تاریخ کا ایک واحد معتبر حوالہ خواجہ حسن نظامی مرحوم کے وہ حواشی ملے جو انہوں نے راج کمار ہردیو کی فارسی کتاب ’’چہل روزہ‘‘ پر لکھے ہیں۔ یہ اصل میں راج کمار کی یادداشتیں ہیں اور تب سے ہیں جب علاؤ الدین مانک پر صوبے کا گورنر تھا اور ملک پر جلال الدین خلجی کی حکومت تھی۔ علاؤ الدین سلطان کا داماد ہی نہیں بھتیجا بھی تھا اور اس نے ایک دوسرے چچا کے ساتھ مل کر جلال الدین خلجی کو قتل کیا تھا۔ ’’چہل روزہ ‘‘میں ۱۲۹۵ء میں دیو گڑھ پر حملہ کا ذکر توہے، چتوڑ پر حملے کا نہیں۔ یہی لکھاری راج کمار ہر دیو علاؤ الدین کے بیٹے سلطان قطب مبارک کے خسرو خان کے ہاتھوں قتل اور ناصرالدین کے نام سے مرتدوں کی حکومت کے دوران موجود تھا اور دیپالپور سے تعلق رکھنے والے نئے بادشاہ ملک غازی المعروف غیاث الدین تغلق کے بیٹے محمد بن تغلق کے زمانے میں وزیر بنا اور بعد میں خان جہاں کے خطاب کے ساتھ وزیر اعظم، اس نے بھی کسی پد ما وتی کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ البتہ اس نے خلجی عہد کے چار بڑے کام گنوائے ہیں :اول مضبوط حکومت، دوم بے شمار فلاحی کام، سوم منگولوں کے حملوں کا سد باب اور چہارم رعایا کا آرام اور قیمتوں پر قابو۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس موضوع پر بھارت سے چلنے والی کتنی ہی سائٹس پر کلپس موجود ہیں اور اس تصریح کے ساتھ کہ پدماوتی ایک فرضی کردار ہے، جس ’’جوہر‘‘ یااجتماعی خود کشی کے واقعہ کا ذکر ہے اس کی تفصیل خلجی عہد سے سات سو برس قبل کے دور کی ہے۔ یاد رہے تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ راجپوتوں کی اس روایت کو چتوڑ گڑھ میں ہی سات بار استعمال ہوا۔ جب جب ان کو شکست ہوئی، ان کی افواج ہار گئیں تو رانیوں اور سب داسیوں اور باندیوں نے اپنے آپ کو ستی کر لیا۔ بقول رانی پدماوتی راجپوتی کنگن کی طاقت اتنی ہی ہے جتنی راجپوتی تلوار کی۔علاؤ الدین کو اس فلم میں بدنامی اور رانی پدما وتی ہمراہی عورتوں کے جلے بدنوں کی بد بو کے علاوہ کچھ حاصل نہ ہوا تھا۔جب جب ان کو شکست ہوئی، ان کی افواج ہار گئیں تو رانیوں اور سب داسیوں اور باندیوں نے اپنے آپ کو ستی کر لیا۔ بقول رانی پدماوتی راجپوتی کنگن کی طاقت اتنی ہی ہے جتنی راجپوتی تلوار کی۔علاؤ الدین کو اس فلم میں بدنامی اور رانی پدما وتی ہمراہی عورتوں کے جلے بدنوں کی بد بو کے علاوہ کچھ حاصل نہ ہوا تھا۔ یہی ان کے مطابق اس کی ہار اور رانی کی جیت تھی اور راجپوت اسی پر فخر کرتے ہیں۔یہ ان کی ’’folklore ‘‘ اورعزت اور غیرت کا حوالہ ہے۔ ستی یا اجتماعی خودکشی کو اس قدر’’ glorify‘‘ اس سے قبل کبھی نہیں کیا گیا۔ یہ بالکل ممکن ہے کیونکہ ۱۹۴۷ء میں ایسے کتنے ہی واقعات مسلمان عورتوں کے ساتھ بھارتی پنجاب میں پیش آئے۔
اس قدر گلیمرائزڈ کہانی کے باوجود انتہا پسند ہندوؤں کا احتجاج کیوں تھا کہ بی جے پی کے راہنما بھی اس میں کود پڑے اور اپنی مذہبی کتاب رامائن کے ایک کردار جس کی غلطی پر ناک کاٹ دی گئی تھی، بے چاری دپیکا پدوکون کو بھی یہی سزا سنا دی؟ اس انتہا پسندی کی جڑیں ہندو معاشرے میں بہت گہری ہیں،اسی لیے کرنی سینا والے راجپوت گروپ تو جنوری ۲۰۱۷ سے احتجاج پر ہیں، حالانکہ اس فلمی،تاریخی آرٹسٹک فراڈ پر مسلمانوں کو سراپا احتجاج ہوناچاہیے تھا لیکن وہ نہ اپنی تاریخ پڑھتے ہیں اور نہ اس کی اچھائی برائی سے واقف ہیں۔تحقیق سے پتہ چلا کہ ہمارے افواہ سازوں کے ایک سرخیل کی طرح کسی نے یہ افواہ اڑا دی کہ بے شک علاؤ الدین خلجی پدماوتی سے مل پایا، نہ چھوپا یا اور نہ ہی اسے اپنے حرم میں شامل کر پایا مگر سنجے لیلا بھنسالی نے بادشاہ کو خواب میں رانی چندراوتی سے ملاقات کی ساری خواہشیں پوری کرا دی ہیں، جو پدماوتی کا اپمان یا بے عزتی کے مترادف ہے۔ یوں جو سین فلمایاہی نہ گیا تھا، وہی سارے فساد کی جڑ بن گیا۔ہندوستان کی فلمی تاریخ میں متنازعہ ہو کر مقبولیت پانے والی اس تازہ ترین فلم کے ایک کردار مہاراول رتن سنگھ کو شاہد کپور نے دس کروڑ روپے لے کر ادا کیا اور اپنی اداکاری کی ساکھ کو بہت بہتر بنایا۔ اسی کردار کو کرنے کے لیے شاہ رخ کو ساٹھ کروڑ روپے آفر کیے گئے تھے جب کہ اس نے نوّے کروڑ روپے مانگے تھے۔ فلم کی مقبولیت کے بعد اب چاہے اسے افسوس ہی ہو، رنویر سنگھ نے علاؤ الدین خلجی کا کردار ادا کیا اور اس کے بقول اتنا اچھا کیا ہے کہ لوگ اس سے نفرت بھی کرنے لگیں تو جائز ہوگا۔
علاؤ الدین خلجی نے ہندوستان پر قریباً ۳۵ برس حکومت کی۔ وہ خلجی خاندان کا سب سے مضبوط حکمران جانا جاتا تھا، اس کے عہد میں لوگ خوشحال تھے، کوہ نور ہیرا بھی اسی کے زمانے کا ہے۔ ۱۳۳۰ ء میں چتوڑ گڑھ پر حملہ ہوا مگر یہ یقینی نہیں ہے کہ رانی پدماوتی اس کا باعث تھی۔ ملک جائثی نے ۱۵۴۰ء میں پدماوت پر یہ نظم لکھی۔ کہا جاتا ہے کہ اس سے بہتر نظم بعد کے ادوار میں بھی نہیں لکھی گئی۔
اصل بات جو آپ بھی جانتے ہیں کہ کہانی لکھتے ہوئے سچ کہاں اور کب ختم ہو جاتا ہے اور شاعر یا مصنف کی مرضی اور خواہش کہاں شروع ہو جاتی ہے؟ اس کا فیصلہ ہمیشہ مشکل ہوتا ہے، مبالغے کا اندیشہ ہی نہیں یقین ہوتا ہے۔ اسی طرح تاریخ لکھتے ہوئے اور تاریخی فلم بناتے ہوئے ہمیشہ اس اندیشے کا سامنا رہتا ہے کہ لکھنے والا اپنی مرضی اور ضرورت کا صرف آدھا اور ادھورا سچ لکھتا اور فلماتا ہے۔ کیا کبھی کوئی غیر جانبدار ہوکر یہ نہیں کر سکے گا کہ تخلیقی قوت کے ساتھ تاریخ کے کسی تاریخی واقعے پر مکمل سچ لکھ اور فلما سکے؟ ۱۹۸۹ء میں بھی اسی موضوع پر ایک فلم بنائی گئی تھی، اس میں امریش پوری نے علاؤ الدین خلجی کا کردار نبھایا تھا اور سچ کہوں تو اس کے مقابلے میں بالکل بچگانہ سی فلم لگتی ہے بلکہ کو ئی ٹی وی سیریل ہی کہیے۔ رام لیلا بھنسالی کی مہارت پر تو کوئی دو رائے ہے ہی نہیں، جو بندہ فلم کی ہیروئن کے ملبوسات اور پہناوؤں کے لیے چار سو کلوسونا استعمال کرنے کی ہمت کر سکتا ہے،اس کی فلم کا ایک پوسٹر دیکھنے پہلے دن سوشل میڈیا پر ۲۰ ملین لوگ کیوں نہیں متوجہ ہوں گے؟ اس فلم میں ایک واحد سافٹ کردار خلجی سلطان کی بیوی مہرالنساء کا ہے جسے ادیتی راؤ حیدری نے بڑی ہی معصومیت اور کامیابی سے ادا کیا ہے۔ اپنے باپ جلال الدین اور بھائی کو اپنی آنکھوں کے سامنے مرتے دیکھا اور بالآخر رانی پدماوتی کی مدد کر کے اسے فرار کرواتی ہے۔ اس کے والد جلال الدین خلجی نے اس خاندان کی بنیاد رکھی تھی اور وہ تغریٰ خان کے بیٹے، سلطان بلبن کے پوتے کیقباد کوقتل کر کے دلّی کے تخت پر بیٹھا تھا۔ علاؤ الدین خلجی ۶۶ برس کی عمر میں جنوری ۱۳۱۶ء میں ملک نائیک کے ہاتھوں مارا گیا، وہ دہلی کے قطب کمپلیکس میں دفن ہے، اگر انتہا پسندوں کے ہاتھوں اس کی قبر تباہی سے بچ گئی تو۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ سلطان علاؤ الدین خلجی کملا دیوی کا بیٹا تھا اور تاریخ کے بدترین اور مکروہ بادشاہ قطب الدین مبارک شاہ کا باپ تھا جس کا ذکر ہی تاریخی صفحات کو کراہت سے بھر دیتا ہے۔ اس کا تفصیلی ذکر میں نے خشونت سنگھ کی’’ دہلی ‘‘اور جناب اشفاق احمد کی کتاب ’’سفر در سفر‘‘ میں بھی پڑھا تھا۔ علاؤالدین اپنے غلام ملک کافور کی قربت کی وجہ سے بھی تاریخ دانوں کی تنقید کا نشانہ بنتا رہا ہے ۔ کبھی کبھی تو مجھے لگتا ہے کہ تاریخ کے اس گڑبڑ گھوٹالے کی وجہ سے اچھا ہے ہم بلا وجہ احتجاج نہیں کرتے۔ جن سلاطین نے اپنے عہد میں خود اپنی عزت اور وقار کا خیال نہیں کیا کوئی بعد میں کیسے ان کے لیے لڑ سکتا ہے؟ ہاں جو واحد خواہش ہے کہ کبھی کوئی ہمارا فلم ساز اور ہدایت کار بھی کوئی پڑھا لکھا اور تاریخی کام کرے، جوہماری نئی نسل کی خوشی اور اطمینان کا باعث ہو، جن کا ذکر وہ بھی احساس تفاخر سے کر سکیں۔ ورنہ دوسروں کی فلمیں انہی کے سینماؤں میں دیکھ کر ہم بھی دل پشوری کے لیے ’’ویر زارا ‘‘کی پاکستانی لڑکی کے ہیروئن ہونے پر اعتراض اٹھاتے رہیں گے۔یارو ! ہماری تاریخ میں کوئی دوچار لوگ اور واقعات تو ایسے ضرور ہوں گے جن پر بنی فلم دیکھ کر کوئی راحت ہمارے اندر بھی اترے۔ ( ختم شد)