ا نگاروادی میں شوپیاں کا تازہ المیہ اب تاریخ کا حصہ ہے ۔ یہ وادی میں فوج کی جانب سے عام شہریوں کو اپنی گولیوں کا نشانہ بنانے کا کوئی پہلا واقعہ نہیں بلکہ فوج اور پولیس کی جانب سے عام شہریوں کوگولیاں کا نشانہ بنانا گزشتہ اٹھائس سال سے جاری ہے ۔وہ کوئی دن نہیں جب وادی میں وردی پوشوں کی ظلم و بربریت کے شکار کسی شہری کا جنازہ نہ اُٹھتا ہو۔کشمیریوں کو اپنی گولیوں کا نشانہ بنانے کیلئے ان پر کس قدرکا خون خواری کا بھوت سوار ہے، اس کی سینکڑوں مثالیںزندہ ہمارے سامنے ہیں۔ حال میں ایک بھارتی سپہ سالارجنرل بپن راوت نے دھمکی آمیز لہجے نئی دہلی میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ جموں وکشمیر کے اسکولوں میں مکمل بھارت کے بجائے جموں وکشمیر کا نقشہ الگ سے دکھاکر طالب علموں کے اذہان میں غلط باتیں بٹھائی جارہی ہیں۔ گو کہ اس بیان کو لے کر ریاستی وزیر تعلیم الطاف بخاری نے بھی جنرل راوت کو تعلیمی نظام پر کچھ بولنے کے بجائے سرحدوں پر ڈیوٹی دینی کی صلاح دی اور کہاکہ جنرل صاحب تعلیمی نظام پر بولنے کے بجائے سرحدو ں پر حفاظت کا کام انجام دیں ، ملک کی سلامتی اور اس کی حفاطن ان کا اصلی کام ہے ۔ جنرل راوت کو معلوم ہو نا چاہیے کہ ریاست جموں و کشمیر میں دو جھنڈے ہیں۔ ریاست کے پاس اپنا ریاستی آئین ہے۔جنرل راوت اپنی منصبی ذمہ داری اپنی حدود کے اندر رہ کر انجام دیں تو بہتر ہے۔ اگر وہ اپنا کام صحیح سے کریں گے تو تمام مسائل حل ہوں گیا ور شوپیاں جیسے المیے جنم نہ لیں گے۔ گزشتہ روز سوشل سائٹ فیس بک پر ایک ویڈیو کلپ وائیرل ہوئی جس میں ایک فوجی اہلکار کو یہ بولتے ہوئے سنا گیاکہ ’’شانتی وانتی چھوڑو، میرا ریکارڈ رہا ہے جہاں جہاں میں گیا جب تک خون خرابہ نہیں ہوتا میرا من نہیں بھرتا،انسان کی جان لیناکوئی بڑا مسئلہ نہیں، خون خرابہ کرناروز کا معمول ہے،تب تک سکون نہیں ملتا جب تک کسی کا خون نہ کیا جائے‘‘ فوجی اہلکار کے اس مغرورانہ کلام سے جہاں امن کی بحالی اور انسانیت کی رکھوالی ایک سپنا ہی رہے گا ،وہاں کشمیر اور خطہ پیر پنچال میں ہر ایک شہری خود کو غیر محفوظ ہونے کا پورا پورا یقین کرے گا۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کس بات پر یقین کیا جائے۔ جنرل روات یہ گل افشانیاں کر رہے ہیں ،ان کے پیادے یہ جنگی جنون پھیلارہے ہیں اور وزیر اعظم ہند نریندرمودی لعل قلعہ کی فصیل سے قوم کے نام خطاب میں یہ کہتے ہیںکہ ’’کشمیر مسئلہ گولی اور گالی سے نہیں کشمیریوں کے گلے لگانے حل ہوگا‘‘۔ یہ سب جھوٹ اور فریب کا ایک پلندہ نہیں تو اور کیا ہے ،کیونکہ پیار و محبت کی لمبی چوڑی باتیں کرنے کے پیچھے جس قدر کشمیریوں کے تئیں نفرتوں کا زہر اُگلا جا رہا ہے وہ کشمیری قوم کے لئے آئے دن موت کا پیغام لے کر آتا ہے۔
افسوس صد افسوس! کہ جہاںآئے روز کوئی نہ کوئی عام شہری محافظین کے جنون کی بھینٹ چڑھ رہا ہے ، وہیں خون نا حق بہانے کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لیتا ۔ شوپیان اس کی نئی مثال پیش کر تاہے ۔ اس دوران حکمران جماعتوں کالاشوں پر سیاست کرنے کے شرمناک قصے بھی منظر عام پر آرہے ہیں۔ اُدھرسرمائی دارالحکومت جموں میں بجٹ اجلاس میں جس طرح بر سر اقتدار ٹولہ اور حزب اختلاف ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کر کے کشمیر میں 70؍سال سے بہائے جارے رہے اس خون ِ ناحق کے لئے ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھہرایا وہ اس بات کا پختہ ثبوت پیش کر تاہے کہ اقتدار پرست سیاسی جماعتوں نے عوام بھلائی کیلئے نہیںبلکہ صرف اور صرف اقتدار کی خاطر ہمیشہ ریاستی عوام کے خون کا سودا دلی کے ٹھیکیدارو ں سے کیا ۔ سیاست دانوں نے کرسی کی ہوس اور لالچ میں لنگڑا اقتدار وصول کر کے عوام کا استحصال ہی نہ کیا بلکہ وردی پوشوں کو سیاسی ڈھال فراہم کردی ۔ چند دنوں کے لولے لنگڑے اقتدار کی خاطر عوامی اُمنگوں پر شب خون مار کر جس طرح سے ریاستی حکمرانوں نے ہمیشہ دلی کی دلالی کو اپنے گلے لگایا ۔ یہ وہ بوالہوسی ہے جس نے کشمیر کو خون کے سمندوں میں ڈبو دیا ہے۔ آج حکمران اس سودے بازی کی پول پوری دنیا کے سامنے خود کھول رہے ہیں اور حزب اختلاف بوکھلاہٹ کی شکار ہو کر اقتدار حاصل کرنے کی جستجو میں ماہی ٔبے آب کی طرح تڑپ رہی ہے۔افسوس کا مقام ہے کہ شوپیان جیسے المیے بھی ان دونوں کے ضمیر کو بیدار نہیں کر تے،بلکہ ہمارے یہاں کے کرم فرما سیاست دانوں کی جانب سے ایسے دلخراش سانحات پر مذمتی بیان جاری کرنا اور پھر ایک دوسرے کو الزام دینا ایک بوسیدہ اور ریاکارانہ روایت بن گئی ہے جس کا اعادہ شوپیان کی شہری ہلاکتوں کے دوران خوب ہوا، یعنی پہلے روز مذمتی بیان دینا، دوسرے روز اخبار میں تحقیقات کا اعلان کر نا ، تیسرے روز اپنے بیان کی توجیہات اور تاویلات کر ناتا کہ کرسی ادھر ادھر نہ کھسکے اور پھر واقعہ کو بستہ ٔ فراموشی میں ڈالنا۔ یہ ریاستی حکمرانوں کی اٹھائیس سالہ سیاست کاری اور حکمرانی کا اصل معیاربن چکا ہے ۔ شوپیان کا المیہ اس سے مستثنیٰ ۔ ستم ظریفی یہ کہ گنوپورہ شوپیان ٹریجڈی پر جو نام کا ایف آئی آر پولیس اسٹیشن میں درج ہو تھا ،اس پر ابتدائی تفتیش کے مرحلے پر ہی عدالت عظمیٰ نے حکم امتناعی جاری کیا۔ کیااس سارے تماشے سے انصاف کا بول بالا ہوگا ؟نہیں کبھی نہیںبلکہ اس سے ایسے دلدوزسانحات میں کوئی کمی نہ آئے گی اور پھر جب ان کی پشت پر افسپا اورکرسی کے دیوانے سیاست دان ہوں تواہل کشمیر کی کبھی شنوائی ہوگی نہ انصاف ملے گا ۔ ایسے میںانصاف کے منتظر اور حق کے متلاشی تھک ہا ر کر خون کے آنسو نہ بہائیں تو اور کای کریں گے ۔اگر بالفرض ریاستی حکمرانوں کے سینے میں دل نامی کوئی چیز ہے تو انہیں شوپیان جیسے المیے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر نے اورایک دوسرے پر دکھاوے میں سبقت لینے کے بجائے آئندہ دلی کی دلالی سے توبہ کر لینی چاہیں اور کشمیر کا ساتھ دینا چاہیے۔ یہی اُن کے بہترسیاسی شعور پر دلالت کرے گا، وگرنہ اشک شوئیوں اورمحض انگشت نمائیوں سے بات بننے والی نہیں۔ آپ جتنا ایک دوسرے پر اس جاریہ خون ِ ناحق کا الزام تھوپتے رہیں گے اُتنا ہی عوام کے سامنے ننگے ہوتے جائیںگے۔ شوپیان نے آپ سب لوگوں کے چہرے بے نقاب کئے ہیں ، ا س لئے باشعور لوگ اس بات کے قائل ہیں ؎
بہروں کی انجمن میں نہ گا درد کی غزل
اندھوںکو مت دکھا گریباں پھٹا ہوا
Cell: 9797110175