سرینگر//سرحدی ضلع کپوارہ کے مضافاتی علاقے کنن پوش پورہ میں 27سال قبل اجتماعی جنسی تشدد کی چیخیں آج تک خاموش نہیں ہوئیں ہیں۔ اس سانحہ میں متاثرہ خواتین کے لئے آج بھی 23فروری 1991کا وہ دن کسی ڈراونے خواب سے کم نہیں ہے۔ متاثرہ خواتین کو جب آج بھی اُن لمحات کی یاد آتی ہے تو انکے رونگھٹے ہی نہیں بلکہ نس نس کھڑے ہو جاتے ہیں اور خشک آنکھیں اشک بار ہوتی ہیں ۔ متاثرین کا کہنا ہے کہ 28 برس گزر جانے کے باوجود ابھی تک درجنوں خواتین حصول انصاف کی منتظر ہیں لیکن قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں خاموش نظر آرہی ہیں ۔ تاریخ کے اس بدترین سانحہ نے جہاں حصول انصاف کے اداروں پر سوالیہ نشان لگا دیا،وہیں سیاست دانوں کو بھی کٹہرے میں کھڑا کیا ہے ۔ حقوق انسانی کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس واقعے کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ رہی کہ سرینگر سے لیکر دہلی تک حفاظتی ایجنسیوں اور سیاسی جماعتوں نے کھبی بھی شرمساری کا اظہار نہیں کیا ۔2013میں امور خارجہ کے سابق وزیر سلمان خورشید نے سرینگر دورے کے دوران کنن پوشہ پورہ میں پیش آئے واقعے پر کہا تھا’’ میں کیا کہوں؟میں صرف یہ کہہ سکتا ہو ںکہ میں اس پر شرمسار ہوںکہ یہ واقعہ میرے ملک میں پیش آیا،میں معذرت خواہ اور حیران ہو ںکہ یہ میرے ملک میں پیش آیا‘‘۔سلمان خورشید پہلے مرکزی وزیر تھے،جنہوں نے اجتماعی عصمت ریزی کے اس واقعے کانہ صرف اعتراف کیا بلکہ معافی بھی طلب کی تھی۔
معاملہ پریم کورٹ میں
2015میں کئی طالبات نے اس کیس کو اس وقت نئی جلا بخش دی جب انہوں نے ریاستی ہائی کورٹ میں مفاد عامہ کے تحت ایک اپیل دائر کرکے کیس کی سر نو تحقیقات کے حق میں آواز بلند کی اور بعد میں سپریم کورٹ تک معاملے کوپہنچایا ۔27جون 2016کوسانحہ کنن پوشپورہ کی تحقیقات پر روک لگوانے کیلئے فوج نے وزارت دفاع کے ذریعے سپریم کورٹ آف انڈیا سے رجوع کیا ۔ 18جون 2013کو جوڈیشل مجسٹریٹ کپوارہ نے پولیس کو یہ ہدایت دی تھی کہ کنن پو ش پورہ میں پیش آئے اجتماعی آبرو ریزی اور ٹارچر کے واقعہ کی تحقیقات عمل میں لائی جائے جبکہ اس حوالے سے ریاستی انسانی حقوق کمیشن نے اپنی طرف سے ایسی ہی سفارش کی تھی ۔ اس سلسلے میں متاثرہ خواتین نے حقوق انسانی کمیشن اور عدالت سے رجوع کیا تھا جبکہ ریاستی ہائی کورٹ میں اس حوالے سے تین الگ الگ عرضیاں زیر سماعت ہیں۔ ریاستی ہائی کورٹ نے کنن پوش پورہ سانحہ کی تحقیقات کے احکامات صادر کئے جانے سے متعلق کپوارہ کی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھا جبکہ دسمبر 2014میں ریاستی سرکار نے ہائی کورٹ فیصلے کو سپریم کورٹ آف انڈیا میں چیلنج کیا اور عدالت کی طرف سے متاثرہ خواتین کو معاوضہ فراہم کرنے سے متعلق ہدایت پر روک لگانے کی درخواست کی تھی ۔ اس وقت حکومت ہند نے اس بارے میں پٹیشن کا کوئی جواب نہیں دیا تھا ۔ 13مئی 2016کو فوج کی طرف سے تازہ پٹیشن سپریم کورٹ میں دائر کی گئی اور عدالت عظمیٰ نے اس مرتبہ عرضی کی سماعت عمل میں لاتے ہوئے دو الگ الگ عرضیوں کو یکجا کرکے سماعت آگے بڑھانے کا فیصلہ لیا ۔ وزارت دفاع نے عدالت عظمیٰ میں یہ بتایا کہ اصل میں کنن پوش پور ہ کپوارہ میں ہوئی عصمت دری کو فوج کو بدنام کرنے کیلئے اٹھایا جارہا ہے اور یہ سراسر پروپگنڈا ہے۔وزارت دفاع نے فوج کا دفاع کرتے ہوئے بتایا کہ وادی میں ملی ٹنسی مخالف کارروائیوں میں سرگرم عمل فوج کو بدنام کرنے کیلئے یہ سب کچھ کیا جارہا ہے۔4دسمبر2017کو سپریم کورٹ نے جموں کشمیر حکومت کی طرف سے ریاستی ہائی کورٹ کے اس فیصلے کہ کنن پوشہ پورہ کے متاثرین کو کو معاوضہ فرہم کیا جائے،کے خلاف سماعت کی اپیل کو منظوری دی۔جسٹس جے چلشمیور اور جسٹس سنجے کشن کول پر مشتمل بینچ نے کہا کہ تمام عبوری احکامات جاری رہیں گے،جبکہ ریاستی حکومت کی طرف سے ہائی کورٹ کے مختلف احکامات سے متعلق سماعت کو تیز کرنے کی ہدایت دی گئی۔اس دوران ریاستی ہائی کورٹ کی طرف سے کنن پوشہ پورہ کے متاثرین کو معاوضہ دینے اور تحقیقات پر بھی مسلسل حکم امتناع جاری رکھا گیا۔
متحرک گروپ
2016میںمتحرک گروپ میں شامل نصف درجن لڑکیوں کی طرف سے تحریر شدہ کتاب ’کیا آپکو کنن پوش پورہ یاد ہے ‘ منظر عام پر لائی گئی ۔ متاثرین کے رشتہ داروں نے بتایا کہ ان لڑکیوں نے تاریخ کو ایک مرتبہ پھر زندہ کیا جبکہ اس بات کی وضاحت بھی کی کہ نوجوان نسل جھنڈا اٹھا کر اپنے حقوق کی خاطر لڑنے کیلئے تیار ہے ۔ انہوں نے کہا ’’ یہاں زبانیں ترس رہی ہے داستان کے لئے، تاہم ان نوجوان لڑکیوں نے کنن پوش پورہ کی جو روئیداد عوام اور لوگوں کے سامنے لائی وہ قابل تحسین ہے ‘‘۔ کنن پوشہ پورہ اجتماعی عصمت ریزی متاثرہ خواتین کو انصاف فراہم کرنے والی لڑکیوں کے گروپ میں شامل اورکتاب کی ایک مصنفہ نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا ہم نے’’ دریا کے مخالف سمت میں تیرنے کا ارادہ کیا تاکہ کنن پوش پورہ کی خواتین کو انصاف مل سکے‘‘۔ کتاب کی ایک اور مصنفہ، جس نے اس کیس سے متعلق عدالت میں پیش کی گئی عرضی کا مسودہ بھی تیار کیا تھا نے کہا ’’ کنن پوش پورہ کا واقعہ ایک منصوبہ بند واقعہ تھا جس کے دوران خواتین کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ انہوں نے کہاکہ فوج کے بیانات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جو کچھ بھی کیا گیا اسکا منصوبہ پہلے ہی تیار کیا گیا تھا‘‘ ۔ کولیشن آف سیول سوسائٹی کے سنیئر رکن خرم پرویز کا کہنا ہے’’ فوج نے اپنی آخری کوشش کے تحت سپریم کورٹ آف انڈیا سے رجوع کیا ہے کیونکہ متاثرین کی طرف سے انصاف کی تلاش میں کی جارہی جدوجہد سے فوج کے حکام پریشان ہیں ۔ انہوںنے بتایاکہ اب جبکہ یہ معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچ گیا ہے تو کنن پوش پورہ کی متاثرین خواتین اپنا جواب سپریم کورٹ میں پیش کر رہی ہیں تاکہ آبرو ریزی کے مرتکب ہوئے فوجی اہلکاروں کے خلاف انصاف کی لڑائی کو آگے لیجایا جاسکے‘‘۔
روئیداد متاثرین
سانحہ کنن پوشہ پورہ کے واقعے کو پورا ہوئے اگرچہ27برس گزر چکے ہیں،تاہم اب تک اس واقعے میں متاثر ہوئے لوگ انصاف کے اداروں سے منتظر ہے۔ متاثرین میں شامل ایک خاتون نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انتخابات کے دوران وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے جب علاقے کا دورہ کیا تھا تو انہوں نے وعدہ کیا تھا ’’کنن پوشہ پورہ کے متاثرین کو انصاف فرہم کیا جائے گا،تاہم وہ اپنا وعدہ فراموش کر گئیں ۔ انہوں نے اپنی آنسو پونچھتے ہوئے کہا کہ انہیں خاتون وزیر اعلیٰ سے یہ امید نہیں تھی،کیونکہ وہ خود ایک خاتون ہیں اور خواتین کا درد سمجھ سکتی تھی۔ ایک اور متاثرہ خاتون نے بتایا کہ انہیں معاوضے کی طلب نہیں بلکہ انہیں عزت اور انصاف چاہے۔متاثرہ خاتون نے بتایا کہ حکومت دانستہ طور پر تاخیر کرنا چاہتے ہیں تاکہ ایک ایک کر کے تمام چشم دید گواہ مر جائیں اور اس کیس کو آگے لئے جانے والا کوئی نہیں ہو،تاہم یہ نسل میں منتقل ہوچکا ہے۔ کنن پوشہ پورہ کے ایک شہری نے بتایا کہ دسمبر2016میں متاثرین نے وزیر اعلیٰ سے ملاقات کی تھی اور انہیں درخواست پیش کر کے اپنا وعدہ یاد کرایا تھا،تاہم ایک سال گزر جانے کے بعد بھی ابھی تک کوئی بھی پیش رفت نہیں ہوئی۔ انہوں نے اس بات کا انکشاف کیا کہ اس سانحہ میں متاثر ہوئیں25خواتین کی جراحی آج تک عمل میں لائی گئی ہے اور حکومت و انتظامیہ سے یہ بن نہ سکا کہ وہ متاثرین کو علیحدہ طور پر طبی امداد فرہم کرنے کی سبیل کرتے۔