علامہ اقبال نے سچ کہا تھا ؎
احساس عنایت کر آثار مصیبت کا
امروز کی شورش میں اندیشہ ٔفردا دے
بیسویں صدی میں سرابھارنے والی پالیسیاں لبرالایزیشن ۔پرائیویٹائزیشن ۔ گلوبلائزیشن(LPG ) جسے اکثر ترقی یافتہ و ترقی پذیر ممالک نے اپنے یہاں نافذ کر لیا ہے جس سے کچھ اقتصادی فائدہ تو ہو سکتا ہے لیکن تہذیبی غارت گری کی وہ منظم سازش ہے جس سے واقف ہونا اور کرانا ہر ذی شعور کی اخلاقی ذمہ داری ہے ۔مسلمان جو کہ گلوبلائزیشن کا اصل ہدف ہیں ،انھیں اس کا ادراک ہو سکے کہ جس نام نہاد روشن خیالی اور وسعت پسندی کی رو میں بہہ کر اپنی اور اپنی اولاد کی زندگی کے معاملات انجام دیتے ہیں، درحقیقت وہ گلوبلائزیشن کی راہ ہموار کرتے جس کے مذموم اثرات ان کی زندگی میں آنا نا گزیر ہے۔تعلیم اور تعلم کے عمل کو روزگار یا bright future سے جوڑ دینا اصل میں وہ" امید "ہی ہے جو انسان کی کمزوری ہے اور یہی انسانی کمزوری نے اس کو ایک بڑی انڈسٹری یا مافیا میں بدل دیا ہے۔چونکہ ایک نفع بخش کاروبار ہونے کی وجہ سے وہ افراد جنہوں نے خود تو تعلیم مکمل نہ کر سکے لیکن بزنس mentality اور سیاسی افراد سے قربت ہونے کی وجہ سے دوسروں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کا بیڑہ اٹھا رکھا ہے ۔ یہ ایک بہت بڑی حقیقت ہے کہ ہندوستان کے اکثر کالج و اسکول کے نگراں سیاسی افراد رہے ہیں یا ان کے قرابت دار ، جن کی زیر نگرانی وہ افراد کام کرتے ہیں جسے علم اور حکمت کی نعمت دی گئی ۔ اصل میں یہ اس حدیث کا عملی نمونہ ہے جس میں رسول اکرمؐ نے کہا تھا کہ جہلا علم والوں پر راج کریں گے ۔
کسی بھی قوم میں تعلیمی نظام یا تہذیبوں کی بنیاد میں اس قوم کے نظام تعلیم کی حیثیت بدن میں دوڑنے والے خون کے مانند ہوتی ہے ۔اس خون میں کسی بھی طرح کی آمیزش کا اثر اس قوم کے بقاء پر اثر انداز ہوتا ہے ۔اگر ہم اسلامی تہذیب کی بات کریں تو ابتدائے اسلام میں علم اور تعلیم ایک مقدس چیز تھی جس کی فراہمی کا کو ئی معاوضہ نہیں تھا لیکن اسلام کی ترویج اور اشاعت میں مسلسل اضافے کی وجہ سے اس کا بوجھ مسلم ملوک کے کاندھوں پر آگیا ،جس کے لئے زمینیں وقف کی گئیں جس پر کاشتکاری سے ہونے والی آمدنی سے تعلیمی اخراجات مکمل کئے جانے لگے لیکن دنیا جیسے جیسے گلوبلائزیشن کی طرف جانے لگی ریاستوں نے اس بوجھ کو اٹھانے سے انکار کر دیا ۔نتیجتاً یہ شعبہ نج کاری کی جانب جانے لگا ۔نج کاری کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ علم اس کے لئے کوئی مقدس چیز نہیں بلکہ ایک تجارت ہے جس کی وجہ سے استاد اور شاگرد کا رشتہ customer اور service provider کے بندھن میں تبدیل ہو گیا۔گلوبلائزیشن یا امریکائزیشن کے اس دور میں جب مغربی مستشرقین بھی تہذیب کے ٹکراؤ کی اصطلاح استعمال کرتے نہیں تھکتے اور جس طریقے سے سرمایہ داروں کی مدد سے تہذیبی دہشت گردی کو پھیلایا جا رہا ہے ،اس طوفان بدتمیزی کے مقابل تعلیمی ادارے ہراول دستے کا رول ادا کرسکتے ہیں ،بشرطیکہ وہ کسٹمر کی ضروریات سے پرےطلبا کی بنیاد میں اسلامی تعلیمات تہذیب وثقافت کو جاگزیں کر دیں تاکہ کل یہی بچہ عملی زندگی میں آکر مغربی تہذیب سےبچ کر رہیں ۔
مارکیٹنگ اور پراویٹایزیشن جس کا چولی دامن کا ساتھ ہے اسے سمجھ لیں ۔صارف کی ضرورت اور خواہش کو جان کر اس کو نفع بخش طریقے سے مہیا کرنے کا نام مارکیٹنگ ہے۔مغلوب قومیں ہمیشہ غالب اقوام کی تقلید کرتی ہیں کیونکہ نفسیاتی طور پر وہ ان میں ایک کمال کو مانتی ہے اور جب یہی بات تعلیم اور تعلم کے میدان میں آجاے تو جو نتیجہ برآمد ہوتا ہے مولانا یاسر ندیم نے اپنی کتاب’’ گلوبلائزیشن اور اسلام ‘‘میں اس طرح تصویر کشی کی ہے ۔لسانی دہشت گردی کے سلسلے میں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ بالفرض اگر مجلس میں کسی اہم موضوع پر بات ہو رہی ہو جس میں کوئی شخص علم و کمال کے اعلی مرتبے پر فائز ہو کر اپنی قومی زبان میں پُر مغز بات کرتا ہو تو اسے نظر انداز کر کے اس شخص کو فوقیت دی جائے گی جو صرف انگلش زبان جانتا ہو ،جس کا راست اثر یہ ہوگا کہ علم کے دروازے پر اہل دانش کشکول لئے کھڑے ہوں گے اور محل میں اس شخص کا راج ہو گا جو انگلش زبان میں بات کرنے کا اہل ہو ۔تعلیمی نج کاری کی بنیاد مادہ پرستی پرہے جس کا مدعا یہ ہے کہ کہ علم کے روحانی عنصر کو نظرانداز کر دینا ان کی مجبوری ہے ۔ کسی بھی نجی تعلیمی ادارے کی کامیابی کا پیمانہ ہی یہ ہے کہ اس کے سابق طلبا ءalumini تعلیم مکمل کرنے کے بعد کس عہدے پر براجمان ہیں ۔ کالجوں کے اشتہار میں placement کےدعوے سے یہ بات سمجھی جا سکتی ہے ۔تعلیم کے اسی یک چشمی نظریے پر اقبال نے ایک مدبرانہ تنقید کی ؎
تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو
ہو جاے ملائم تو جدھر چاہے ادھر پھیر
جو تعلیمی تیزاب مارکیٹنگ کی بنیادوں کا مرقع ہو اس سے کسی خیر کی امید فضول ہے ۔ جیسا کہ مارکیٹنگ کی تعریف ہی صارف کی ضرورت اور خواہشات کو جان کر اپنے لائحہ عمل ترتیب دینے کا نام ہے مثال کے طور صارف کی سماجی ' ذاتی، تہذیبی، اور مذہبی عوامل کو سمجھ کر اپنے اشتہارات کے زریعے ان کے برتاو، اور طرز عمل پر اثرانداز ہونے کی کوشش کرنا مارکیٹنگ کے اصولوں کی طرف پیش رفت ہے ۔وہ عوامل جو کہ نفسیاتی اور جذباتی ہوں اس کی نکاسی کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔آج کون نہیں جانتا کہ نجی تعلیمی ادارے کس طرح مذہبی جذبات کی آڑ میں اللہ کی آیات کے ساتھ ثمن قلیل کا یہودی رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں ۔
تعلیمی نظام جو تہذیبوں کی بقاء کا ضامن ہے ،اسے اسلامی تہذیب کا فارس و افریقی ممالک کے تمدنی تصادم سے بھی سمجھا جا سکتا ہے ۔اسلام کے عروج کے ساتھ جب مسلم امراء افریقی ممالک کی جانب پیش قدمی کی تو افریقی تہذیب بشمول زبان کے از خود درگور ہوگئیں کیونکہ اس کی بنا مضبوط ستونوں پر نہیں تھی ۔یہی وجہ ہے کہ آج بھی صومالیہ ۔لیبیا ۔یا افریقہ سے متصل ممالک کو اسلامی تہذیب اور زبان نے مکمل طور پر مسخر کرلیا لیکن اس کےبرعکس فارس یا ایران کسریٰ کا وجود ان کے اپنے تہذیبی ورثے کی مضبوط بنیادوں پر استوار ہونے کی وجہ سے اسلام نے مذہبی طور پر تو کسریٰ کو زیر نگیں کرلیا لیکن تہذیب اور زبان کے طور پر مسخر نہیں کر سکا ۔اس کی وجہ سے عربی تہذیب و زبان کا طوفان فارس کی سرحدوں سے ٹکرا کر رُک سا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ایران سے آگے ایشیائی ممالک پر اسلامی تہذیب کی شعاعیںفارس سے منعکس ہو کر پڑیں ۔نتیجتاً اصل اسلامی ثقافت میں فارسی کلچر و زبان کے ملاپ کا اثر ان ایشیائی ممالک میں محسوس کیا جاتا ہے ۔آج کے اس گلوبل ولیج میں جب کے سرحدوں کے معنی ہی بدل سے گئے ہیں، مغربی تعلیمی نظام کے مدمقابل بقیہ تعلیمی نظام اور تہذیب اپنے بقا ئ کی جنگ کر رہی ہیں ۔غلبہ مغرب کا دوسرا نام یورپ میں نشاۃ الثانیہ کے طور سے بھی جانا جاتا ہے جسے عرف عام میں پرنٹنگ پریس کا دور بھی کہا جاتا ہے ۔مغرب نے اپنے اس ہتھیار کو آزمانے کی ہر وہ ممکنہ کوشش کی جو ذہنوں کو متاثر کرسکے ۔تہذیب و ثقافت کی جو تعریف Michael Bugnon Mordant مائیکل بگنن نے کی ہے مائیکل بنگون مورڈنٹ نے کی اس سے یہ بات اور بھی واضح ہو جاتی ہے ۔’’ کسی بھی قوم کا تہذیبی ورثہ اس کی زبان، تاریخ ' مہارت ولیاقت، فنی ادبی اور علمی صلاحیتیں ،رسوم و رواج اور اس کے اقدار ہوتے ہیں ۔اسی طرح کھانے پینے کی چیزیں، کھیل کود کے طریقے، محبت و مسرت خوشی و غم کا انداز، احساسات اور جذبات بھی ثقافت کا حصہ ہے ۔اگر ہم کسی قوم سے مطالبہ کریں کہ وہ ان تمام چیزوں سے کنارہ کش ہوکر اپنے اندازو فکر، زبان و لباس کو تبدیل کردے تو ہم اس قوم کی ثقافت کو سلب کر رہے ہیں ۔‘‘اس تعریف کی روشنی میں ہمیں جدید تعلیمی نظام میں انگلش کی اہمیت، طلبہ کے نصاب میں یورپ کی تاریخ پر مشتمل ابواب، ڈارون کے ارتقاء سے شیکسپئر کے ڈرامےتک، خاص طور سے نجی اداروں میں طلبہ کے سوٹ بوٹ کے یونیفارم سے لے کر کرکٹ کی دیوانگی پیدا کرنے کے لئے جس طرح سے پریس اور الیکڑانک میڈیا کا استعمال کیا جاتا ہے، سب اسی غارت گری کی علامات ہیں ؎
یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت
پیتے ہیں لہو دیتے ہیں تعلیم مساوات
وہ تعلیمی مساوات جس کی عمارت جدید مغربی علوم پرہو، یا دنیا پر مسلط ہونے کیلئے جمہوری طرز حکومت اپنے اندر وہ اثر رکھتا ہے جس سے ذہین لوگوں پر احمقانہ تاثرات ڈالا جا سکے، جسے پروپیگنڈہ بھی کہتے ہیں ۔آپ ذرا تھوڑے دیر کیلئے غور کیجیے کہ اس پروپیگنڈہ کا اثر انگلش میڈیم کے طلبہ پر کیا ہوتاہوگا جب بچہ جانی جانی یس پاپا، یا بابابلیک شپ گاتا ہے تو اپنے اطراف ایک انجانی سی دیوار بناتا ہے اور یہ دیوار اس دیوار سے کئی زیادہ خوبصورت ہے جس میں بچہ ابو کے ساتھ مسجد جانے کی ضد کرتا ہے ۔یہاں پر ایک بات واضح کردوں کہ ہم بذات خود انگلش زبان کے مخالف نہیں کیونکہ سورہ روم میں اللہ نے زبانوں کے اختلاف کو اپنی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیا ہے لیکن ہم اس کے ضرور قائل ہیں کہ کسی بھی اجنبی زبان کو صحیح اور مناسب طریقے سے اسی وقت سمجھا جا سکتا ہے جب کہ مادری زبان پر کامل مہارت حاصل ہو ۔اس کے برخلاف بچے کو ابتدا سےہی یا پرائمری اسکول سے ہی ایک اجنبی زبان میں طریقہ ہاے تعلیم کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اپنی زبان کی مٹھاس سے نابلد رہتاہی ہے ،ساتھ ہی اجنبی زبان مین بھی مہارت تامہ حاصل نہیں کرپاتا ۔ سوال یہ ہے کہ مغربی تہذیب جو کہ یورپ کے ممالک کو متعارف کرتی ہے ،وہ کس طرح وجود میں آئی ؟وہ ممالک جنہوں نے دو عظیم جنگوں سے نبردآزماہونے کے باوجود تعلیمی اور تہذیبی سطح پر اتنی آسانی سے دنیا پر کس طرح قابض ہوگئے ؟ اور کیا یورپ کے ہر ملک میں انگلش زبان ہی علم کے ارتکاز کا زریعہ ہے ؟پورے براعظم یورپ کا ادب، موسیقی، لٹریچر اٹھا کر دیکھا جائے تو اس میں عیسائی تہذیب ہی وہ چیز ہے جو مشترک دکھائی دے گی۔مثلا شیکسپیئر کے ڈراموں کو دیکھا جائے تو اس میں ایک عیسائی گھر کا ماحول، کرسمس کا کلچر ، عیسائی رسوم و عبادات کا ماحول دکھائی دیتا ہے۔بنابریں جب کوئی انگلش میں لکھے گئے لٹریچر کا فرانسیسی یا روسی زبان میں ترجمہ کیا جاتا ہے تو کوئی اجنبیت محسوس نہیں ہوتی ۔مذہب ہی وہ ایک مشترک قدر ہے جو ہزاروں جنگوں اور خونریز لڑائیوں کے باوجود ان ممالک کو ایک دھاگے میں پروئے رکھا ۔مسلمان جو کہ یورپ کے ساحل پر آکر علم و عرفاں کے مال بردار جہاز کو لنگر کیا اور بعد میں یورپی اقوام کو اس سے آشنا کر کے تجاہل عارفانہ کا شکار ہوگئے ۔مسلمانوں نے جو اسلامی تہذیب کی بنیاد اسپین کے ساحل پر رکھی تھی وہ اسپین سے آگے کا سفر کیوں نہیں کر سکی ؟ اس وقت کےتاریخ دانوں نے ان دو تہذیبوں کے ٹکراؤ کو بہت ہی بہتر طریقے سے قلم بند کیا ہے ۔اسی میں سے اس اقتباس سے اس وقت کے حالات اور صورتحال کو سمجھا جا سکتا ہے ۔
" صدیوں کی صلیبی جنگوں سے نبردآزما ہونے کے بعد، جب عیسائی مسلم ملوک کی طرف پیش قدمی کی تو انھیں احساس ہوا کہ مسلمانوں کے علاقے تہذیب اور علم و ہنر کا سرچشمہ ہیں ۔جسے دیکھ کر ان کے اندر ترجمے کی تحریک پیدا ہوئی ۔اس وقت یورپ کاکوئی گاؤں ایسا نہیں تھا جہاں عربی زبان پڑھا ئی نہ جاتی ہو ۔یہ زبان صرف اس لئے پڑھائی جاتی تھی کہ عربی میں موجود علوم تک رسائی حاصل ہو لیکن ذریعۂ تعلیم ہمیشہ ان کی مقامی زبان ہوتی تھی ۔پورے یورپ میں سائنس، طب، جغرافیہ، اور دیگر علوم کے ترجمے ہوئے لیکن اسے براہ راست لوگوں تک پہنچنے نہیں دیا گیا بلکہ مصنفین نے اپنے ناموں سے کتابیں لکھیں جسے پورے یورپ کی اسکول و کالج اور یونیورسٹی میں پڑھایا جانے لگا ۔ تراجم میں اس حد تک بددیانتی کی گئی کہ مسلم مصنفین کا نام تک بدل دیا گیا مثلا بو علی سینا کو اویسنا کر دیا گیا تاکہ بچوں کو احساس تک نہ ہو کہ یہ مسلمان یا غیر یورپی لوگ ہیں ۔ ان سب سے بڑھ کر سب سے بڑا اہتما م یہ کیا گیا کہ بچوں تک ایسی کہانی کو پہنچنے ہی نہیں دیا گیا جس میں یورپ کے باہر کا ماحول ہو ۔ گزشتہ کئی صدیوں تک مسلمانوں کی تہذیب، تمدن اور اخلاق تک سے یورپ مکمل نا آشنا تھا ۔آج پورے یورپ میں کوئی بھی الخوارزمی، ابن ہشیم، رومی، جابر بن حیان کو نہیں جانتا۔یہاں تک کہ اکبر جیسے مغل بادشاہ کو اکبر اعظم مانتے ہیں لیکن کبھی بھی اسے اپنے نصاب تعلیم کا حصہ نہیں بننے دیا ۔اس طرح یہ مغربی تہذیب وجود میں آئی ۔چاہے اسے کتنا ہی سیکولر کہا جائے لیکن اپنی اصل میں یہ عیسائیت سے مرقع ایک معجون جسے آج ہر کس و ناکس اپنا کر اس زعم میں مبتلا ہیں کہ وہ طاقتور ہو کر علم کے مدارج طے کر رہے ہیں "۔ اب سوال باقی رہتا ہے کہ علم کا کارواں کس طرح نجکاری کے سمندر میں جا گرا ؟علم جو کہ کبھی روح کی تسکین کا ذریعہ سمجھی جاتی تھی ۔ جسے اصل میں’’ آفاق و انفس میں ہم ضرور بہ ضرور اپنی نشانیاں بتائیں گے‘‘ کے مقصد کے تحت سفر کرنا تھا ،وہ مادیت کی طرف کیسے چلی گئی ؟اس کی بنا یورپ میں صنعتی ا نقلاب آگیااورفری ٹریڈ یا ملکوں کے لبرالایزیشن کی پالیسی کو نافذ کر لینا ہی نج کاری کی وجہ بنی۔ جن ممالک کی بنیاد ہی سرمایہ د اری پر ہو،وہ مارکیٹ کو آسانی سے جیت سکتے ہیں ۔نتیجتاً ملکی کمپنی کو لے کر ہی یہ لوگ بھارت میں اپنی تجارت کو فروغ دینے آئے تھی اور پورے ملک پر قابض ہوئے۔کوالئٹی کی بنیاد پر مارکیٹ پر راج کرنے کے رجحان نے ایک عالمی ادارہ ISO کی بنیاد ڈالی جو دنیا میں اشیاء کے معیار کا تعین کر کے سرٹفکییٹ جاری کرے تاکہ صارف کا بھروسہ برقرار رہے ۔شروع میں ISO صرف اشیاء تک محدود تھا بعد میں یہ خدمات میں بھی کام کرنے لگا ۔چونکہ تعلیمی میدان ایک خدمات کا شعبہ ہے اور مارکیٹ کو جیتنے کی ہوس نے خدمات کے شعبے میں کام کرنے والوں کو کوالئٹی کے نام پر عوام کو گمراہ کرنے سے نہیں چوکتے ۔حالانکہ کامرس کا ایک عام طالب علم بھی جانتا ہے کہ چاہے وہ ISO ہو یا انڈیا کا BIS سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا سارا کام انٹرنیٹ یا آن لائن ہوگیا ہے ۔بس صرف فیس ادا کر کے مطلوبہ سرٹیفکیٹ کو خریدا جا سکتا ہے اور اب تو کالج کے NAAC سے Accreditation کا مرحلہ بھی onlineہو چکا ہے ۔ �����