ملک میں روز بروز بڑھتی سیاسی دنگلوں کے تناظر میں کیا لکھا جائے اور کیا پڑھا جائے، کوئی ایسا موضوع اور عنوان نہیں جس پر ہر روز کچھ لکھا اور بولا نہیں جاتا،لیکن اس کے باوجود ہر روز نت نئے واقعات اور سانحات وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں اورپھران واقعات کی موافقت یا مخالفت میں کہئے پورے ملک سے آج ہزاروں لوگ میدان میں اُتر آتے ہیںاور پوری نیوز چینلس اور سوشل سائٹس پرلوگوں درمیان گھمسان کا رن پڑتا ہے کہ کل کا سورج پھرایک نئے مسئلے کے ساتھ اُفق سے طلوع ہوتا ہے اور اگلے چنددن اسی نئے واقعے کی گھن گرج سنائی دیتی ہے۔اس کام کے ملک و ملت کی کئی شخصیات وفاداری اور غداری کی اسناد بانٹنے کے لیے پردۂ سیمیں پر ظاہر ہوکر عوام کی نہیں بلکہ اپنے اپنے خیمے کی نمائندگی کر تی ہیں۔ اسی تسلسل میں گذشتہ چند مہینوں میں ایسے کئی لوگ سامنے آئے ہیں جو ایک ہی وقت دو متضاد خصوصیات کے ترجمان نظر آتے ہیں، جہاںوہ ایک فریق کی آنکھوں کا تارا بن کر چمکے،وہاںدوسرے فریق کی آنکھوں میں تنکے کی طرح چبھتے رہے۔اگر کسی جماعت نے ان کی واہ واہ کرکےخوب آؤ بھگت کی تو اسی لمحے دوسری جماعت کے لوگ ان کے خلاف سراپا احتجاج بنے رہے۔ مثلاً طلاق ثلاثہ کی بات کریں ۔ اس معاملے میں فریق اور درخواست گذار عشرت جہاں ہے ، اس کے بارے میں بھی آپ کو انہی دو مختلف رویوں کا منظر دیکھنے کو ملے گا۔’’پروٹیکشن آف رائٹس آن میریج آف مسلم وومن بل، مجریہ ۲۰۱۷ بعنوان طلاقِ ثلاثہ بل، اگر بل قانون کی شکل اختیار کر گیا تو سہ طلاق ایک فوجداری معاملہ ہوگا ۔لوک سبھا میں پاس ہونے کے بعد اب راجیہ سبھا کو مسودہ ٔ قانون کاہم نوا بنانےکی بھاجپا کاوشیں زوروں پر ہیں ۔ عدالت میںاس حوالے سے فریق بننے کے بعد عشرت جہاں بی جے پی اور طلاق ثلاثہ بل کی موافقت کرنے والے بد نیت لوگوں کی نظروں میں ایک آئیڈیل اور نمونے کے طور پرسامنے آئی ہے،وہاں اس معاملے میں اس کے تئیں عام معتدل اور صحیح العقیدہ مسلم جماعتوں میں بوجوہ غم و غصہ دیکھنے کو ملتاہے،بلکہ کئی مسلم خواتین نے آگے بڑھ کر اس کی شدید مخالفت میں صدائے احتجاج بلند کی اور کہا کہ عشرت جہاں جیسی عورتوں کے ناپاک عزائم کی وجہ سے ہی ہزاروں مسلم نوجوانوں کی زندگیاں سلاخوں کے پیچھے تباہ ہوتی رہی ہیں ۔اب اگر یہ بل قانون کی شکل اختیا کررگیاتو اس قوم کے زیادہ تر نوجوان جیلوں میں ہی نظر آئیں گے۔ عشرت جہاں اپنے اس مدعا سے کبھی پیچھے نہیں ہٹی اور بھاجپا کے حق میں لڑتی رہی ۔ سو قدم اور آگے بڑھ کر اس نے مودی جی اور بی جے پی کا دامن تھام لیا کہ بقول اس کے عورتوں کے حقوق کی حصول یابی ان کی چوکھٹ کے سوا کہیں اور ممکن ہی نہیں ۔بی جے پی نے بھی امید سے کہیں زیادہ بڑی ہی گرم جوشی سے اس کا خیر مقدم کیا،گویابرسوں قبل بچھڑی ہوئی کوئی بیٹی دوبارہ ہاتھ لگ گئی ہو۔بی جے پی نے اس کی آمد پرریاستی سطح پر ایک استقبالیہ پروگرام منعقد کرنے کی پیشں گوئی کی تاکہ اس کی طرح دوسری مسلم خواتین کو بھی ان کا آلہ ٔکار بننے کا حوصلہ مل سکے۔
عشرت جہاں کو کہاں تک کامیابی ملی،یا اس کی آڑ میں بی جے پی کہاں تک ملک کے عوام کو گمراہ کرنے میں کامیاب رہی؟یہ ایک ا لگ موضوع ِ بحث ہے۔تاہم یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اس واقعے کے بعد عشرت جہاں کی شخصیت لوگوں کی نظروں میں کسی طلسماتی دنیا کی ٹوائے گرل کے طور پر توضرور ظاہر ہوگئی اورپھر ہفتوں اور مہینوں پردۂ سیمیں پراس کی آسیب زدہ جھوٹی کہانیاں دہرائی جاتی رہیں۔ مغربی بنگال کے ایک غریب مزدور افروزل کو انتہائی وحشیانہ اور بہیمانہ طریقے سے قتل کرکے اس کی ویڈیو بنا کر انٹرنیٹ پر اپلوڈ کرنےوالا شمبھو لال بھی اپنے کئی رنگوں کے ساتھ ہفتوں سرخیوں میں جگمگاتا رہا۔ حق پسند،غریب اور مظلوم لوگوں کی نگاہوں میں،وہ تو بہرحال ایک سفاک قاتل ہی ٹھہر تاہے،تاہم کچھ الٹی کھوپڑی والے اس کو کرانتی کاری اور فدائین کے لقب سے بھی نوازا گیااور پھر جیل سے اس کے الیکشن لڑنےبلکہ کامیاب ہونے کی بھی تمنائیں اور پرارتھنائیں کی گئیں، مگر یہ دیکھا گیا کہ کون مرا؟کس کا گھر لُٹا؟کس کی بیوی بیوہ اور کس کے بچے یتیم ہوئے؟اس سے پرے وہ نام نہاد دیش بھگتی کا راتوں رات سپر اسٹار بن گیا۔
اسی طرح کا ایک اورخاتون آج کل سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلوں پر بڑی تیزی سے وائرل ہورہی ہے۔کیرل کی رہنے والی یہ خاتون۳۴ سالہ جمیہ ہے جس نے اسلامی روایات کی چودہ سو سالہ قدیم تاریخ کو مسخ کر تے ہوئے مردوں کو مبینہ طور نماز جمعہ پڑھائی ۔ پیشے سے یہ شریمتی جی ایک معلمہ ہے ۔اس کا دعویٰ ہے کہ چودہ سو سال سے مسلم خواتین مسلسل مسلم مردوں کےظلم و ستم کی چکیوں میں پستی چلی آرہی ہیں،سو وہ سماجی اور جنسی عدم مساوات بلکہ مردوں کے ذریعے قائم کردہ تمام روایات کو ختم کرنا چاہتی ہےتاکہ ہندوستان کی جمہوری فضا میں ہندوستان کی مسلم عورتیں امن و سکون کا سانس لے سکیں۔جمیہ کا یہ بھی کہناہے کہ اسلام میں کہیں بھی یہ نہیں لکھا ہے کہ صرف مرد ہی جمعہ کی نماز پڑھا سکتے ہیں،سومیں نے بالفعل نماز پڑھا کر یہ ثابت کردیا کہ نماز پڑھانا عورتوں کا بھی حق ہے جس پر صدیوں سے مسلم مرد قابض تھے۔ اس کی نامشکور کوشش سے اتنا توصاف ہوگیا کہ جن لوگوں کو مردوں کے پیچھے نماز پڑھنے کی کبھی توفیق نہیں ملی،انہوں نے بھی اللہ کے سامنے جمیہ کی امامت میں سجدےمیں اپنا سر جھکالیا،لیکن اگر اس وائرل ویڈیو کو پورے غور وفکر سے دیکھیںتو ایسامحسوس ہوتا کہ اس کو نماز کے بنیادی ارکان سرے سے ہی علم نہیں ، نیز جو لوگ اس کے پیچھے کھڑے ہیں ان کی شکلوں سے بھی ایسا نہیں لگتا کہ آیاوہ مسلمان بھی ہیں، یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ آج کل کیمرے کے کمال سے ایسے تماشے کرنا کوئی مشکل کام نہیں ۔ بہرحال جمیہ بھی بڑی تیزی سےمسلم بیزار میڈیا کی سرخیوں میں چمکنے لگی ہے اور اس کی شکل میںٹی وی چینلوں کو مرچ مسالے والا ایک نیا موضوع فضول بحث ومباحثہ کے لئے ہاتھ آگیا ہے۔اس پرجہاں کچھ لوگ لعن طعن بھی کررہے ہیں، وہیں کچھ سرپھرے اس کو بھی طلاقِ ثلاثہ بل پر محمول کرکے یہ کہتے ہوئے نظرآ رہے ہیںکہ واقعی اسلام میں عبادات کو لے کرعورتوں کے ساتھ بھید بھاؤ کیا گیا ہے،سو جمیہ اب اسلام کی ایک نئی اور’’ سچی ‘‘تصویرلوگوں کے سامنے پیش کررہی ہے ،اس لیے ہمیں اس کے حوصلے کو سلام کرنا چاہیے۔ یہ حضرات بھول جاتے ہیں کہ سناتن دھرم میں پروہت اور شنکر اچاریہ عورتیں نہیں ہوسکتیں،لیکن اسلام نے عورتوں کو مردوں کی امامت کی اجازت نہ دے کر ان کے ساتھ بھید بھاؤ کیا ہے، واہ بھی واہ ۔ یاد رکھیںا سلام نے ہی عورتوں کو بلند درجہ دیا ہے ۔
بہر کیف اس فہرست میں اب کاس گنج بھی جڑا ہے، جہاںفرقہ وارانہ فساد میں مہلوک چندن گپتا ہے۔ملک میں کئی جگہ،بالخصوص اترپردیش کے کئی علاقوں میں اس کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے کئی سبھائیں بھی منعقد کی گئیں۔ مخصوص لوگوں کے ساتھ مل کر سیاسی نیتاؤںنے بھی اس کو ملک و قوم پر جان نچھاور کرنے والا’’ ویر بہادر‘‘ قرار دیتے ہوئے اسے خراج عقیدت پیش کیا۔ ملک کی آزادی کے بعد سے لے کر آج تک جو ہزاروں کی تعداد میں فسادات ہوئے ہیںجن میں مسلمان اور مسلم علاقوں کو خاص کر نشانہ بنا کیا گیا اوران پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے،عزت مآب خواتین کی عفت وعصمت تارتار کی گئی ، انسانوں کا قیمہ بنایا گیا،شیر خوا بچوں کو نیزوں کی انیوں پر اُچھالا گیا اور پھر مسلم نوجوانوں ہی کو ان ناکردہ گناہ کی سزا بھی دی گئی،لیکن پوری تاریخ میں کبھی کسی سیاسی قائدنے ان مسلم کش فسادات میں شہید ہونے والے مسلمانوں پر دکھاوے کے لئے بھی آنسو نہیں بہائے۔آزادی کے اصل مسلم بہادروں کی قربانیوں پر انہیں خراج عقیدت پیش کر نا تو بہت دور کی بات،آج تک کسی نے ان کانام زبان پر لانے کی کوشش نہ کی۔سو امن پسند اور محب وطن مسلمان ان دیش بھگتوں سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ جب اخلاق کو سنگسار کیا گیا،تواس وقت تمہاری انسانی حمیت کو کیا ہوا تھا؟جب جنید اپنے بھائی کی گود میں تڑپ رہا تھا،تب تمہاری انسانی ہمدردی کو کیا سانپ سونگھ گیا تھا؟جب پہلو خان کو زودوکوب کرکے ماردیا گیا،تب تم نے کیوں نہ سوگ کی محفلیں منعقد کیں؟اللہ رے سناٹا!!! کوئی ایک آواز تک نہیں آئی! کتنی عجیب ہے یہ جمہوریت، دیش بھگتی اور کتنے معصوم ہیں، اس پر مر مٹنے والے لوگ! جب ان دکھ بھری باتوں کو سوچاجائے تو ایسا لگتا ہے کہ اس پیارے دیش کو کسی کی نظر بدگئی ہے۔ مگر مقام شکر ہے کہ اسی دیش میں روش کمار جیسا انصاف پسند اور سچے من کا صحافی بھی رہتا ہے۔ اسی سرزمین نے تو گاندھی جی، بھیم راؤ امبیڈکر اور بھگت سنگھ کو جنم دیا تھا، اور گوڈسے جیسے باپو کے ہتھیارے کی جنم بھومی بھی یہی ہے ۔کتنی عجیب و غریب سیاست ہے یہ کہ اس کو عشرت جہاں کا’’ دُکھ‘‘ تو نظر آتاہے،وہاں اس کو جسودھابین،نجیب اورجنید کی ماں،اخلاق،پہلو خان اور افروزل کی بیواؤں اور ان کی طرح لاکھوں کروڑوں ماؤں بہنوں کے دُکھ اور تکلیف کا کوئی احساس کیوں نہیں ہوتا؟