جانے کیوں ایک مقبول فلمی ڈائیلاگ بے تحاشہ یاد آرہا ہے بلکہ ایک میزائل کی مانند دل ودماغ کی سرحدوں کے اندر گھستا ہی چلا جاتا ہے ۔مانو لگتا ہے سرجیکل اسٹرئک ہو رہی ہے اور کمانڈو سر پٹ دوڑ رہے ہیں۔اور اس اسٹرائک کے نتیجے میں دماغی سرحد پر تابڑ توڑ شور اٹھ رہا ہے ، گیس کے گولے چھوٹ رہے ہیں، دھوئیں کے بڑے مرغولے اوپر اٹھ رہے ہیں ۔آگ کے ہیولیٰ نظر آتے ہیں ۔ویسے ہو کیوں نہ اس کا سیدھا کنکشن سرحد سے ہے، فوج سے ہے اور سرجیکل اسٹرائک سے ہے۔ہاں وہ ڈئیلاگ ہے ۔ وہ جب چھوٹا بچہ تھا ، بڑی شرارت کرتا تھا ، چھوٹی چڈی پہنتا تھا۔مانا کہ اب وہ بڑا ہوگیا ہے ، ناگپور کی زمین سے نکل کر پورے بھارت ورش میں بیماری کی طرح پھیل گیا ہے اور جگہ جگہ کوئی اچھا کام کرے نہ کرے لیکن دنگے ضرور کرواتا ہے تاکہ اس کا خوف برابر طاری رہے۔ اٹھائیس برس پہلے مندر کے نام پر رتھ نکلوایا تھا اور اب کی بار جو کرسی ڈولتی دکھی تو رام راجیہ یاد آیا ۔ایک اور رتھ تیار کر شہر شہر بھیک مانگنے نکلے لیکن سب کو معلوم ہے کہ چھوٹی چڈی اب بھی پہنتا ہے،لاٹھی گھماتا ہے،کمزور مخالفین پر وار کرواتا ہے اس دھمکی کے ساتھ ؎
ہندو ، مندو ، ہندوستان
کٹوے بھاگو پاکستان
تیل مل لو ڈابر کا
نام مٹاو بابر کا
خیر یہ تو کچھ بھی نہیں اب کی بار چھوٹی چڈی والا کچھ زیادہ ہی اچانک بڑا ہو گیا۔حد تو یہ کہ اپنی ہی پہنائیوں میں نہیں سماپا رہا ۔ اپنی ہی فوج کو آشواشن دے ڈالا کہ بھائی لوگو اپنا فوجی پروگرام بند کردو ہم سے سہا نہیں جاتا کہ آپ چھ چھ مہینے تیاری میں لگا دیتے ہو ، ہزار ہا کروڑ کے ہتھیار، گولی بارود، میزائل خریدواتے ہو ۔یہ کام ہم خود کریں گے اور فقط تین دن میں کردیں گے۔ہماری چڈی پہن ، لاٹھی گھمن، نعرے لگن، شاکھا سہن سینا کو بس تین دن چاہئے پھر دیکھنا ڈوکلام کیا، مینڈھر کیا، چشول کیا بھمبر گلی کیا مخالف سینائیں ایسے بھاگ جائیں گی کہ پھر ہمیں سوچھ بھارت روک کر سوچھ سرحد کا نیا کاریہ کرم آرمب کرنا پڑے گا۔ ایسے میں خود فوجی طیش سے ابل پڑے، سیاستدان ہنسی سے اچھل پڑے ، صحافی اور کالم نگار دفاتر سے برق رفتاری سے نکل پڑے کہ دیکھیں یہ نئی سینا کون سی ہے جو مودی سرکار کو ریفل جنگی ہوائی جہازوں کی خریداری میں تین گنا اضافے کا موقعہ دینا نہیں چاہتی تاکہ وہ اپنے کنول برداروں کے لئے پچاس ہزار سے اسی کروڑ کا منافع نکال پائیں۔ہم بھی تو صحافی ہیں ہم بھی تماشہ دیکھنے نکلے۔تین روزہ ٹریننگ کا حال دیکھا ، دبلے پتلے سیوک لاٹھی گھما گھما کر پردھان سیوک کے گیت گا رہے تھے ۔مونچھوں والے بھگوت جی تیار تھے ، دیش بھگتی کے بھاشن گلے سے اتار رہے تھے، ماضی پر شرمسار تھے کہ جس دیش کی باتیں آ ج کرتے ہیں ماضی میں انگریزوں کے تلوے چاٹ رہے تھے اور اب کمزور اقلیتوں کو ڈرا دھمکا کر دن گزار رہے تھے مگر سرحدی فوجوں کو کیا پتہ تھا وہ سمجھے ہو نہ ہو کوئی ہنومان سینا میدان عمل میں آئی ہے جو لنکا کو ہاتھ میں اٹھا کر ان کے سامنے پھوڑ دے یا خود ہی ریح خارج کردیں کہ یہ تو ہائیڈروجن بم سے بھی زیادہ مہلک ثابت ہو۔ مملکت خداداد کی فوج بھی گھبرائی سی دکھی، چھوٹی چھوٹی آنکھوں والی چینی آرمی بھی بنکروں کے اندر چھپ گئی ۔ اس وقت سے سرحدیں خاموش ہیں ۔کوئی جنگ بندی کی خلاف ورزی نہیں ، کوئی بم بارود نہیں پھٹا، کوئی جان نہیں چلی ۔ہم نے پوچھا اتنا سناٹا کیوں ہے بھائی ؟ جواب میں وہی فلمی ڈائیلاگ سنایا کہ جب وہ چھوٹا بچہ تھا ، بڑی شرارت کرتا تھا ، چھوٹی چڈی پہنتا تھا ۔بس اسی چھوٹی چڈی والے کی لزرتی ٹانگیں دیکھنے میں سب مشغول ہیں۔خوف ہے منہ سے تو پاد لیتے ہیں کہیں اور دھماکے نہ کریں۔
یہ چھوٹی چڈی والوں کی اولاد بھی کچھ کم نہیں۔وہ تو اپنے آپ کو سویم سیوک کہتے ہیں لیکن ہیں تو اسی تنظیم کے پسر پروردہ ۔بھلے ترشول یلغار ہوں یا کنول بردار۔ان ہی میں ایک وِنے گٹکار( کٹیار) ہے۔ وہ کھاتاپیتا ،اٹھتا بیٹھتا ، سوتا جاگتا، چلتا پھرتا، ایک ہی شوق پالتا ہے کہ مسلمان پاکستان چلے جائیں کیونکہ اس کا ملک فقط ہندووں کے لئے بنا ہے مگر ایسے میں اگر اکبر لون بے چارہ جوش میں آکر ہوش کھو کر شیر کشمیر کے بدلے پاکستان زندہ باد الاپتا ہے تو کنول بردار اس پر چڑھ بیٹھتے ہیں ، چھینا جھپٹی میں اسے نوچ لینے دوڑتے ہیں اور آخر میں ایف آئی درج کرواتے ہیں ۔بھلا اسے کہاں معلوم تھا کہ مولانا افتخار اور کنول بردار الگ الگ مورچے ہیں۔ اکبر لون بے چارہ تو مملکت خداداد سے زیادہ وہاں کے نمک سے پیار کرتا ہے، خاص کر اگر یہ نمک سبز کپڑے میں لپٹا ہو کیوں کہ اس کے سیاسی آبا ء و اجداد نے اسے یہی سکھایا ،لیکن کنول برداروں کے شور شرابے میں وہ کوہستانی نمک بھول کر پاکستانی نعرہ بازی میں چیخ ہی پڑا ۔بے چارہ اکبر لون میجر آدتیہ تو ہے نہیں کہ تین چار کو موقعے پر گولیاں مارکر جان بحق کروائے ، دو اور کو ہسپتال میں دم تڑوائے، آدھ درجن کو زخمی کروا کر تڑپائے پھر عدالت عظمیٰ سے اپنے خلاف ایف آئی آر پر روک لگوادے۔اکبر لون کو تو ہل والے ٹویٹر ٹائیگر کا سپورٹ تھا ،وہ فوراً چھوٹ گیا کہ ہل بردار کنول برداروں کی ناراضگی کسی بھی صورت مول نہیں لے سکتے، ماضی میں بھی ان کے حاشیہ بردار رہے۔ بھائی یاد کرو بڑا یارانہ لگتا ہے جبھی تو ۲۰۰۲ کے گجرات مسلم کش فسادات کے وقت بھی دوستی کا ہاتھ نہ چھوڑا۔اسے کہتے ہیں دوستی پکی خرچہ اپنا اپنا۔ ہل والے قائد ثانی سے امید تھی لیکن وہ بھی ٹوٹ گئی ۔اکیلا تن تنہا جھیل رہا ہے ؎
ہم وفا کر کے بھی تنہا رہ گئے
دل کے ارمان آنسووں میں بہہ گئے
اپنے ملک کشمیر میں لوگوں کوملال ہے، بڑا اہم سوال ہے کہ افسپا کے ساتھ ساتھ وردی پوشوں کو عدلیہ کی چادر اوڑھنے کو کیوں ملتی ہے ؟ادھر بانوئے کشمیر نے اپنی کرسی کی فکر نہ کر کے ، سیاسی کیریر کو دائو پر لگا کر، کنول برادری سے دوستی کو سولی چڑھا کر، سمندر میں رہ کر مگر مچھ سے بیر رکھکر، ہیلی کاپٹر سواری کی عیش کوشی کو بھول کر، جرات رندانہ کا مظاہرہ کرکے ایف آئی آر درج کروائی مگر اسے کیا معلوم تھا کہ جہاں اجتماعی ضمیر (collective conscience)کی تشفی کے لئے کسی کو تختہ دار چڑھایا جائے ،وہاں ایف آئی آر کا کاغذ ناک پونچھنے یا صبح سویرے سوچھ بھارت پروگرام کی آبیاری کے سوا کس کام آسکتا ہے؟خیر اہل کشمیر بے چارے تو اللہ میاں کی گائے ہیں سب کچھ سن سمجھ کر انجان بن جاتے ہیں ۔انہیں لگا ایف آئی آر کوئی چابک ہے ۔ارے بھائی لوگو جب ہوتا تو پتھری بل کا کیس کیوں نہ بنتا۔مژھل کے مقتول پٹھانی سوٹ کا شکار نہ ہوتے۔کنن پوشپورہ کی خواتین اتنے سال بعد بھی نربھیا بننے سے رہ نہ جاتیں۔نیلوفر ، آسیہ اور آصفہ کی روحیں تڑپتیں نہ تڑپاتیں ؎
بانوئے کشمیر نے چابک بہت لگائے
اسپ عدل کو لیکن آئی نہ تیز گامی
ارباب اقتدار و اختیار جو چاہیں سو کریں، ہم انگلی اٹھانے والے کون ہیں؟ہم تو سوال بھی نہیں پوچھ سکتے۔ہماری تو بات نہیں بانوئے کشمیر بھی کسی فہرست میں شامل نہیں بلکہ ان کے والد محترم، بھلے ہی مرد مومن تھے، لیکن کنول برادری کے سامنے ہیچ۔جبھی تو بھری محفل میں غیر ملکی وزیر اعظم نے کہہ ڈالا کہ کشمیر تنازعے پر مجھے کسی کی بات نہیں سننی ۔اور بانوئے کشمیر کو تو پہلے سے شاید معلوم تھا کہ اس شام اسے قوم مخالف گردانا جائے گا، کیونکہ اس نے مملکت خداد سے بات چیت کی غیر ضروری وکالت کی ۔ جس کا ڈر تھا بے دردی وہی بات ہو گئی۔ بھینگی صحافت کے مچھلی بازار میں بات چیت کی بات کر نے پر قلم دواتی اور قطبین کو ملانے والی سیاست کی تکا بوٹی کی گئی ۔ پاکستان نواز وزیر اعلیٰ پر بیان بازی کے خلاف جواباً میزائل داغے گئے ۔سیاسی جسم میں اتنے چھید کئے گئے کہ سیاسی سانس لینے کے لئے کوئی جگہ نہ چھوڑی گئی ۔ کسی نے یہ نہیں کہا شریمتی جی !آپ کے منہ میں گھی شکر ، آپ نے ایجنڈا آف الائنس کا مان رکھا ، قطبین سرکس شو کا مزا بڑھایا، بات چیت نہ کر یں تو کیاجنگ ِایٹم سے اپنا گھر اور ہمسائے کا دراُجاڑ د یں ، آپ کو امن کا نوبیل پرائز ملنا چاہیے ۔ اس کے بجائے زعفرانی صدر حلقہ سے لے کرسنگھٹن کے پردھان نے صلوٰتیں سنائیں ، آدیش دیانوکری کرنی ہے تو چپ چاپ سرجھکائے منہ بند کے کر،و رنہ چلتی بن ۔ اور یاد رکھ ع
تو جھکا جب غیر کے آگے نہ تن تیرا نہ من
خیرجو ہونا تھا ہوگیا۔ مانا کہ بانوئے کشمیر کو از راہ ِ کرم خاتون وزیر جنگ نے اپنا شرف ِ دیدا ربخشا۔ وہ جموں آئی تھیں مملکت خداداد کو دھمکی دینے، چلتے چلتے بانوئے کشمیر کو بھی تھوڑا سا درشن کرا ئے چلیں۔سنا ہے دو خاتون نیتاؤں کے درمیان ہائے ہیلو ، خیریت وعافیت اور موسمی حالات کا سلسلہ ٔ گفتگوچلا۔ اسی دوران بقول راوی ٔ کذب بیان یہ باتیں بھی ہوئیں، آپ بھی سنئے اور سر دھنئے ۔
محبوبہ: جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں
نرملا: آپ کے فرن پر سوزن کاری(تلہ) بہت خوبصورت ہے
محبوبہ: شوپیان میں بہت زیادہ طاقت کا استعمال کیا گیا
نرملا: آپ کے سر پر پرنٹ اسکارف خوب جچتا ہے
محبوبہ: افسپا دھیرے دھیرے ہٹانے کی طرف قدم بڑھانے کی ضرورت ہے
نرملا: یہ جوتی کتنے میں خریدی ہے؟
محبوبہ: یہ پاکستانی برانڈ ہے ، اوڑی کے راستے جو مال آتا ہے، اسی میں سے رعایتی داموں لی۔
نرملا: پاکستان ۔۔۔پاکستان۔۔۔ ہر بات میں پاکستان ۔ بم بارود بھی پاکستانی ، آتنک وادی بھی پاکستانی، جوتے بھی پاکستانی
محبوبہ: دھیرج رکھئے ، آپ کیوں بھڑک گئیں؟
نرملا: اب پتہ چلا پچھلی بار ہمارے ایک نیتا پر جو پاپوش پھینکا گیا وہ ضرور میڈ اِن پاکستان ہوگا۔
………………………..
(رابط[email protected]/9419009169 )
�����