سرینگر//مشترکہ مزاحمتی قیادت نے کہا ہے کہ جموں کے کھٹوعہ علاقے میں 8 برس کی کمسن بچی کی عصمت ریزی اور قتل میں مجرموں کو بچانے کیلئے مخلوط سرکار میں شامل بھاجپا پر درپردہ پشت پناہی کررہی ہے۔سید علی گیلانی، میر واعظ عمر فاروق اور محمد یاسین ملک نے آبی گذر میں احتجاجی مظاہرین سے براہ راست یا ٹیلی فونک خطاب میں کہا کہ جس واقعہ سے انسانیت شرمسار ہوئی ہے اس میں ملوثین کو بھاجپا بچانے کی کوشش میں ہے۔
سید علی گیلانی
سید علی گیلانی نے کہا کہ ایک معصوم بچی کا خون انتہائی بے دردی سے بہایا گیا،جبکہ اس سانحہ نے انسانیت کو شرمسار کیا۔ گیلانی نے آصفہ کے لواحقین کے ساتھ یکجہتی کے طور پر برآمدہ احتجاجی مظاہرے سے ٹیلیفونک خطاب کرتے ہوئے فرقہ پرستوں کی جانب سے قاتلوں کے حق میں ریلی نکالنے کی بھی مذمت کی ہے۔ گیلانی نے کہا ’’ وردی پوشوں نے ایک ننھی کلی کو اپنی حیوانیت کا نشانہ بناکر کھلنے سے پہلے ہی مسل دیا،اور ایک ہفتہ تک عصمت ریزی کی اور پھر بے دردی کے ساتھ قتل کردیا جو ایک کھلی درندگی اور وحشیانہ حرکت ہے‘‘۔ انہوں نے سوالیہ انداز میں پوچھا ’’ اگر جموں انتظامیہ اور پولیس لاپروائی اور غیر ذمہ داری کا رویہ اختیار نہ کرتی تو اس عظیم سانحہ کو روکا جاسکتا تھا ، برعکس اس کے اس واقعے کی تحقیقات اور معصوم بچی کو بازیاب کرنے کے لیے ان ہی لوگوں کو تعینات کیا گیا جو اس میں ملوث تھے۔سید علی گیلانی نے کہا کہ اگر چہ اس واقعے کی سب لوگوں نے یک زباں میں مذمت کی،تاہم ’’ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ممبر اسمبلی کی قیادت میں ہندو ایکتا مورچہ کی ریلی ان قاتلوں کے حق میں برآمد کی گئی، جو پوری انسانیت پر ایک بدنما داغ ہے‘‘۔گیلانی نے کہا ہم انسانیت کے ناطے ریاست کے اندر بالخصوص صوبہ جموں میں رہنے والے غیر مسلم بھائیوں اور بھارت کے انسانی حقوق کے تحفظ کا دعویٰ کرنے والے اداروں اور دانشور طبقہ سے دردمندانہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ کٹھوعہ کی معصوم آصفہ کو اغوا کرنے کے بعد جنسی زیادتی کا شکار بناکر قتل کرنے والے درندہ صفت مجرمین کو قرار واقعی سزا دلانے کے لیے اُسی طرح آگے آئیں جس طرح یہ لوگ آج سے چند برس قبل دہلی میں ایک معصوم بیٹی دامنی کے واقعے میں آئے تھے۔
میرواعظ عمر فاروق
میرواعظ عمر فاروق ،جنہیں رہائشی طور پر نظر بند رکھا گیا تھا،نے بھی ٹیلی فونک خطاب کے دوران قتل اور عصمت ریزی میں شامل مجرمین کے حق میں ریلی نکالنے کی سخت الفاظ میںمذمت کی۔میرواعظ نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ اس شرمناک واقعے کی خصوصی سطح پر تحقیقات کرانے کے بجائے مخلوط سرکار میں شامل’’بی جے پی‘‘ واقعے میں ملوث مجرمین کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔انہوں نے کہا ’’ یہ کس قدر شرم کی بات ہے کہ ایک جانب اس معصوم بچی کے ساتھ زیادتی ہوئی اور اس کے لواحقین کو انصاف فراہم کرنے کے بجائے یا مجرموں کو قانون کے کٹھہرے میں کھڑا کرنے کے بجائے بی جے پی والے کھلے عام نہ صرف قاتل کی پشت پناہی کررہے ہیں بلکہ’’ ہندو ایکتا منچ‘‘ کے بینر تلے فرقہ پرستوں کی طرف سے اس پورے علاقے میں پوری گجر برادری کو ہراساں کیا جارہا ہے‘‘۔انہوں نے کہا کہ گجر برداری کو خوفزدہ کرکے ڈرایا دھمکایا جارہا ہے حتیٰ کہ ان کے ساتھ بائیکاٹ کرنے کی بھی باتیں کی جارہی ہیں اور اس واقعہ کو جس طرح فرقہ وارانہ رنگ دینے کی مذموم کوشش کی جارہی ہے۔
یاسین ملک
احتجاجی مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے محمد یاسین ملک نے اس بات پر برہمی کا اظہار کیا کہ مزاحمتی جماعتوں کو کسی بھی جگہ جمع ہونے یا میڈیا سے بات کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی،جس کی وجہ سے وہ سڑکوں پر ہی میڈیا کے ساتھ بات کرتے ہیں۔ فرنٹ چیئرمین نے کہا کہ سید علی گیلانی کو گھر میں کئی برسوں سے مسلسل بند رکھا گیا ہے اور حکومت کو ان سے خوف ہے۔انہوں نے کہا’’90سال کے سید علی گیلانی جو علیل بھی ہیں،کو کئی برسوں سے خانہ نظر بند رکھا گیا ہے،جو اس بات کی عکاسی ہے کہ حکومت کس حد تک ان سے خوفزدہ ہے‘‘ انہوں نے آصفہ یوسف کے قتل کو بیہانہ قرار دیتے کہا کہ اس واقعے سے انسانیت شرمسار ہوئی۔ ملک نے کہا کہ پورے جموںکے مسلمانوںکو عدم تحفظ کا شکار بنایا جارہا ہے اور کٹھوعہ میں پیش آئے اس شرمناک واقعہ کے بعد وہاں عجیب صورتحال پیدا کی جارہی ہے۔انہوں نے کہا’’ مسلمانوں اور گجر برادری کو ڈرایا دھمکایا جارہا ہے ان میں خوف و ہراس پیدا کیا جارہا ہے اور ہندو انتہا پسندوں کی چھتر چھایا میں چل رہی جماعت ’’ہندو ایکتا منچ‘‘ جس دیدہ دلیری کے ساتھ اس واقعہ میں ملوث قاتل کی حمایت میں مظاہرے کررہی ہے اور کٹھوعہ کے گجر برادری کے ساتھ ترک تعلق کی دھمکیاں وہ حکمرانوں کی ذہنیت کا منہ بولتا ثبوت ہے‘‘۔وزیر اعلیٰ کا نام لئے بغیر محمد یاسین ملک نے’’گلی کوچوں میں اسلامی لباس پہن کر نکلنے والے لیڈروں نے کہا تھا،ہم مجاہدین کی حفاظت کریں گے،تاہم انکی حکومت میں قاتلوں کے حق میں جلوس بر آمد کئے جا رہے ہیں‘‘۔
کیس کی سی بی آئی کو سپردگی
محبوبہ کی کرسی کیلئے ایک اور قسط ہوگی:عمر
بلال فرقانی
سرینگر// سابق وزیر اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کار گزار صدر عمر عبداللہ نے کھٹوعہ میں کمسن آصفہ کے قتل اور آبروریزی کا کیس مرکزی تفتیشی ادارے’’سی بی آئی‘‘ کو سپرد کرنے کی مخالفت کی ہے۔کھٹوعہ کی کمسن معصوم آصفہ کے قتل اور عصمت ریزی کے کیس کو سینٹرل بیورو آف انوسٹگیشن کو سپرد کرنے کی رپورٹوں پر عمر عبداللہ نے جمعرات کو وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ اگر اس کیس کو مرکزی تفتیشی ادارے’’سی بی آئی‘‘ کے سپرد کیا گیا تو’’ یہ محبوبہ مفتی کی طرف سے وزیر اعلیٰ بنے رہنے کی قیمت کی ایک اور قسط ہوگی‘‘۔ سابق وزیر اعلیٰ نے سماجی رابطہ گاہ ٹیوٹر پر تحریر کیا’’ یہ کیس جموں کشمیر پولیس سنبھال رہی ہے،اگر محبوبہ مفتی ،یہ کیس’’سی بی آئی‘‘ کو سپرد کرنے پر راضی ہوتی ہے،تو یہ اس قیمت کی ایک اور قسط ہوگی،جو وہ وزیر اعلیٰ بنے رہنے کیلئے چکا رہی ہیں‘‘۔ آصفہ کی عصمت ریزی اور قتل کے کیس کی تحقیقات فی الوقت ریاستی پولیس کا کرائم شعبہ کر رہا ہیں،جنہوں نے اس کیس میں ایک کلیدی ملزم اور ایس پی ائو دیپک عرف دیپو کو حراست میں لیا ہے۔
پروفیسر ویشنوی ا ور عیسائی پادری برہم
کہا ریاست اخلاقی طور پر دیوالیہ نہیں
نیوز ڈیسک
سرینگر //معروف ماہر تعلیم اور پنڈت لیڈر پروفیسر ویشنوی نے اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ریاست سیاسی طور پر پریشان ہے،اخلاقی طور پر نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ریاست میں کوئی محفوظ ہیں وہ فورسز اور فوج کی وجہ سے نہیں،بلکہ آپسی روا داری اور یکجہتی کی و جہ سے ہے۔ ویشنوی نے کہا کہ اگر جرائم پیشہ افراد کی نشاندہی کی گئی تو سرکار کو فوری طور پر اس سلسلے میں کارروائی عمل میں لائی جانی چاہے۔انہوں نے کہا کہ اگر کوئی سیاسی یا مذہبی جماعت اس طرح کے واقعات میں ملوث افراد کے حق میں ریلی برآمد کرتی ہے،تو وہ ان پر ایک بدنما داغ ہے۔عیسائی پادری وینو نے واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اس طرح کے’’ شیطانی فعل‘‘ کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کریں۔انہوںنے یقین دہانی کرائی کہ عیسائی برداری اس سلسلے میں ہر ممکن تعاون پیش کرے گی۔