اثاثے ظاہر نہ کرنابدعنوانی کے مترادف قرار، رکنیت سے نا اہلی بھی ہوگی
Contents
نئی دہلی// انتخابی عمل میں اصلاحاتی اقدامات کیلئے تاریخ ساز فیصلہ صادر کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے کہا ہے کہ انتخابی عمل میں بحیثیت امیدوار شریک ہونے کیلئے یہ شرط لازم ہے کہ سیاست دان اپنے افراد خانہ سمیت تمام ذرائع آمدن اور جائیداد کی تفصیلات ظاہر کریں ۔تاریخی فیصلے میں عدالت عظمیٰ نے انتخابی عمل کی اصلاحات کیلئے کئی پیمانے وضع کرتے ہوئے کہا ہے کہ صحت مند جمہوریت کی بقا کیلئے شفاف انتخابی عمل ضروری ہے ۔سپریم کورٹ نے مرکزی سرکار سے کہا ہے کہ وہ ایسا میکانزم تیار کرے تاکہ وقتاً فوقتا ًمنتخب نمائندوں ،ان کے ازواج اور منحصرافراد کنبہ (متوسلین )کا ڈیٹا جمع کیا جائے تاکہ اس بات کا جائزہ لیا جاسکے کہ آیا اسکی جائیداد میں غلط طریقے سے کوئی اضافہ تو نہیں ہوا ہے، تاکہ ایسے معاملات میں کارروائی کی سفارش کی جاسکے ۔عدالت عظمیٰ نے مزید کہا کہ اس نئے میکانزم کے ذریعے کسی منتخب نمائندے،اسکے ازواج یا منحصر افراد کنبہ کی جائیداد میںناجائز طریقے سے اضافہ ہونے کی تصدیق کے بعد مذکورہ نمائندہ کی نااہلی کے بارے میں متعلقہ قانون سازیہ(پارلیمنٹ یا اسمبلی) میں قانون ساز اراکین فیصلہ لے سکیں گے ۔جسٹس جے چیلامیشور اور ایس عبدالنذیر پر مشتمل ڈویژن بنچ نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ کسی بھی قانون ساز رکن یا اس پر انحصار کرنے والوں کے بارے میں اگر آمدن اور جائیداد کے بارے میں تفصیلات فراہم نہیں کی جائیں گی تو اسے عوامی نمائندگی ایکٹ (1951) کے تحت بدعنوانی قرار دیا جائے گا ۔عدالت عظمی نے کہاہے کہ رائے دہندگان کا یہ بنیادی حق ہے کہ وہ انتخابات لڑنے والے امیدواروں کی اس جائیداد کے بارے میں جانکاری حاصل کریں جو انتخابات سے قبل انہوں نے بنائی ہوں کیونکہ جمہوری نظام میں اسکے بارے میں رائے دہندگان کو باور کرانا ایک صحیح اقدام ہے۔عدالت عظمیٰ نے یہ تاریخ ساز فیصلہ ایک غیر سرکاری تنظیم لوک پراہاری کی طرف سے دائر عرضی پر سماعت کے بعد صادر کیا ۔اس عرضی میں عدالت عظمیٰ سے درخواست کی گئی تھی کہ ممبر اسمبلی یا ممبر پارلیمنٹ بننے کے بعد ان اراکین کی تحقیقات کی جائے جن کی اس مدت کے دوران جائیداد میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہو اور ان سے اسکے ذرائع پوچھے جائیں ۔
مذہب کے نام پر تشددجائزنہیں :سپریم کورٹ
یو این آئی
نئی دہلی //سپریم کورٹ نے مذہب کے نام پر تشدد اور جرائم کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔جسٹس ایس اے بوبڈے اور جسٹس ایل ناگیشورکی بنچ نے فیصلے میں کہا کہ مذہب کے نام پر کسی کو قتل نہیں کیا جاسکتا،نہ ہی مذہب کے نام پر کسی پر حملہ کئے جانے کو جائز ٹھہرایاجا سکتاہے۔بنچ نے یہ بھی کہا کہ کوئی عدالت بھی کسی مذہب کے تئیں جانبدارانہ رویہ نہیں اختیار کرسکتی۔یہ باتیں بنچ نے پونے قتل معاملہ میں تین ملزمان کی ضمانت کی عرضی خارج کرتے ہوئے کہی۔عدالت نے کہا کہ تینوں ملزمان ہندوراشٹر سیناکے ارکان تھے،انہوں نے 2014میں ایک مسلمان کو قتل کیا تھا ،جس نے ہری شرٹ پہنی تھی اور داڑھی رکھی تھی۔واضح رہے کہ ممبئی ہائی کورٹ نے تینوں ملزمان کو پچھلے سال ضمانت دے دی تھی۔ہائی کورٹ کی دلیل تھی کہ مذہب کے نام پر انہیں مارنے کے لئے اکسایا گیا تھا ،لیکن سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو قابل مذمت بتایا۔سپریم کورٹ نے کہا کہ ہائی کورٹ کے فیصلے کو جاری نہیں رکھا جاسکتا۔گزشتہ سال جب مقتول شیخ محسن کے ایک رشتہ دار نے ضمانت عرضی کو چیلنج کیا تھا تو سپریم کورٹ نے کہا تھاکہ یہ سمجھنا مشکل ہے کہ ہائی کورٹ نے مذہب کا حوالہ دیتے ہوئے ضمانت پر کیوں تینوں کو رہاکردیا۔