Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
جمعہ ایڈیشن

ہر منصب خدائی امانت

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: February 23, 2018 1:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
20 Min Read
SHARE
 کسی بھی معاشرہ کو ظلم و زیادتی سے پاک کرنے ، اس میں باہمی اعتماد و اعتبار ،عدل و انصاف اور امن و سکون کی فضا قائم کرنے میں جن اقدار کا اہم رول ہوتا ہے ان میں سے ایک ا مانت داری بھی ہے۔ یہ ایک ایسی بنیادی قدر ہے جسے کسی سماج کے ہر ایک فرد کے اندر پیدا کئے بغیر اس سماج کو خوف، عدم اعتمادی، خیانت، دھوکہ دھڑی اور ظلم و زیادتی جیسی برائیوں سے پاک نہیں کیا جاسکتا اور تمام طرح کی مالی فراوانی اور دنیوی وسائل کی موجودگی کے باوجود اس میں چین و سکون اور عافیت کی زندگی گزارنا ممکن نہیں بنایا جاسکتا۔اس لئے ہر دور اور ہر معاشرہ میں خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب اور تہذیب سے ہو ، امانت داری کو پسند کیا گیا ہے۔اسلام چونکہ دین فطرت ہے اور دنیا کو زندگی گزارنے کے لئے ایک بہتر جگہ بنانا (To make the world a better place for living) اس کے مقاصد میں سے ہے اس لئے انسانیت کی اس ضرورت کا خیال رکھتے ہوئے اس میں امانت داری کو ایک اہم مقام عطا کیا گیا ہے ۔جناب رسول اللہ ﷺ نے امانت داری کو ایمان کا لازمی جزو قرار دیا ہے ۔آپؐ  اکثر وبیشتر اپنے خطبوں میں فرمایا کرتے  : ’’ اس کا کوئی ایمان نہیں جو امانتدار نہیں اور اس کا کوئی دین نہیں جو عہد کا پورا نہیں ‘‘۔ (مشکوٰۃ،کتاب الایمان ، بروایت انسؓ)۔قرآن کریم میں بھی امانت کی ادائیگی پر سخت تاکید کی گئی ہے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ترجمہ: ’’بے شک اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں انہیں پہنچاؤ اور جب لوگوں کا فیصلہ کرو تو عدل و انصاف سے فیصلہ کرو،یقیناً وہ بہتر چیز ہے جس کی نصیحت تمھیں اللہ کررہا ہے ،بے شک اللہ سنتا ہے دیکھتا ہے‘‘۔ (النسآء:۵۸)۔نیز فرمایا:  ’’بیشک اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا‘‘۔(الانفال ۸:۵۸)۔اس کے ساتھ ہی امانت داروں کے لئے قرآن میں جنت کی بشارت دی گئی ہے جو بڑی کامیابی کی ضمانت ہے۔ارشاد ہے : ’’اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی حفاظت کرنے والے ہیں، اور وہ جو اپنی گواہیوں پر قائم رہنے والے ہیں، اور وہ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرنے والے ہیں، یہی لوگ ( بہشت کے) باغات میں مکرم و معزز ہوں گے‘‘۔(المعارج:۳۲-۳۵)۔
ان ارشادات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ صفت امانت داری اللہ اور اس کے رسولﷺ کے نزدیک کتنی اہم اور پسندیدہ چیز ہے ۔لیکن دوسری اقوام کا تو کیا گلہ کیا جائے ، خودمسلمانوں کے اندر اب یہ صفت عنقا ہوتی جارہی ہے۔ عوام تو عوام ، تعلیم یافتہ اور خواص کے طبقے میں بھی یہ صفت ناپید ہوتی جارہی ہے جس کی وجہ سے پورا معاشرہ فساد ات کی نذر ہو تا جارہا ہے ۔ اس کی ایک بڑی وجہ جہاں اللہ اور اس کے رسولﷺ کے احکام کے تئیں ہماری عدم وفاداری اور اسلامی اقدار سے ہماری مجرمانہ روگردانی ہے وہیں اس کی دوسری وجہ اسلامی تعلیمات سے دوری کی وجہ سے امانت داری کا ناقص فہم و تصور بھی ہے۔عام طور پر امانت اس چیز کو کہتے ہیں جس کا کسی کو ذمہ دار اور امین بنایا جائے یاجس کے سلسلہ میں کسی پر اعتبار کیا جائے۔اس لئے  امانت داری کے سلسلہ میں  لوگوں کا ذہن صرف اس طرف جاتا ہے کہ اگر کسی نے کچھ روپیہ یا مال و اسباب یا دیگر کوئی اور چیزہمارے پاس رکھ چھوڑا ہے توہم اس کے امین ہیں اور جب وہ اسے طلب کرے تو بلاکسی کمی کے ہم اسے واپس کردیں ۔ بلاشبہ یہ بھی امانت داری ہے لیکن اسلام میں امانت داری کا تصور یہیں تک محدود نہیں ہے بلکہ انسانی زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہے۔’امانت‘ دراصل ایک وسیع مفہوم کا حامل لفظ ہے جس کے دائرہ میںاللہ کے وہ تمام حقوق بھی آتے ہیں جو بندوں پر عائد ہیں جیسے نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، کفارہ، نذر وغیرہ اور بندوں کے آپس کے وہ تمام حقوق بھی شامل ہیں جو ایک دوسرے پر عائد ہیںجنہیں حقوق العباد کہاجاتا ہے۔اس فکر پر سورۃ الانفال کی آیت نمبر ۲۷ دلالت کرتی ہیجس کا ترجمہ اس طرح ہے: ’’اے ایمان والو! خیانت نہ کرواللہ کی اور رسولؐ کی اور خیانت نہ کرو اپنی امانتوں میں جب کہ تم جانتے ہو‘‘۔یہاں اللہ اور رسولؐ کی خیانت کرنے سے باز رہنے سے مراد ان کے حقوق کو تلف کرنے سے باز رہنا ہے۔درحقیقت انسان کامال واسباب ، اس کی صحت و تندرستی بلکہ پوری زندگی ہی اللہ کی امانت ہے کیوں کہ اللہ کا ارشاد ہے۔ترجمہ : ’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے ان کی جانوں اور ان کے مالوں کو اس بات کے عوض خرید لیا ہے کہ ان کو جنت ملے گی‘‘۔(التوبۃ:۱۱۱)۔جب جان اور مال دونوںبک گئے تواب جو یہ چیزیںہمارے پاس موجود ہیں وہ اللہ کی امانت ہی ہوئیں اور اللہ نے اپنی عنایت سے ان میں تصرف کا اختیار دیا ہوا ہے تو ان میں اللہ کی منشاء کا خیال رکھنا واجب ہے۔
 اسی طرح امانت داری کا اطلاق سیاسی اور انتظامی امور میں بھی ہے؛ ہر چھوٹا بڑا عہدہ امانت ہے اور ایک کلرک سے لے کر صدر مملکت تک ہر چھوٹے بڑے حکام، ملوک، رؤسا، وزراء سب امانتدار ہیں ، ان پر لازم ہے کہ جو عہدے انہوں نے اپنے ذمہ لئے ہیں ان کی ذمہ داری شریعت اسلامیہ کے دئے گئے اصولوں کی روشنی میں پوری کریں، ان سے عوام کے جو حقوق وابستہ ہیں ان کا خیال رکھیں اور ان میں کسی قسم کی خیانت نہ کریں۔ ان میں جو کوئی بھی خیانت کا مرتکب ہوگا ، گنہگارٹھہرے گا اور بوقت حساب پکڑا جائے گا۔اسی طرح مسجدوں کے متولی، امام و مؤذن،مدرسوں کے مدرسین و مہتمم،عصری تعلیمی اداروں کے اساتذہ و سربراہان، دار القضاء کے قاضی، بیت المال کے نگراں ، اوقاف کے ذمہ داران ، فلاحی اداروں کے سکریٹری و منتظمین یہ سب امانتدار ہیں۔ان سب پر یہ لازم ہے کہ اپنے دائرہ اختیار میں آنے والی ذمہ داریوں کو حسن و خوبی کے ساتھ ادا کریں بصورت دیگر اللہ کے سامنے جوابدہی کے لئے تیار رہیں۔
عہدوں کاا مانت ہونا صرف منطقی طور پر ہی نہیں بلکہ رسول پاکﷺ سے صراحتاً بھی ثابت ہے۔ مشہور صحابی ابوذرؓ نے ایک بار آپؐ سے امارت (سرکاری عہدہ) کی خواہش ظاہر کی تو آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’ اے ابوذرؓ! تو کمزور ہے اوربلاشبہ یہ (امارت) امانت ہے اور یہ قیامت کے دن کی رسوائی اور شرمندگی ہے سوائے اس شخص کے جس نے اس کے حقوق پورے کئے اور اس سلسلہ میں جو ذمہ داریاں اس پر عائد تھیںاس کو ادا کیا‘‘۔(صحیح مسلم،کتاب الامارۃ، بروایت ابوذرؓ)۔اس حدیث میںرسول اللہﷺ نے نہ صرف عہدوں کو امانت بتایا بلکہ اس بات کی طرف اشارہ بھی دیا کہ جو شخص کسی منصب کی متعلقہ ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہواسے اس منصب سے باز رہنا چاہیے کیوں کہ آخرت میں وہ اس کی رسوائی کا سبب بن سکتا ہے۔بروز جزا اللہ رب العزت ایک ایک عہدہ دار اور ذمہ دار سے اس کی ذمہ داریوں کے سلسلہ میںحساب لینے والا ہے۔نبی کریمؐ کا ارشاد ہے ۔ ترجمہ: ’’تم میں سے ہر شخص نگراں ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اس کے ماتحتوں کے بارے میںسوال کیا جائے گا؛ لوگوں کا حکمراں ان کا نگراں ہے اور اس سے ان لوگوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا، اور آدمی اپنے گھر والوں کا نگراں ہے اس سے ان کے بارے میں سوال کیا جائے گا، اورعورت اپنے شوہر کے گھر کی اور اس کی اولادکی نگراں ہے اس سے ان کے بارے میںسوال کیا جائے گا، اور آدمی کا غلام( خادم) اپنے آقا کے مال کا نگراں ہے اس سے اس کے بارے میں سوال کیا جائے گا،پس تم میں سے ہر ایک شخص نگراں ہے اوراس سے اس کے ماتحتوں کے بارے میںسوال کیا جائے گا‘‘۔ (صحیح ابن حبان، کتاب السیر، بروایت عبداللہ بن عمرؓ)۔ایک دوسری حدیث میں ان سوالات کی نوعیت کو بھی واضح کردیا گیا ہے۔آپؐ نے فرمایا : ’’بے شک اللہ تعالیٰ ہر نگراں سے اس کی نگرانی کے بارے میں سوال کرے گا کہ کیا اس نے اس کی حفاظت کی ہے یا اسے ضائع کردیا ہے‘‘۔ (صحیح ابن حبان، کتاب السیر، بروایت انسؓ)۔
معاشرتی، سیاسی اور انتظامی امور میں امانت داری کا یہی وہ تصور ہے جو اسلامی اور غیر اسلامی معاشرت و نظام حکومت میں امتیاز پیدا کرتا ہے۔اسلامی نظام میں جہاں عہدے اور ذمہ داریاں امانت تصور کئے جاتے ہیں وہیں غیر اسلامی نظام میں انہیں مراعات (Privilege) سمجھا جاتا ہے جو خدا کے سامنے جوابدہی کا تصور نہیں ہونے کی وجہ سے لازماً خیانت کی طرف لے جاتا ہے۔ حکومتی عہدوں میں رہ کر جو لوگ عدل و انصاف کا معاملہ نہیں کرتے،عوام کے جو حقوق ان سے وابستہ ہیں انہیں ادا نہیں کرتے اور ان کے ساتھ احسان و خیرخواہی کا معاملہ نہیں کرتے ان کے سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کے ارشادات بہت سخت ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: ’’جب اللہ تعالیٰ کسی بندہ کو کسی رعیت کا حاکم بناتا ہے اور وہ خیرخواہی کے ساتھ اس کی حفاظت نہیں کرتاتو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا‘‘۔ (صحیح بخاری، کتاب الأحکام، بروایت معقل بن یسارؓ)۔ ایک روایت میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’ ’ اگر کوئی شخص مسلمانوں میں سے کچھ لوگوں کا والی (حاکم) بنایا گیا اور اس نے ان کے معاملہ میں خیانت کی اور اسی حالت میں مرگیا تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت کو حرام کردیتا ہے‘‘۔(صحیح بخاری، کتاب الأحکام، بروایت معقل بن یسارؓ)۔یہاں خیانت سے مراد عہدہ کی ذمہ داریوں کو پورا نہ کرنا ہے جس کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں؛ مثلاًان کے حقوق پورے طور پر نہیں دئے،یارعایا کا جو کام ان کے ذمہ تھا اسے نہیں کیا یا جتنا وقت حکومت کی طرف سے رعایا کے لئے متعین تھا اس میں کمی کی یا دوسرے کاموں میں ضائع کردیااور کام کا حق ادا نہیں کیا یا متعلقہ شعبہ کے اشیاء و اموال جو درحقیقت عوام کا سرمایہ ہیں، کا بے جا یا ضرورت سے زیادہ استعمال کیا یا بیت المال سے اپنی مقرر شدہ تنخواہ اور بھتے (Allowances) سے زیادہ لے لیا وغیرہ۔آخرالذکر صورت کے سلسلے میں نبی کریم ﷺ کا واضح ارشاد موجود ہے کہ آپؐنے فرمایا:’’ہم جس کو کسی کام کا عامل بنائیںاور ہم اس کی کچھ روزی (تنخواہ) مقرر کردیں پھر وہ اپنے مقرر ہ حصہ سے جو زیادہ لے گا وہ خیانت ہے‘‘۔(سنن ابی داؤد، کتاب الخراج و الفیٔ و الامارۃ،بروایت بریدہؓ )۔یہاں یہ بات بھی واضح کرتا چلوں کہ حکومت کے وہ عہدے جو وعدوں کی بنیاد پر لئے جاتے ہیںجیسا کہ ہمارے جمہوری نظام میں رواج ہے ، کی ذمہ داریوں سے روگردانی کرنادوہرے وبال کا باعث ہے؛ ایک تو یہ خیانت ہے اور دوسرے وعدہ خلافی بھی ہے۔
اسی طرح رشوت ستانی کے ذریعہ متعلقہ ادارہ اور عوام کے مفاد کو نقصان پہنچانا بھی خیانت کی ایک شکل ہے۔نیز کسی سرکاری محکمہ کا ملازم اگر رشوت لے کر کوئی ایسا کام کرے جو حکومت کے طے شدہ اصول و ضوابط کے خلاف ہو تو یہ بھی خیانت ہے کیوں کہ جس کام کے لئے حکومت نے اسے متعین کیا اور جس کام کی اسے تنخواہ دیجاتی ہے وہ کام اس نے نہیں کیا۔اور اگر رشوت کسی جائز کام کے لئے لیا تو یہ اس فرد پر ظلم بھی ہے جس سے رشوت لی۔ ایک روایت میں ہے کہ  ’’ رسول اللہ ﷺ نے رشوت دینے اور رشوت لینے والے (دونوں) پر لعنت فرمائی ہے ‘‘۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الاقضیۃ،  بروایتعبداللہ بن عمروؓ)۔آپؐ سے یہ بھی روایت ہے کہ’’رشوت دینے والا اور رشوت لینے والا دونوں جہنم میںہیں‘‘۔(کنزالعمال،کتاب الامارت، بروایت عبداللہ بن عمروؓ)۔اس لئے ہر اس شخص کو جو آخرت پر ایمان رکھتا ہو اور کسی دنیوی عہدہ پر فائز ہو، اسے نہ صرف رشوت بلکہ تحفہ تحائف کو قبول کرنے سے بھی گریز کرنا چاہیے کیوں کہ عموماً وہ کسی مقصد کے تحت ہی دئے جاتے ہیں اور انسان ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا ۔رسول اللہ ﷺ نے بھی سرکاری ملازم کا اپنے فرض منصبی کی ادائیگی کے دوران کسی صاحب معاملہ سے تحفہ قبول کرنے کوسخت ناپسند کیاہے۔آپؐ نے ایک شخص کو زکوٰۃ، جزیہ اور ٹیکس وغیرہ وصول کرنے کے لئے عامل مقرر کیا، اپنے کام پورے کرکے جب وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لوٹے تو عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! یہ مال آپؐ کا ہے اور یہ مال مجھے تحفہ دیا گیا ہے۔ اس پر رسول پاکﷺ سخت نالاں ہوئے اور فرمایا: ’’پھر تم اپنے ماں باپ کے گھر ہی میں کیوں نہیںبیٹھے رہے اور پھر دیکھتے کہ تمھیں کوئی تحفہ دیتا ہے یا نہیں؟‘‘۔آپؐ نے اتنا ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ مسجد میںخطبہ دیا اور اللہ کی حمد و ثنا کے بعد ان ہی باتوں کا مجلس عام میں اعادہ کیا اور لوگوں کو خیانت کے وبال سے خوف دلایا۔(صحیح بخاری، کتاب الأیمان و النذور،  بروایت ابوحمید ساعدیؓ)۔
خیانت کی ایک اور شکل ہے ادارہ یا محکمہ کے سربراہ کو غلط مشورے دینا۔ ایک موقع پرنبی کریمؐ نے ارشاد فرمایاجس کا مفہوم ہے: ’’جس سے مشورہ طلب کیا جائے وہ امانت دار ہے‘‘۔(سنن ابن ماجہ، ابواب الادب، بروایت ابوہریرہؓ)۔یعنی اسے امانت داری کالحاظ کرتے ہوئے صحیح اور مفید مشورہ دینا چاہیے۔جس طرح امانت میں خیانت جائز نہیں، اسی طرح کسی کو غلط مشورہ دینا بھی جائز نہیں۔ اس حدیث کا سیدھے طور پر اطلاق سرکاری محکموں اور غیر سرکاری تنظیموں کے مشاورتی بورڈوں (Advisory Boards) پر بھی ہوگایعنی وہ سب بھی امانت دار قرار پائیں گے۔مثال کے طور پرکابینہ، پارلیمنٹ، پارلیمانی کمیٹی ، اسمبلی ، دستور ساز کونسل ، ضلع پریشد، پنچایت سمیتی، یونیورسٹیوں کی اکیڈمک کاؤنسل(Academic Council)، سنیٹ(Senate) اورسنڈیکیٹ (Syndicate)کے ممبران اور اسی طرح مساجد، مدارس، اوقاف کی کمیٹیوں وغیرہ کے ارکان یہ سب امانت دار ہیں اور ان سے ان کی امانتوں کے سلسلہ میں پوچھا جائے گا۔ ان سب کو چاہیے کہ ذاتی مفاد سے اوپراٹھ کراپنے اپنے اداروں اور قوم و ملت کی فلاح کو پیش نظر رکھ کر اپنے سربراہان کو مشورے دیا کریں ۔
خیانت کی ایک اور بھی شکل ہے ؛وہ ہے کام، منصب یا ذمہ داری کسی ایسے شخص کو سپرد کرنا جو اس کا اہل نہ ہو۔ ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب امانت ضائع کی جائے تو قیامت کا انتظار کرو‘‘۔پوچھا یا رسول اللہ ﷺ! امانت کس طرح ضائع کی جائے گی ؟(آپؐ نے ) فرمایا :’’جب کام نااہل لوگوں کے سپرد کردئے جائیں تو قیامت کا انتظار کرو‘‘۔ (صحیح بخاری، کتاب الرقاق، باب رفع الأمانۃ)۔اس حدیث سے بالکل واضح ہے کہ ذمہ داری نااہلوں کے سپرد کرنا بھی خیانت ہے اور دور حاضر میں تو یہ ایک بڑا فتنہ ہے کہ حکومت کے اہم مناصب یا تو تعلقات کی بنیاد پر دئے جاتے ہیں یا سیاسی ہم فکری کی بنیاد پر یا کبھی اس میں اقربا پروری کو دخل ہوتا ہے تو کبھی رشوت ستانی کو۔اس سلسلے میں ان افراد کے ساتھ ظلم ہوجاتا ہے جو حقیقتاً اس منصب کے اہل ہوتے ہیں اور نااہلوں کو منصب دئے جانے کے نتائج بد کو ایک عرصہ تک پوری قوم بھگتتی ہے۔اس لئے حاکم اعلیٰ کو چاہیے کہ اپنے دائرہ اختیار میں لائق ترین افراد کو تلاش کرکے انتظامی اختیارات ان کے سپرد کرے اور ایسے افراد کو تو بالکل نہ سونپے جو عہدے کے حریص ہوں۔رسول پاکﷺ کی سیرت سے ہمیں یہی تعلیم ملتی ہے۔آپؐ نے ایک موقع سے ارشاد فرمایا: ’’ہم ہرگز کسی ایسے شخص کو عامل مقرر نہیں کریں گے جو عامل بننا چاہے‘‘۔(صحیح بخاری، کتاب استتابۃ المرتدین ،  بروایت ابوموسیٰ اشعریؓ )۔صحیح ابن حبان کے الفاظ کا ترجمہ اس طرح ہے: ’’اللہ کی قسم ! ہم اس کام کا نگراں کسی ایسے شخص کو مقرر نہیں کریں گے جو اسے مانگتا ہو اور نہ ہی کسی ایسے شخص کو مقرر کریں گے جو اس کا لالچ کرتا ہو‘‘۔(صحیح ابن حبان، کتاب السیر،  بروایت ابوموسیٰ اشعریؓ)۔
  [ رابطہ :ای میل : [email protected]  موبائل:09471867108]
(بقیہ اگلے جمعہ کے شارے میں ملاحظہ فرمائیں)
 
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

ادھم پور تصادم میں مارا گیا ملی ٹینٹ جیش محمد کا اعلیٰ کمانڈر ’حیدر‘ تھا: پولیس سربراہ
تازہ ترین
اردوزبان کو غیر ضروری طور پر فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے: محبوبہ مفتی
تازہ ترین
’می آئی ہیلپ یو‘: امرناتھ یاترا میں سی آر پی ایف خواتین ٹیم نے دل جیت لئے
تازہ ترین
ہندوستانی شہریوں کو ایران کے غیر ضروری سفر سے گریز کرنا چاہئے: ہندوستانی سفارتخانہ
بین الاقوامی

Related

جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

July 10, 2025
جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

July 3, 2025
جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

June 26, 2025
جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل

June 19, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?