مالیگاوں +پٹنہ//حکومت کے تین طلاق مخالف بل کے خلاف مسلم خواتین کے احتجاج پورے ملک میں جاری ہے اور اسی سلسلے میں آج پٹنہ میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کے تحت آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ خواتین سیل نے اس بل کی زبردست مخالفت احتجاج کیا۔ جس میں ہزاروں کی تعداد میں خواتین شامل ہوئی۔ دریں اثنا شریعت میں مداخلت اور تین طلاق بل کے خلاف مالیگاوں مین دو لاکھ سے زائد مسلم خواتین نے سڑکوں پر اتر کر احتجاج کیا۔ برقع پہن کر جلوس میں شامل خواتین کا کہنا تھا کہ ایسا کرکے ملک کے حالات کو خراب کیا جا رہا ہے۔ یہ جلوس اندھیری سے باندرا تک نکالا گیا۔ اس دوران ممبئی کے مالیگاوں کی سڑکیں پوری طرح سے نقاب پوش خواتین سے بھری ہوئی نظر آرہی تھیں اور تا حد نظر صرف اور صرف خواتین کی دکھائی دے رہی تھیں۔قابل ذکر ہے کہ مسلم پرسنل لا بورڈ سمیت تقریبا سبھی مسلم تنظیمیں تین طلاق بل کو واپس لینے کا مطالبہ کررہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ شریعت میں کسی قسم کی مداخلت قبول نہیں کی جائے گی۔ ممبئی میں سڑکوں پر اتری لاکھوں خواتین نے بھی تین طلاق بل کو شریعت میں مداخلت اور ناقابل قبول قرار دیا۔پٹنہ میں مسلم خواتین نے احتجاجی جلسہ میں جمع ہو کر حکومت سے اپنی نا راضگی کا اظہار کیا اورحکومت کے سامنے مندرجہ ذیل مطالبات رکھے اور اسے جلد از جلد واپس لینے کا بھی مطالبہ کیا۔ کیوں کہ یہ بل مسلم پرسنل لا میں کھلی ہوئی مداخلت ہے ، اور ہندوستانی آئین کی دفعہ۱۴اور ۱۵ کی صریح خلاف ورزی ہے ۔۲۔ یہ بل خواتین کے خلاف ہے ، بچوں کے حقوق کے خلاف ہے حتی کہ سماج کے خلاف ہے ۔کیوں کہ جب شوہر تین سال کے لیے جیل میں ہو گا تو وہ اس بل کے مطابق بیوی اور بچوں کو گذارا بھتہ کیسے دے گا ؟ اگر وہ روزانہ مزدوری کرتا ہے تو جیل میں رہ کر کس طرح بیوی بچوں کا خرچ اٹھائے گا ،اگر وہ سرکاری نوکری میں ہے تو کیا تین سال جیل میں رہنے کے بعد اس کی نوکری برقرار رہیگی؟نوکری چھوٹ جانے کے بعد وہ کس طرح گذارا بھتہ دے گا؟اس کے علاوہ تین طلاق کو ثابت کرنے کی پوری ذمہ داری مسلم عورتوں پر ڈالی گئی ہے ، یہ عورتوں پر سراسر ظلم ہے ۔۳۔ اس بل کے مندرجات سے پتہ چلتا ہے کہ سرکار نے اس بات پر بالکل غور نہیں کیا کہ جب شوہر تین سالوں کے لیے جیل چلا جائے گا تو اس کے بعد بیوی اور بچوں کو کن خطرناک حالات کا سامنا کرنا پڑے گا ۔طلاق شدہ بیوی اور بچوں کا خرچ کون چلائے گا؟بچوں کی دیکھ بھال کون کرے گا؟کیا جب وہ تین سال جیل میں رہنے کے بعد واپس آئے گا تو وہ اپنی اس بیوی کے ساتھ خوش رہ سکے گا جس کی وجہ سے وہ تین سال جیل میں رہا ہے ؟ کیا ان کے تعلقات دوبارہ صحیح ہو پائیں گے ؟۴۔ بر سر اقتدار جماعت کی طرف سے یہ غلط فہمی پھیلائی جا رہی ہے کہ یہ بل صرف تین طلاق کے خلاف ہے ، مگر حقیقت میں یہ بل پورے نظام طلاق کو ہی ختم کرنے کے لیے ہے ، سرکار کے اس وقت کے اٹارنی جنرل نے خود جسٹس یو یو للت کے سامنے ان کے پوچھنے پر سپریم کورٹ میں یہ قبول کیا تھا کہ سرکار طلاق کے پورے نظام کو ہی ختم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بل مسلم مردوں کو جیل میں ڈالنے اور اور خواتین کو کورٹ کا چکر لگانے کے لیے مجبور کرنے کے لیے ہے ، ہم مسلم خواتین اس بل کو ایک کالا قانون کے طور پر دیکھتی ہیں اور اس کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتی ہیں ۔۵۔اس کے علاوہ یہ بل سماج مخالف بھی ہے ، کیوں کہ اس میں ایک سماجی معاہدہ کو قابل سزا جرم بنایا جا رہا ہے ۔ اس بل کی دفعہ ۷ میں لکھا ہے کہ یہ عمل عدالتی دائرئہ کار کے اندر او غیر ضمانتی ہے ، اس کا مطلب یہ کہ کوئی تھرڈ پارٹی بھی شوہر کے خلاف شکایت کر دے تو اس شوہر کو جیل میں ڈال دیا جائے گا اور اس میں بیوی کی مرضی کو کوئی اہمیت نہیں دی جائے گی ۔اسی طرح نکاح ایک سماجی معاہدہ ہے ، لیکن یہ بل اس کو کرمنل ایکٹ کے دائرے میں لے آئے گا جو کہ غیر اخلاقی ق غیر ضروری ہے ۔ سال ۲۰۰۶ء میں سپریم کورٹ کے معزز جسٹس ایچ کے سیما اور آر وی روندرن نے ایک مقدمہ میں فیصلہ سنایا تھا کہ سول کیس کو کرمنل کیس میں نہیں بدلا جا سکتا ہے کیوں کہ یہ انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے ۔