پچھلے دنوں ریاستی اسمبلی کے بجٹ اجلاس کے دوراں وزیر اعلی محبوبہ مفتی نے ہند و پاک مذاکرات کے نئے ساز چھیڑے۔وزیر اعلی کے یہ نئے ساز جموں میں ایک فوجی کیمپ پہ جنگجوؤں کے حملے کے بعد منظر عام پہ آئے۔یہ حملہ ابھی چل ہی رہا تھا کہ سرینگر کے کرن نگر علاقے میں جنگجوؤں اور سرکاری فورسز کے درمیاں ایک اور تصادم پیش آیا جو کم و بیش تیس گھنٹے تک چلتا رہا۔ اِن واقعات سے پہلے سرینگر کے مرکزی ہسپتال ایس ایم ایچ ایس میں نوید جٹ نامی جنگجو پولیس کی قید سے بھاگ گیا۔ نوید جٹ 2014ء میں قید ہوا تھا۔ایس ایم ایچ ایس میں نوید جٹ کے فرار کے دوراں فورسز کے دو جواں بھی مارے گئے۔ظاہر ہے محبوبہ مفتی کی مذاکرات کے لئے اپیل جنگجوؤں اور فورسز کے درمیان یکے بعد دیگرے تصادم کے بعد سننے کو ملے۔ اِس دوراں اسمبلی میں بھی کافی ہنگامہ آرائی رہی۔ بھاجپا ممبراں نے حسب المعمول پے در پے جنگجوؤں کے حملے کا الزام پاکستان پہ ڈالا اور کھل کے پاکستان کے خلاف نعرہ بازی کی اور اِس دوراں نیشنل کانفرنس کے محمد اکبر لون کے منہ سے پاکستان زندہ باد کا نعرہ پہلی دفعہ اسمبلی میں بلند ہوا۔ نیشنل کانفرنس نے گر اُن کے نعرے سے دوری اختیار کی لیکن محمد اکبر لون نے اسمبلی میں اپنے دئے ہوئے نعرے کی یہ جوازیت دی کہ وہ پہلے مسلمان ہیں پھر کچھ اور جس کا یہی مطلب لیا جا سکتا ہے کہ اُن کی باقی شناخت ثانوی حیثیت رکھتی ہے۔
محبوبہ مفتی کی ہند و پاک مذاکرات کی تلقین کے جواب میں اُن کی کولیشن سرکار کے پارٹنر بھاجپا نے یہ جوا ب دیا کہ وقت مناسب نہیں ہے۔بات چیت سے انکار مسائل جاری کا ایک پہلو ہے دوسر ی جانب دیکھا جائے کہ بھاجپا کو در پردہ مذاکرات سے انکار نہیں اور پچھلے مہینے ہی بھارتی نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر اجیت دیول اور پاکستانی کے قومی سلامتی کے صلاح کار ناصر جنجوعہ کے درمیان بنکاک میں بات چیت کا ایک دور رو بعمل آیا ۔ بھارت میں اِس ملاقات کی سنی ان سنی کی گئی گر چہ توضیح میں یہ کہا گیا کہ یہ بات چیت دہشت گردی کے بارے میں تھی ۔بھارت کا بظاہر یہی کہنا ہے کہ دہشت گردی اور مذاکرات ہم زماں نہیں ہو سکتے۔بھارت کشمیر میں جاری جنگجو تحریک کو پاکستانی منصوبہ بندی سے تعبیر دیتا ہے بلکہ بھارت سرے سے ہی کشمیر میں جاری مقاومتی تحریک کو پاکستانی شہ پہ ایک چلتا ہوا سلسلہ مانتا ہے۔ ثانیاََ بھارتی حلقوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ تحریک کی بنیاد اسلامی شدت پسندی ہے۔ کشمیر میں مزاحمتی حلقوں کا یہ ماننا ہے کہ مسلہ کشمیر ایک سیاسی سوال ہے اور جب تک اِس کے حل کی جانب مثبت اقدامات نہ اٹھائے جائیں تب تک یہ تحریک چلتی رہی گی کیونکہ یہ لوگوں کے سیاسی جذبات سے وابستہ ہے۔صرفنظر از اینکہ کہ کشمیر ی عوام کے سیاسی جذبات کیا ہیں بھارت کے سٹینڈ کو وزیر اعظم اسبق اندر کمار گجرال کے کہے میں جانچا جا سکتا ہے جنہوں نے اپنے ایک پاکستانی دوست کو کہا تھا کہ کشمیر ہم آپ کو دیں گے نہیں اور اِس آپ کو ہم سے چھین نہیں سکتے!گجرال کے کہے کو پاکستانی حلقے جس ترازو میں بھی جانچیں اُس سے صرفنظر کشمیری عوام کی اکثریت مطلق مسلہ کشمیر کے آخری حل کی متلاشی ہے بھلے ہی بقول گجرال زمینی حقائق کچھ بھی ہوں!
محبوبہ مفتی کی ہند پاک مذاکرات کے بارے میں دئے ہوئے بیاں کو جس بے اعتنائی سے لیا گیا وہ اِس حقیقت کی شاہد ہے کہ جموں و کشمیر کے مین اسٹریم لیڈروں کی سیاسی حثیت کے بارے میں دہلی کے حکمراں حلقے پوری طرح سے واقف ہیں۔ محبوبہ مفتی ہو یا عبداللہ خاندان کے فاروق عبداللہ یا عمر عبداللہ یہ سب ہی اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کیلئے دہلی کی حمایت کے طلبگار رہتے ہیں لہذا اُن کے گاہ بگاہ بیانات سے دہلی کے ارباب اقتدار کے کانوں پہ جوں نہیں رینگتی جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ریاست کی حکومتوں کے پایے جمہوریت پہ استوار نہیں ہوتے اور یہ حکومتیں حقیقی عوامی حمایت سے بے بہرہ رہتی ہیں۔ ریاست جموں و کشمیر میں جو بھی حکومتیں 1947ء سے بر سر قتدار آئیں اُن کی جمہوری حثیت ہمیشہ ہی مشکوک رہی۔ جب سے مہاراجہ ہری سنگھ نے 1947ء کے مخصوص حالات میں بھارت سے کچھ شرائط پہ عائد ایک عبوری الحاق کیا جس کی حمایت شیخ محمد عبداللہ نے کی تب سے آج تک لکھن پور کے اِس پار جمہوریت کی کوئی بھی علامت ریاست جموں و کشمیر میں شاز و نادر ہی نظر آئی۔ لکھن پور کے اِس پارریاست جموں وکشمیر میں جمہوریت کا رنگ و روپ وہی رخ اختیار کرتا ہے جو دہلی سرکار چاہتی ہو بلکہ جمہوریت کس مقدار میں مصرف میں آئے اِس کا تعین دہلی میں ہی ہوتا ہے۔
جمہوریت کی بنیادی ضرورت صاف ستھرا الیکشن ہوتا ہے لیکن کشمیر میں 1951ٗء میں جب آئین ساز اسمبلی کا الیکشن ہوا تب ہی سے الیکشن کے نام پہ ایک مذاق منظر عام پہ آتا رہا۔آئین ساز اسمبلی میں کم و بیش سب ہی ممبراں بلا مقابلہ منتخب قرار دئے گئے اور اُس کے بعد ایک روش چل پڑی ۔اِس روش کے بارے میں مرحوم شمیم احمد شمیم کی وہ طرح یاد آئی جو اُنہوں نے 1967ء کے الیکشن کے بارے میں کسی۔مرحوم شمیم اِس الیکشن میں شوپیاں حلقہ انتخاب سے ایک امیدوار تھے ۔ کشمیر کے جنوبی ضلعے اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر عبدالخالق نے رٹر ننگ آفیسر کی حثیت سے 22 امیدواروں کو مد مقابل امیدواروں کے کاغذات نامزدگی رد کروا کے بلا مقابلہ منتخب قرار دلوایا۔مرحوم شمیم احمد شمیم نے بلا مقابلہ منتخب شدگاں کو خالق میڈ ایم ایل اے کے خطاب سے نوازا ۔اُس زمانے سے خالق میڈ کی طرح ایسی چپک گئی کہ بعد کے انتخابات میں بھی بلا مقابلہ منتخب شدگاں کو خالق میڈ کہا جانے لگا۔یہ ریاست جموں و کشمیر کے انتخابات پہ ایک گہرا سیاسی طنز رہا۔انتخابات کی یہ روش کچھ ایسی چل پڑی کہ جہاں مد مقابل امیدواروں کے کاغذات نامزدگی رد کرنا مناسب نظر نہیں آیا وہاں وؤٹوں کی گنتی میں ہیر پھیر کے کئی واقعات پہ پیش آئے اور کبھی کبھی تو انتخاب جس نے جیتا اُس کے نام کے بجائے منظور نظر امیدوار کے نام کا اعلان کیا گیا۔
ریاست جموں و کشمیر میں 1951ء سے 1987ء تک انتخابات کی یہی روش رہی ۔1987ء کے الیکشن کو جمہوری بے راہروی کی انتہا مانا گیا اور اِس الیکشن میں جو دھاندلی ہوئی اُسے بہت سے مبصرین جن میں کئی نامور بھارتی مبصرین بھی شامل ہیں جنگجویانہ تحریک کی بنیادی وجہ مانتے ہیں۔مسلم یونائٹیڈ فرنٹ کے نام پہ ایک سیاسی فرنٹ کی تشکیل ہوئی جو کانگریس و نیشنل کانفرنس کے انتخابی گٹھ جوڑ کیلئے ایک چلینج بن گئی ۔ مسلم یونائیٹیڈ فرنٹ میں کئی ایسے چہرے بھی شامل تھے جو بعد جنگجو تحریک کے رہنما بنے۔اِن چہروں میں محمد یوسف عرف صلاح الدین ،اشفاق مجید و یاسین ملک نمایاں حثیت رکھتے ہیں۔1987ء کے بعد الیکشن عمل پہ اعتبار نہ ہونے کے برابر رہا اور 1989-90ء کے بعد مقاومتی تحریک نے شدت اختیار کرلی جس میں جنگجویانہ مزاحمت بھی شامل رہی۔مقاومتی تحریک کی شدت نام نہاد جمہوری عمل کی معطلی کا سبب بن گئی اور 1996ء تک ریاست کبھی گورنر راج اور کبھی صدر راج کے تحت رہی ۔ 1996ء میں بھارت نے اپنے آزمائے ہوئے سیاسی چہرے فاروق عبداللہ کو پھر منظر عام پہ لایا ۔اِس الیکشن میں لوگوں کی شمولیت نہ ہونے کے برابر رہی ۔
فاروق عبداللہ کی رہبری میں تشکیل شدہ اسمبلی کی قدر و قیمت کے بارے میں یہ کہنا کافی ہے کہ جب اِس اسمبلی نے اٹانومی کے ضمن میں ایک قراداد منظور کی تو اُسے دہلی نے ردی کی ٹوکری میں ڈال دیااور اِس سیاسی اہانت پہ فاروق عبداللہ نے چپ سادھ لی۔بخشی غلام محمد سے لے کے غلام محمد صادق تک اور صادق سے لے کے میر قاسم تک بھارت کو فارق عبداللہ و مفتی محمدسعیدسمیت ایسے سیاسی چہرے ملتے رہے جنہوں نے اپنا نصب العین دہلی کے احکامات کی بجا آوری مانا ۔ 2002ء کے الیکشن اور اُس کے بعد 2008ء اور2014ء میں جو الیکشن ریاست جموں و کشمیر میں منعقد ہوئے اُس میں بھارتی ایجنسیاں ایک نئی حکمت عملی لے کے سامنے آئیں ۔نیشنل کانفرنس کے مدمقابل دہلی کے قابل اعتماد سیاستداں مفتی محمد سعید کی رہبری میں ایک اور علاقائی پارٹی منظر عام پہ آیا ۔عبداللہ خاندان اور مفتی خاندان کے بیچ علاقائی سیاست کی بندر بانٹ ہوئی جس کا مدعا و مقصد یہ رہا کہ عبداللہ خاندان سے ناراضگی کو مفتی خاندان اور مفتی خاندان سے ناراضگی کو عبداللہ خاندان کیش کرلے اور مقاومتی تحریک اِسے کیش کرنے کے قابل نہ رہے ۔ نیشنل کانفرنس و پی ڈی پی کو گاہ بگاہ نرم رو علحیدگی پسندی کی ترجمانی کی چھوٹ دی گئی۔اِس نئی حکمت عملی کا حدف یہ رہا کہ مقاومتی تحریک کیلئے سیاسی محل و مکاں کم سے کم کیا جائے ثانیاََ سیاسی ترکیب کچھ ایسی رہی کہ علاقائی احزاب نیشنل کانفرنس و پی ڈی پی کیلئے قومی بھارتی قومی ا حزاب کانگریس یا بھاجپا کی شراکت کے بغیرحکومت سازی کا کام مشکل رہے چناچہ 2002ء سے 2014ء تک نیشنل کانفرنس و پی ڈی پی نے باری باری کانگریس کے ساتھ حکومت تشکیل دی اور 2014ء کے بعد بھاجپا کے ساتھ پی ڈی پی نے حکومت اِس اعتراف کے باوجود تشکیل دی کہ یہ قطب شمالی و قطب جنوبی کا ملاپ ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ حقیقی جمہوریت اور اُس جمہوریت میں جو جموں و کشمیر میں رواں ہے قطب شمالی سے قطب جنوبی تک کی دوری ہے!
ریاست جموں و کشمیر میں حکومتوں کی بے پائیگی و بے مائیگی ریاستی عوام پہ بھاری پڑ رہیں ہیں۔ ایک ایسی حکومت کا قیام ریاست کے لئے انتہائی ضروری ہے جس کی بات بے اثر نہ رہے لیکن مشکل یہ ہے کہ ریاست کی مزاحمتی قیادت انتخابات میں حصہ لینے سے قاصر ہے چونکہ انتخابات میں شمولیت کیلئے بھارتی آئین کی قبولیت ایک امر ضروری قرار دیا گیا ہے ۔مزاحمتی قیادت بھارتی آئین کی قبولیت کے تحت الیکشن لڑنے کیلئے تیار نہیں۔اِس مخمصے میں ریاست جموں و کشمیر کی سیاسی حثیت ایک مذاق بن کے رہ گئی ہے اور ماضی قریب میں واجپائی سے لے کے مودی تک بھاجپا کے رہبراں انسانیت،جمہوریت و کشمیریت کے دلفریب نعروں سے اہلیاں کشمیر کو بہلانے کی کوشش کرتے آئے ہیں۔اِن سب نعروں کا مدعا و مقصد ایک ہی ہے کہ کوئی بھی سیاسی رعایت دئے بغیر خالی خولی نعروں سے حالات کو جوں کا توں رکھنے کی سعی کی جائے ۔اتل بہاری واجپائی ایک سیاستداں ہونے کے علاوہ شاعرانہ شعور بھی رکھتے تھے اور سیاسی امور میں بھی اپنی بات کو عوام الناس کے سامنے رکھنے کی خاطر طبع آزمائی کرتے تھے ۔اپنی بات کو شاعرانہ روش میں بیاں کرنے سے وہ سیاسی احداف کے حصول کی تلاش میں رہتے تھے ۔جب یہ عیاں ہونے لگا کہ کشمیر کی مقاومتی رہبری بھارتی آئین کے دائرے میں گفت و شنید کے لئے تیار نہیں تو واجپائی کے شاعرانہ تخیل نے انسانیت کی طرح کو منظر عام پہ لایاالبتہ بات وہی کی وہی رہی چونکہ بھارتی رہبری مسلہ کشمیر کے ضمن میں کوئی ایسی رعایت دینے کیلئے تیار نہیں تھی جو کشمیر کی مقاومتی رہبری کیلئے قابل قبول ہوتی۔انسانیت کے بول میں انسانیت سے مطابقت رکھنے کوئی بات نہیں تھی۔آج واجپائی کی مانند نریندرا مودی بھی انسانیت کا راگ الاپنے لگے ہیں لیکن جیسا کہ ظاہر ہے اِن تلوں میں تیل نہیں ہے۔انسانیت کی مانند مودی نے واجپائی کی تقلید میں جمہوریت و کشمیریت کا راگ چھیڑا ہے جس کی گہرائی و گیرائی کو مسلہ کشمیر کے ضمن میں چانچنے کی ضرورت ہے تاکہ اِس حقیقت کا تجزیہ ہو سکے کہ بھارتی قول و فعل میں کتنا تفاوت ہے۔
بھارت میں مسلہ کشمیر کو ملکی مفاد و سیکورٹی سے جوڑا گیا ہے بلکہ بگذشت زماں یہ قومی وقار کا مسلہ بن گیا ہے اور مطبوعات میں بھی یہی تاثر عام ہے خاصکر الکٹرونیک میڈیا نے اِسے ایک نفسیاتی مسلہ بنا دیا ہے جہاں قومی نفسیات کشمیر سے اِس حد تک جڑی ہوئی نظر آتی ہے کہ مسلہ کشمیر کے حل میں کسی بھی پیش رفت کو قومی تحفظات کا سودا مانا جاتا ہے لیکن وہی سیاسی حلقے جو اُسے قومی وقار کا مسلہ بنانے میں پیش پیش رہتے ہیں اقتدار میں آنے کے بعد جب زمینی حقائق کو پرکھتے ہیں تو اُنہیں اندازہ ہوتا ہے کہ کشمیر کو جوں کا توں رکھنے میں کتنا خسارہ بھگتنا پڑتا ہے
۔اِس احساس کے ساتھ جب وہ بات چیت کیلئے آمادہ ہوتے ہیں تو وہ اپنے ہی بنائے ہوئے پھندے میں پھنس جاتے ہیں اور انجام کار یہ اِس پہ منتج ہوتا ہے کہ احزاب مخالف کے سیاسی دباؤ و مطبوعاتی شور و غل سے کوئی بھی پیشرفت ممکن نہیں ہوتی لہذا آر پار کی حکومتیں بات چیت کو پس پردہ رکھنے کو ہی ترجیح دیتی ہیں ۔پچھلی دو تین دَہائیوں سے اکثر ایسا ہی ہوتا آیا ہے کہ خفیہ سفارتی رابطے بنے رہتے ہیں جو منظر عام پہ نہیں آتے اور یہ رابطے ہند و پاک کے مابین اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے ہوتے ہیں مبادا حالات و واقعات گرفت سے باہر نہ ہو جائیں ۔
Feedback on: [email protected]