عالمی ادارۂ صحت(WHO) کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں ہر چالیس سیکنڈ میں ایک انسان خودکشی کرکے اپنی جان لے لیتا ہے۔ WHO نے دنیا بھر سے خودکشی ہونے والی ۱۰ سال کی تحقیق اور ڈیٹا اکھٹا کرکے اس کا تجزیہ کیا ہے ۔ تحقیق کے مطابق پوری دنیا میں سالانہ آٹھ لاکھ افراد خودکشی کر کے اپنی جان لیتے ہیں اور اس طرح سے دنیا کی کُل اموات میں خودکشی کے باعث ہونے والی اموات کی شرح ایک عشاریہ آٹھ فی صد ہے۔ ایک اور سروے کے مطابق آج اس شرح میں تیزی سے غیر معمولی اضافہ ہورہا ہے۔برطانیہ کے ایک جریدے میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق بھارت میں نوجوانوں کی موت کی دوسری بڑی وجہ خودکشی ہی ہے۔ WHO کے مطابق چین میں اوسطاً دو لاکھ افراد ہر سال خودکشی کرتے ہیں ۔ ایک اورسروے کے مطابق امریکہ میں 44,965 افراد جبکہ کنیڈا میں 3500 افراد ہر سال خودکشی کرتے ہیں۔خودکشی سے جُڑے یہ اعداد و شمار انتہائی خطرناک ہے ۔ خود کشی کا یہ فعل دراصل ایک نامناسب فعل ہے۔اسلام نے اِس فعل کو بدترین گناہ سے تعبیرکیا ہے اور اِس کی سخت ممانعت کر کے اِسے حرام قرار دیا ہے ۔خالقِ کائنات نے اپنے کلام پاک قرآن مجید میں واضح الفاظ میں فرمایا ہے ’’اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو، یقین مانو کہ اللہ تمہارے اُوپر مہربان ہے۔‘‘( نساء ۲۹)
ا دراصل زندگی اور موت کے اختیارکو اللہ نے خالصتاً اپنے لیے محدودکر رکھا ہے۔ وہ اس میں انسان کی مداخلت کو کسی بھی قیمت پر پسند نہیں کرتا۔ جب ایک انسان خودکشی کر تاہے تو گویا وہ اللہ کے اختیار میں مداخلت اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کی ناشکر ی جیسے جرائم کا ارتکاب کرتا ہے۔ رسولؐ نے خودکشی کرنے والے کو اللہ کے غضب کا مستحق قرار دیا ہے ۔ آپ ؐ نے فرمایاـ:’’ جس نے اپنے آپ کو پہاڑ سے گرا کر خودکشی کر لی وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گرتا رہے گا اور جس نے زہر کھا کر خودکشی کر لی وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے ہاتھ سے زہر کھاتا رہے گا اور جس نے لوہے کی کسیچیز سے خودکشی کی وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے لوہے کی اس چیز سے خود کو زخمی کرتا رہے گا۔ ‘‘ (متفق علیہ)
اسلام خودکشی کی کوئی بھی وجہ تسلیم نہیںکرتا۔ یہاں تک کہ شدید بیماری کی حالت میں بھی ایک شخص کو صبر و استقامت کا مظاہرہ کرنے کا درس دیتا ہے۔ حضرت ایوبؑ نے برسہا برس بیماری کی شدت میں گزارے ۔ لیکن صبر اوراس یقین کے ساتھ کہ جس خدا نے انہیں بیمار کیا وہی خدا اُنھیں شفاء دے گا ، حضرت ایوبؑ کو شفاء حاصل ہوگئی۔ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریمؐ نے فرمایا’’ کسی کو بھی موت کی تمنا نہیں کرنی چاہیے‘‘ اس لیے کہ اگر وہ نیک ہے تو اُمید ہے کہ اس سے اس کی نیکی میں اضافہ ہو گا اور اگر بُرا ہے تو ہو سکتا ہے کہ وہ تائب ہو جائے۔ ‘‘(مسلم)۔یہ ایک حقیقت ہے کہ زندگی کے سفر میں کبھی ایسے موڑ بھی آتے ہیں جو انسان کو اُمید اور ناامیدی کے دوراہوں پر لاکھڑا کرتے ہیں۔ کیونکہ زندگی میں انسان کو جہاں فرحت و انبساط کے لمحے میسر آتے ہیں ، وہیں وہ رنج والم کے صدموں سے بھی دوچار ہوتا ہے۔ حقیقت تو یہی ہے زندگی کا فلسفہ دھوپ اور چھائوں ، پھول اور کانٹوں سے عبارت ہے۔لہٰذا زندگی کے رنج و غم اور الم و مصائب میں انسان کو چاہیے کہ ذاتِ باری تعالیٰ پر مکمل بھروسہ کر کے صبر و استقلال سے کام لے۔ خودکشی کی بڑھتی ہوئی شرح کے کئی اسباب جاتے ہیں ، اِن میں جو سب سے اہم اور بنیادی سبب ہے وہ انسان کا اسلامی تعلیمات سے دوری ا ور اللہ کی رحمت سے مایوسی ہے۔ اللہ کے گمراہ بندے اللہ کی تعلیمات سے دور رہ کر زندگی اور کائنات کی حقیقتوں سے ناآشنا رہتے ہیں ۔ اس طرح سے وہ ایک شتر بے مہار زندگی گزارتے ہیں۔اس آزاد یا آوارہ زندگی میں شیطان کی مداخلت بڑھ جاتی ہے اور وہ اپنے پیروکاروں کوبے صبرا، ہٹ دھرم ، جاہل اور نفس کا پچاری بنا دیتا ہے ، بالآخر جب وہ زندگی کی سختیوں کو برداشت کرنے میں ناکام ہوتا ہے تواُسے زندگی کے خاتمے میں ہی خود کی نجات کا سامان نظر آتاہے۔ یہ دنیا دارلامتحان ہے۔ یہاں انسان کو نت نئے مسائل اور مشکلات سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔ جو شخص ان مشکلات میں صبر کا دامن چھوڑ بیٹھے اور جلد بازی اور بے صبری میں اپنی متاعِ حیات کو ختم کر دے، وہ گویااپنی ابدی زندگی کو اپنے ہی ہاتھوں برباد کر تا ہے۔زندگی میں پے درپے آنے والے مصائب و آلام دراصل وقتی ہوتے ہیں۔ یہ کبھی تو جلد رفع ہو جاتے ہیں اور کبھی اِن سے نجات حاصل کرنے میں وقت لگتا ہے۔ایک مشہور مقولہ ہے کہ’’ جب تک سانس ہے تب تک آس ہے‘‘۔ عجلت پسند اور بے صبرے انسان کو چاہیے کہ اپنی روشِ حیات کو بدل کرہمیشہ اللہ سے پُر امید رہے ،زندگی کے آلام و مصائب کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہوئے یاد رکھے کہ’’ ہر تکلیف کے بعد راحت ہے‘‘ اورہر ناکامی کے بعد کامیابی بلکہ ناکامی اصل میں کامیابی کا ہی ایک زینہ ہے۔
�����