی انہیں نہ صرف پوری شد ت کے ساتھ مخالفت کرنی چاہئے بلکہ مسلم امہ میں ان خطرات کے خلاف بیداری کی بھر پور مہم کا آغاز کرنا چاہئے۔جان لیجئے کہ جوانی خدا کی ایک بے بہا نعمت ہے، اسے ضائع نہ کریں۔ اس کی صبح ،اس کی شام اور اس کی شب خدا کی یاد، اس کے محبوبؓ کی سنت کی اتباع میں بسر کرو۔اس جوانی اور وقت کی قدر کرو کہ یہ دونوں چیزیں ایک بار رخصت ہوکر دوبارہ لوٹ کر نہیں آتیں۔اپنے دن کوخدا کی اطاعت و فرمانبرداری میں بسر کر واور دعائے نیم شبی کا خود کو عادی بناڈالو۔اپنی آنکھوں کی حفاظت کرو کہ وہ کسی نامحرم کے شوقِ دید سے آلودہ نہ ہوں نہ ہی عریانی اور فحاشی کو اپنے اندر سمو سکیں،اپنے کانوں کو آلودگی سے بچا کہ وہ کسی کی غیبت نہ سنیں اور نہ کوئی فحش بات اور کلام ان تک پہنچے ،اپنی زبان کی اس طرح حفاظت کرو کہ نہ کسی کی غیبت کی مرتکب ہو نہ اس سے کسی کی دل آزاری ہو اور نہ ہی دشنام طرازی کاذریعہ بنے۔والدین اور اساتذہ پریہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ طلبہ اور طالبات کے ساتھ ویلنٹائن جیسی فضول اور بے ہودہ روایت کا بائیکاٹ کرتے ہوئے اس دن کو یوم حیا کے طور پر منائیں، تمام بڑے شہروں، یونیورسٹی اور کالجز میں حیا کا کلچر عام کرو کے عنوان کے تحت کام کرنے کی ضرورت ہے جس میں طلبہ و طالبات کومسلسل یہ احساس دلایاجائے کہ مسلم نوجوان مغربی تہذیب کے بجائے محمدیؓ تہذیب کا چاہنے والا ہے۔ یوم حیا کے حوالے سے تعلیمی اداروں میں لیکچرز، مذاکروں اور سیمینارز کا اہتمام کیاجائے، ہینڈ بلز تقسیم کیے جانے چاہیںاور مسلمانوں میں حیا کے متعلق احساس کو اجاگر کرنے کیلئے دعوتی مہم چلائی گئی۔ کہ ویلنٹائن ڈے جیسی بے ہو دگی نو جوانوں کو بے حیائی اور مغربی تہذیب کے دلدل میں دھکیل رہی ہیں۔ اسلام ہمیں حیا کا درس دیتا ہے، لہذا ہمیں حیا کا دامن کبھی نہیں چھوڑنا چاہیے۔کشمیر میں بے حیائی اور مغربی تہذیب کے فروغ کے لیے اغیارکا میڈیا ایک ایجنڈے کے تحت کام کر رہا ہے لیکن محب اسلام قوتیں انہیں نظریات کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔کشمیر میں اگر چہ اس ناسور نے ابھی وبا کی شکل اختیار نہیں کی، تاہم اس کے کچھ مضراثرات یہاں موجود پائے جاتے ہیں اس لئے پیش بندی نہایت ضروری ہے۔
ا