تاریخ گواہ ہے کہ آج سے ۳۹؍ سال پہلے سرزمین ایران ،جہاں مطلق العنان ،جبر،ظلمت ،اندھیری اور بربریت پر استوارپہلوی حکومت کا دبدبہ تھا، جس کا بانی رضا شاہ کبیرجو ایک ظالم ،سفاک اور عیاش پرست انسان تھا ، انسانیت کے لباس میں حیوانیت کا پتلا تھا ،ایران کاحاکم لیکن یورپ کا غلام تھا ۔ رضاشاہ جوعہد قاچاریہ میں فوج کے مختلف عہدوں پر فائز تھا حکمرانی کے نااہل تھا لیکن تاناشاہیت کے خلاف ایرانیوں کے خون سے سینچی ہوئی ابتدائی تحریک ، تحریک مشروطیت جب کامیاب ہوئی تو یہ نااہل رضا شاہ کرسی نشین ہوا،شہنشاہیت اور شہنشاہوں کی تاناشاہی سے نجات خواہاں ایرانیوں کی اُمیدیں ایک بار پھر شاہی طوفانوں کی نذر ہوگئیں جب رضا شاہ نے ڈھائی ہزار سالہ شہنشاہیت کی لاج رکھ کر ایران کو تباہی کے دہلیز پر لاکھڑا کیا۔ملت ایران ایک ایسی ملت تھی جس نے ظلم و بربریت پر استوار شہنشاہیت کے مختلف کھٹن اور تکلیف دہ ادوار دیکھے تھے، ہخامنشیان سے لے کر ساسانی ،سلجوقی ،غزنوی ،مغلیہ ،صفوی اور قاچاری شہنشاہیت میں ایرانی زندگی نے نشیب و فراز والے دنوں کا نظارہ کیا تھا، کبھی نوشیروان عادل کے دنوں کا مزہ چھکا اور کھبی چنگیزیت کے کھٹن اور تلخ لمحات کا سامنا کیا ۔
طلوع اسلام سے لے کرپہلوی دور تک ایرانی ملت کو دین مبین اسلام کی پرورش اس طرح کرنی پڑی جس طرح ایک ماں اپنے شیر خوار بچے کی پرورش کررہی ہے۔ ایران کی سرزمین پر اسلام شیر خوار بچے کے مانند تھا جوشہنشاہیت کے جھاڑیوں میں بڑی دھیمی انداز سے نفس کھینچ رہا تھا ۔ایرانی علماء ،فضلاء ، سادات اور دیگرحامیان اسلام نے انتہائی مشکل اور دشوار ترین راستوں سے گزر کر اسلام کو ان جھاڑجنکاڑ سے باہر نکال لیا اور بڑی جرأ ت مندانہ انداز میں اس کی پرورش کی ،نتیجہ کیا ہوا کہ ایرانی علماء ،ادیب ،مفکر و دانشوروں کی محنت شاقہ ادر اللہ کی مدد سے نور اسلام کی کرنیں پھیلنی شروع ہوگئیں اور نہ فقط ایرانی سرحدوں تک اسلام محدود رہا بلکہ پورے دنیا خصوصاً وسطی ایشیاء میں ایرانی خیر خواہوں کی کاوشوں سے اس کا چرچا ہونے لگا۔یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں آج سینکڑوں سال گزر جانے کے بعد بھی جب ہمارے کشمیر میں تاریخ اسلام کی بات آجاتی ہے تواسلام کے ساتھ ساتھ ایران کا نام بھی ضرور آجاتا ہے، کیونکہ سب سے پہلے اس سرزمین جس کو آج ’’پیروأر‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، ایرانی سادات نے بھی یہاں دین مبین اسلام کی معرفت کرائی اور یہاں کے لوگوں کو مشرف بہ اسلام کرایا ۔اسی طرح پورے وسطی ایشیاء میں بھی انہوں نے دین مبین اسلام کے ساتھ ساتھ فن تعمیر اور کاریگری بھی مفلوک الحال عوام کو سکھائی اور نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان اقتصادی لحاظ سے دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرنے لگے ۔اس کا اثر یہ ہوا کہ اسلام بھی تیزی کے ساتھ منزلیں طے کرنے لگا۔
غرض یہ کہ جب ایران تحریک مشروطیت کی کانا پھوسی شروع ہوگئی ،ہزار ہا سالہ بہارشہنشاہیت پر خزاںاثر انداز ہوا،طویل عرصہ والے قاچاری شہنشاہیت کا ایک ایک حکمران موسم خزان کے پتوں کی طرح گرتے رہے، قاچاری دور کے تمام حکمران عیش پرست تو تھے ہی لیکن آخری حکمران عیش پرست ہونے کے ساتھ ساتھ حکومت کے نااہل بھی تھے جو یورپ جاکر مہینوں تک وہاں عیش و عشرت کی زندگی بسر کررہے تھے اور ایرانی عوام دن بدن نت نئے مشکلات و مصائب سے دوچار ہورہے تھے۔ آخرکار یہ تحریک ’’تحریک مشروطیت ‘‘ کامیاب ہوگئی اور ایران میں آئینی حکومت کی بنیاد پڑ گئی ۔ایرانی عوام نے تحریک کامیاب ہونے پر راحت کی سانس لی اور ڈھائی ہزار سالہ شہنشاہیت کا تابوت نکلنے والا ہی تھا لیکن بیرونی مداخلت نے موقع غنیمت سمجھ کر اس سرزمین پرسوچی سمجھی سازش کے تحت رضا شاہ جیسے مغرب نواز کے سر پر سہرا سجایا جس نے اپنے ابتدائی سالوں میں ہی ظلم و بربریت والی ڈھائی ہزار سالہ ایرانی شہنشاہیت کی لاج رکھی۔ایران کی کمان رضا شاہ کبیر کے ہاتھ میں آگئی جو اس سے پہلے فوج کے مختلف عہدوں پر فائز تھا،اب جب کہ قاچاریوں سے نجات ملنے کے بعد ایرانی عوام کو آئینی حکومت سے امیدیں وابستہ تھیں لیکن ان تمام امیدوں پر مغرب نوازرضا شاہ نے پانی پھیر دیا اور ایران امریکہ کی ہوبہو تصویر بن گیا۔
پہلوی دور میں ایران میں اگرچہ نئی نئی صنعتی یونٹوں کا قیام عمل میں لایا گیا لیکن یہ دور ایران کے تہذیب و تمدن اور اسلامی نظام کیلئے انتہائی کھٹن اور مشکل دور رہاایران مغرب کا غلام بنا اور مغربی تہذیب و تمدن کا اثر ایران کے تہذیب و تمدن پر پڑا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایران میں اسلامی تہذیب پر گہری چوٹ لگی۔اس دور میں ایران کی لگام مغربی ممالک خاص طور پر امریکہ برطانیہ وغیرہ کے ہاتھوں میں رہی جو ایران کے رگوں میں اسلامی حرارت کا خون چوسنے لگے نتیجہ یہ ہوا کہ ایران میں بے پردگی ،منشیات ،بے ہودگی اور عریانیت جیسی بُرائیوں نے جنم لیا جو دیکھتے ہی دیکھتے جنگل کے آگ کی طرح پھیل گئے ۔یہ دور ایسا منحوس دور تھا کہ جس میںعورت کے پردہ پرکج نظری اور علمائے کرام کے عمامہ پر انگلیاں اٹھنا شروع ہوگئیں ، دونوں کے اوپر پستی کی نگاہیں پڑنی شروع ہوگئیں ۔ مدارس ،مساجد،حرموں اور امام بارگاہوں پر مغرب کی کڑی نگاہیں مرکوز تھیں ۔اور سب سے بڑی مصیبت یہ تھی کہ تیل ایران کا اور اس کی قیمت مقرر کرنا مغرب کے سوداگروں کے ہاتھوں میں تھا۔ یوںطرح طرح کے منحوس مصائب و مشکلات ایرانی عوام کو جھیلنے پڑے ۔شاہی حکمران مغرب کے ساتھ تعلقات وسیع سے وسیع کرتے رہے بلکہ ایران مغرب کے اشاروں پر ناچنے لگا اور سرزمین ایران فاحشات و منکرات کے اڈہ میں تبدیل کی گئی تھی ۔
ان تمام مصائب ومشکلات اورنامساعدتوںکے باوجود سرزمین ایران پر ایک ایسا روشن فکر اور صالح طبقہ تھا جو پختہ ایمان کا محور تھا جس کو یہ تاناشاہی برداشت نہیں ہورہی تھی اور دین مبین اسلام سے گہرے محبت و عقیدت کے باعث ان کو دین مبین اسلام کی اصول و قوانین کی پامالی زہریلے خنجر کے وار سے بھی سخت محسوس ہورہی تھی ۔ ان لوگوں نے اس بربریت چنگیزیت اور استکباریت کے خلاف آواز بلند کی اور ایک ہی صف میں جمع ہوکر قیادت تاریخ کے عظیم مجاہد حضرت امام خمینی ؒ کے سپرد کی ۔امام خمینی ؒ کا خانوادہ سینکڑوں سال سے ایران میں اسلام کی ترویج و اشاعت میں پیش پیش رہا تھا۔آپ کے آباو اجداد دین اسلام اور اہلبیتؑ کے حقیقی پیروکار تھے، جنہوں نے مصائب و مشکلات کو برداشت کیا لیکن اسلام کی پیروی ، ترویج و اشاعت میں کسی قسم کی کوتاہی نہ برتی ۔امام خمینی ؒ کی رگوں میں بھی اسلامی جذبہ کا یہی خون دوڑنے لگا۔ انہوں نے اصلاح احوال کے لئے اپنی تحریک میں اپنے پرمغز خطبات اور پیغامات کے ذریعے شدت لائی ،اور روشن فکر طبقہ کی قیادت اور رہنمائی کرنے میں تن من و دھن سے مشغول ہوئے۔ ظلم و بربریت اور ہزاروں برائیوں پر استوار پہلوی حکومت کے کارندوں نے امام خمینیؒ اور آپ کے رفقا ء کے خلاف دائرہ تنگ کرنے کی ہزار ہا کوشیں کی تاکہ امام خمینی ؒ کو ڈرا دھمکا کر اس تحریک کو ناکام بنا دیا جائے۔یہاں تک کہ امریکہ و برطانیہ کی پشت پناہی حاصل کرکے مکار و عیار نام نہاد حکمرانوں نے تحریک کو کچلنے کیلئے ایران میں ایک خوفناک تنظیم ’’ ساواک ‘‘ کووجود بخشا ۔ انہوں نے امام خمینی ؒ سمیت لاکھوں انقلابیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھادئے ،سرزمین ایران پر مظلوم ایرانیوں کے خون کے دریا بہادئے، قیدخانوں کو انقلاب خواہاں سے پر کردیا۔ بالفاظ دیگر انقلابیوں اور اصلاح پسندوں پرظلم و تشدد کی انتہا کردی ۔سینکڑوں علمائے کرام کو بے دردی کے ساتھ شہید کردیا گیا، مدرسہ فیضیہ میں اسلامی طلباء کو تین تین منزلوں سے نیچے گرادیا گیا لیکن امام خمینی ؒ کی قیادت والی اس عوامی تحریک نے ان تمام بدخواہانہ تر کوششوں کے باوجود جھکنے،تھکنے اور رُکنے کا نام تک بھی نہ لیا اور تمام تر مظالم وشدائد کے باوجود انقلاب خواہاں میں روز بروز اضافہ ہوتا رہا ۔
آخر پر ظالم شاہی حکومت عوامی دباؤ کے سامنے مجبور وبے بس ہوگئی ۔اس کے کارندوں نے امام خمینی ؒ کو جلائے وطن کردیا لیکن یہ کوشش بھی حسب سابق ناکام ہوگئی کیونکہ امام خمینی ؒ نے جلائے وطنی کے طویل عرصہ میں بھی ایران کے انقلابی عوام کی رہنمائی اور رہبری بڑی قائدانہ انداز میں کی،خط وکتابت ریڈیو اور لٹریچروغیرہ کے ذریعہ سے ایرانی انقلابی عوام کی پشت پناہی سولہ سالہ طویل جلائے وطنی کے ایام میں برابرکرتے رہے ۔مغرب کی پشت پناہی سے پہلوی حکمرانوں نے بیرون ممالک میں بھی امام ؒ کی خلاف دائرہ تنگ کرنے کی زبردست کوششیں کیں لیکن دائرہ تنگ ہونے کے بجائے ان کی عوامی مقبولیت وسیع سے وسیع تر ہوتی گئی۔ راتوں رات امام خمینی ؒکے پیغامات بیرون ممالک سے ایران کے عوام تک پہنچتے رہے، علمائے کرام اور امام کے رفقاء امام خمینی ؒ کی فکر اور آپ کے پیغامات لوگوں میں تقسیم کرتے رہے۔ ان تمام ایثار پیشہ کاوشوں سے پہلوی حکمرانوں کی ٹانگیں کھسکنی شروع ہوگئیں ، انقلابی تحریک میں جدت اور حرارت آگئی، ایرانی عوام جوق در جوق دل و جان سے انقلابی تحریک کا ساتھ دینے لگے اور امام خمینی ؒ کی بے باک رہبری قبول کرنے لگے ،نتیجہ یہ ہوا کہ انقلاب کا لاوا جابجاپھوٹنے لگا ۔۱۹۷۹ء کے آغا زکے ساتھ ہی تحریک انقلاب تیزی کے ساتھ کامیابی کے مراحل طے کرنے لگا۔انقلاب کے حامی اور قائدین اپنی ذمہ داریاں انجام دیتے رہے۔ لوگ انقلاب کیلئے اپنا خون دینے کیلئے تیار ہوگئے ،ماں اپنے لاڈلوں،باپ اپنے دلاروں کو انقلاب اسلامی پر قربان کرنے کیلئے تڑپنے لگے، دیکھتے ہی دیکھتے ایرانی عوام کے دلوں میں جوش انقلاب دم مارنے لگا ا ۔امام خمینیؒ کی بر محل اور موثر قیادت سے عوامی حمایت کی لہر برق رفتاری سے بڑھتی گئی ۔انقلابی تحریک بیرونی مداخلت اور تمام تر کوششوں کے باوجوتھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی ۔اب امام خمینی ؒ کو واپس ایران لانے کی تیاریاں شروع ہوگئیں ،تما م تر انتظامات مکمل ہوگئے اور یکم فروی کا جلوہ افروز دن تھا کہ ہوائی اڈے سے لے کر بہشت زہرا تک سروں کا سمندر امڈ آیا ۔ہوائی جہاز کے دروازے سے امام کا چہرہ طلوع ہوا، دیکھتے ہی دیکھتے سرزمین ایران کا چپہ چپہ ،نگر نگر ،شہرشہر، گلی گلی منور ہوگئی۔ ’’اﷲ اکبر خمینی ؒ رہبر‘‘ کے نعروں سے سرزمین ایران گونج اٹھی ۔یہ سلسلہ کئی دن تک جاری رہا۔ تحریک نے طوفان کا رخ اختیار کرلیا اور اس طوفان نے ظلم و جور والی شہنشاہیت اور ایران میںاستکباریت اور استعماریت کا وجود ہی حرف غلط کی مانند مٹادیا ۔۱۱ فروری ۱۹۷۹ء کے لمحات تھے جب انقلاب کا سورج بڑی آب و تاب کے ساتھ نمودار ہوا شہنشاہیت ،طاغوتیت،استعماریت اور استکباریت کے بلند و بالا دیوار گر کر نیست و نابود ہوگئی اور سرزمین ایران پر عدل اسلامی پر مبنی حکومت قائم ہوئی۔انقلاب کے بعد ایران میں دینی نظام نافذ ہوا۔ شاہ ایران کہ پشت پناہی کرنے والوںکو شکست اور ذلت کی تھپڑے رسید ہوئے۔
انقلاب ایران کامیاب ہونے کے بعد انقلاب مخالف مکروہ عناصر نے اس کے خلاف مورچہ سنبھالا ۔انقلاب کے آغا ز سے لے کر آج تک دنیائے استکباریت،استعماریت،استعماریت ،صیہونیت و سامراجیت نے لاکھ کوششیں کی حتیٰ کہ اسلامی دنیا کے کچھ مفاد پرست اور خود غرض ممالک نے بھی اسلامی انقلاب ایران کے خلاف سازشیں رچا کر اس نظام پر ضرب لگانے کی کوششیں کی لیکن غیور ایرانی ملت اوربابصیرت قیادت نے ہمت ،حوصلہ ،صبر اور استقامت کے ذریعے ان تمام ناپاک سازشوں کا مقابلہ کیا اورعادلانہ انقلاب کی رونق بحال رہنے اور دینی نظام قائم رہنے کیلئے اس عظیم ملت اورغیورجوانوں نے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور انقلاب واصلاح کے چمن کو اپنے خون سے سیراب کیا۔انقلاب کا توڑ کرنے کیلئے انقلاب کے اوائل میںشیطانی طاقتوں نے عراق کو ایران پر حملہ کرنے کیلئے اُکسایا اور ایران کے خلاف آٹھ سال تک میدان جنگ گرم ہوا لیکن ایران نے ہمت و مردانگی کے ساتھ اس جارحیت کا مقابلہ کیا اور اس سرزمین کو ظلم وجور کی بیرونی آندھیوں سے آزاد کر کے دم لیا ۔ دراصل عراق ایران جنگ انقلاب کے قلعہ پر سوچا سمجھا حملہ تھااور یہ انقلاب کی سا کھ مٹانے کی ایک نامراد کوشش تھی ۔ انقلاب ایران نے دنیا بھر کے ظلم و بربریت پر استوار ایوانوں کو لرزہ بر اندام کیا تھا، دنیا بھر میں انقلاب ایران نے ہلچل مچادی تھی ،مظلوموں نے راحت کی سانس لی تھی، ظلمت اور بربریت کے خلاف دائرہ تنگ ہوگیا تھا ۔بیت المقدس کے غاصبوں کی نیندیں حرام ہوگئی تھیں ۔یہی وجہ تھی کہ انقلاب کا توڑ کرنے کیلئے سامراجیت ،استکباریت اور صیہونیت کے پجاری ایران کے خلاف ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے تھے اور انقلاب کی فلک بوس فصیلوں پر مسلسل حملہ کرتے رہے مگر وہ اس کا بال بھی بیکا نہ کرسکے ۔
حقیقت یہ بھی کہ ایران کو بدنام کرنے کی کوشش میں دنیا بھر کا میڈیاآج بھی اپنا منفی رول نبھا رہا ہے ۔ ابھی کچھ دنوں پہلے کی بات ہے کہ ایران میں مہنگائی کے خلاف معمولی سااحتجاج ہوا جس کو بڑھا چڑھا کر اور توڑ مروڑ کرکے پیش کیا گیا تاکہ اس ملک کی شبیہ کو دھچکا لگے ۔ انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ حقیقتوں کو مسخ کر نے میں کوئی کسر نہ چھوڑی گئی ۔
ماہ فروری میں ہرسال اسلامی جمہوریہ ایران کے صالح انقلاب کی یادیں لوگوں میں تازہ ہوتی ہیں ۔ اس ملک کی مدبرانہ قیادت اور باشعور شہریوں کی کاوشوں ،عزم واستقلال اور ہمت وحوصلہ کی داد دینا پڑتی ہے کہ یہ انقلاب دن بدن ترقی کی منزلیں تیزی کے ساتھ طے کرتا جارہا ہے ۔اسی انقلاب کی ایک کرن لبنان کی سرزمین پر پڑی جہاں کے جیالوں نے ۳۳؍ دن طویل جنگ میں فوجی طاقت سے لیس غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے منہ پر شکست کی کالک تھوپ دی ۔ انقلاب ایران کی صالح قیادت نے ہمیشہ بلا کسی تمیز مسلک ومشرب ان کی پشت پناہی نہایت ہی مشفقانہ انداز میں کی ۔ آج کی تاریخ میں مسلمانوں میںاسرائیل و امریکہ جیسے فرعون ِوقت کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت پیدا ہوگئی ہے وہ اسی انقلاب کا ثمرہ ہے ۔یہ انقلاب کسی خاص فرقہ یا قوم و ملت کی کامیابی نہیں بلکہ طاغوت کے مقابلے میں اسلام اور مسلمانوں کی عظیم کامیابی ہے جس کے بدولت آج بھی مومنین کا سر فخر سے اونچا ہے ۔