۱۳ فروری کو اردو ادب کے مشہور و معروف شاعر فیض احمد فیض کا ۱۰۷واں یوم پیدائش منایا گیا۔فیض احمد فیضؔ آج ہی کے دن یعنی۱۳؍ فروری ۱۹۱۱ء کو سیالکوٹ(پاکستان) میں پیدا ہوئے۔ذوق علم اور ذوق مطالعہ انھیں ورثے میں ملا تھا ۔ ان کے والد چودھری سلطان محمد سیالکوٹ کے نامی گرامی بیرسٹروں میں سے تھے اور علم و ادب سے گہری دلچسپی رکھتے تھے۔ فیض نے ابتداسے ہی گھر میں علم و ادب کا ماحول پایا۔ ان کی ابتدائی تعلیم گھر سے شروع ہوئی۔ چار برس کی عمر سے حفظِ قرآن کی تعلیم کا آغازکیا۔ فیض شروع سے ہی ایک ذہین اور لائق طالب علم تھے۔ ۱۹۲۷ء میں انھوں نے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ ۱۹۲۹ء میں مرے کالج آف سیالکوٹ سے انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کیا۔ فیض کے اساتذہ میں میر شمس الحق(جو علامہ اقبال کے بھی استاد تھے) بھی شامل تھے۔ ۱۹۳۲ء میں گورنمنٹ کالج سے انگریزی میں ایم۔ اے کیا۔ اس کے بعد عربی میں ایم۔اے کیا۔ ۱۹۳۵ء میں ایم۔ اے۔ او کالج امرتسر میں انگریزی کے لیکچرر کی حیثیت سے ملازمت کا آغاز کیا۔ ۱۹۴۰ء میں ہیلی کالج آف کامرس میں انگریزی کے لیکچرر مقرر ہوئے۔۱۹۴۱ء میں فیض کی شادی ایلس جارج سے سری نگر میں ہوئی۔ ان کا نکاح شیخ محمد عبداللہ نے پڑھایا۔ بعد ازاں ازدواجی بندھن میں بندھنے والے اس نو بیا ہتا جوڑے نے مہاراجہ ہری سنگھ کے پری محل میں اپنا ہنی مون منایا۔ ۱۹۴۲ میں میجر اور ۱۹۴۴ء میں لیفٹنٹ کرنل کے عہدہ پر فائز ہوئے۔ ۱۹۴۷ء میں فوجی ملازمت سے استعفی دے کرپاکستان ٹائمز میں چیف ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ ۱۹۵۱ ء میں پہلی بار سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتاع ہوئے اور روالپنڈی سازش کے الزام میں چار سال تک قید رہے۔ ۲۰ اپریل ۱۹۵۵ء میں رہا ہوئے۔ ۱۹۵۷ء میں دوسری بار سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار ہوئے۔ اپریل ۱۹۵۹ء میں رہا ہوئے۔اس کے بعد پاکستان میں کئی اعلی عہدوں پر فائز رہے۔ انہیں کئی عالمی و ملکی انعامات و اعزازات سے نوازا گیا۔ اردو کے اس عظیم شاعر کا انتقال ۲۰؍ نومبر ۱۹۸۴ء میں ہوا۔ وہ ماڈل قبرستان لاہور، پاکستان میں مدفون ہیں۔
فیض احمد فیض بیسویں صدی ایک ایک ممتاز اور منفرد شاعر ہیں۔ ان کی شاعری تجربہ پسندی اور بعض صورتوں میں بغاوت کے میلانات سے گزرنے کے باوجود خود ضبطی ، توازن اور اعتدال کو روا رکھ کر اپنی جدا گانہ حیثیت قائم رکھے ہوئے ہیں۔ کوئی بھی شاعر اپنے جن تجربوں کو شعری قالب میں ڈھالتا ہے ان تجربوں کے وجود میں آنے اور پھر شعری قالب میں ڈھلنے تک کے سارے عمل کو پیش نظر کہا جا سکتا ہے کہ اس میں شاعر کی اپنی شخصیت کے علاہ خارجی دنیا کے حالات و اقعات بھی غیر محسوس طریقے سے داخل ہوجاتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہر دور کے شعرا پر اس کے خارجی حالات کا اثر کسی نہ کسی انداز میں نمایا ں ہوتا ہے۔ جیسے میرؔ نے اپنے عہد کی تلخیوں کا ذکر اپنی شاعری میں کیا ہے ۔ فیض نے بھی اپنے ماحول اور حالات سے متاثر کو ہر شعر کہے۔ لیکن فیض دوسرے شعرا کے برعکس خارجی حالات و واقعات اور محرکات کو اس وقت شعری جامہ نہیں پہناتے جب تک کہ ان کی داخلی دنیا میں اس سے ہیجان پیدا نہیں ہوتا۔ بقول ڈاکٹر نصرت چودھری ،فیض ذاتی، اجتماعی، اقتصادی، سیاسی یا ایسے ہی کسی اور واقعے سے شدت سے متاثر ہوتے ہیں لیکن وہ اس واقعے کو اس وقت تک شعری جامہ نہیں پہناتے جب تک کہ وہ اسے تخلیقی طور پر محسوس نہیں کرتے۔
فیض احمد فیض نے اپنے عہد کے فکری، تہذیبی اور شعری مزاج سے ہم آہنگی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اردو کی شعری روایات کا گہرا مطالعہ کیا ہے۔ انہوںنے اپنی شاعری میں دو نمایاں موضوعات یعنی رومانیت اور اپنے عہد کے تقاضوں کا ساتھ دیتے ہوئے طبقاتی نظام کی پیدا کردہ خرابیوں کو اپنی شاعری میں پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ ان موضوعات کو پیش کرنے میں فیض عمدہ فنکاری کا ثبوت دیتے ہیں اور شعری زبان کا خاص خیال رکھتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہی انہوں نے ملکی اور بین الاقوامی مسائل کو بھی شعری قالب میں ڈھالا جس کی واضح مثال ان کی نظم ’فلسطینی بچے کے لیے لوری‘ ہے:
مت رو بچے
رو رو کے ابھی
تیری امی کی آنکھ لگی ہے
مت رو بچے
کچھ ہی پہلے
تیرے ابا نے
اپنے غم سے رخصت لی ہے
فیض نے ملکی اوربین الاقوامی سطحوں پر زندگی کا شیرازہ بکھرتے دیکھا۔ انہوں نے جس زمانے میں انکھ کھولی اس وقت دنیا پر پہلی عالم گیر جنگ کے بادل منڈلا رہے تھے۔ انہوں نے بچپن سے ہی دنیا میں ہورہی تبدیلیوں کا بھر پور مشاہدہ کیا۔ ان کی زندگی میں رونما ہونے والے واقعات میں دوسری عالم گیر جنگ اور اس جنگ نے بے گناہوں کے قتل و غارت کا بازار گرم رکھا۔ دنیا کے اقتصادی، سیاسی اور سماجی نظام کو درہم برہم کر دیا۔ باقی ممالک کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں بھی ان جنگوں کے اثرات مہلک ثابت ہوئے۔ ملک کی معاشی حالت ابتر ہوگئی۔ لوگ بھوک اور ناداری کے شکارہوئے جس کی وجہ سے طبقاتی کشمکش تیز ہونے لگی۔ ملک کے استحصالی عناصر نے غریب اور پس ماندہ طبقوں کو بری طرح اپنی گرفت میں لے لیا۔ اس کے ساتھ ہی ملک کی غلامی نے بھی یہاں کی مشکلات میں کافی اضافہ کیا۔ ان حالات نے فیض کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا۔ اپنی مشہور نظم ’تنہائی‘ میں وہ اسی محرومی اور مایوسی کی مصوری کرتے ہیں:
پھر کوئی آیا دل زار نہیں کوئی نہیں
راہرو ہوگا کہیں اور چلا جائے گا
ڈھل چکی رات بکھرنے لگا تاروں کا غبار
لڑکھڑانے لگے ایوانوں میں خوابیدہ چراغ
سو گئی راستہ تک تک کے ہر اک راہ گزار
اجنبی خاک نے دھندلا دیئے قدموں کے سراغ
گل کرو شمعیں بڑھا دو مے و مینا و ایاغ
اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کر لو
اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا
اس کے ساتھ ہی فیض نے اپنی نظموں اور شاعری میں حب الوطنی اور تقسیم وطن کے المیے کو بھی پیش کیا ہے۔ اس کی واضح مثال ان کی نظم ’صبح آزادی‘ ہے۔ اس نظم میں شاعر نے ملک کی تقسیم کو بڑے سانحے سے تعبیر کیا ہے۔ اس نام نہاد آزادی وہ تلملا اٹھتے ہیں۔
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل
کہیں تو ہوگا شب سست موج کا ساحل
کہیں تو جا کے رکے گا سفینہ غم دل
فیض کی غزلوں اور نظموں کے مطالعے سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہیں کہ ان کا شعری شعور کافی گہرا ہے۔ وہ اپنے آس پاس کی زندگی کا گہرا احساس رکھتے ہیں۔ فیض مارکسی نظریئے کے قائل نظر آتے ہیں۔ وہ اشتراکی نظریے کو دل و جان سے قبول کرتے تھے۔ان کا ایمان تھا کہ سماجی زندگی کے تضادوں اور المناکیوں کی سب سے بڑی وجہ ملک کا طبقاتی نظام ہے۔ انہوں نے ایک روشن ضمیر اور حساس فن کار کی طرح بدلتے حالات کا جائزہ لیا اور اپنے جسم و جان کی پوری طاقت سے انسانی فلاح اور بہود کے لیے کوشاں رہے۔ تاریخی اور سماجی شعور نے فیض کو معاصر زندگی کی بنیادی حقیقتوں کا عرفان عطا کیا۔ زندگی، سماج، تہذیب اور تاریخ کے متضاد قوتوں کے تصادم اور اس کے نتائج و عواقب کو سمجھنے میں انہوں نے مارکسی نظریے سے بھی استفادہ کیا۔ انھوں نے اشتراکی فلسفے کا گہرا مطالعہ کیا اور مارکس کے جدلیاتی نظریے کے تحت سماجی زندگی کی کش مکش کو سمجھنے کی کوشش کی۔ ان پر یہ حقیقت کھل گئی کہ استحصالی عناصر معصوم اور محنت کش لوگوں کی زندگی کو جہنم بنا رہے ہیں۔ یہ مشاہدات و تاثرات ان کی شاعری کے لیے مواد فراہم کرتے ہیں۔ وہ سماجی تضاد نہ صرف اپنی شاعری کے ذریعے بلکہ عملاََ بھی بدلنا چاہتے ہیںاور اس کے لیے انہوں نے زندگی بھر کوشش کی ۔ اسی لیے فیض زندگی کے ساتھ ساتھ فن کے لیے بھی یہ ضروری قرار دیتے ہیں کہ وہ انسان کی اجتماعی جد و جہد میں شرکت کرے ۔ یعنی فن کی ایک سماجی مقصدیت ہے اور وہ یہ ہے کہ سماجی زندگی کی حقیقتوں کو پیش کیا جائے اور سماجی اور اجتماعی زندگی کو بہتر بنانے میں اپنا حصہ ادا کیا جائے۔ دراصل ان کے دل میں زندگی کو سنوارنے اور اسے خوب سے خوب تر بنانے کا جذبہ موجود ہے اور یہی جذبہ انہیں مایوسی کا شکار ہونے سے بچا تا ہے۔ وہ مشکل سے مشکل حالات میں بھی امید اور یقین کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔
فیض کی شاعری محض خیالی دنیا نہیں۔ وہ خوابوں کی پرچھائیوں میں بھی حقیقت کی کرن دیکھ لیتے ہیں۔ دستہ تہہ سنگ میں لکھتے ہیں کہ شاعر کے خواب محض خیالی دنیا کی پرچھائیاں نہیں ہوتے ۔ ان میں ایک گہری اور تابندہ حقیقت پوشیدہ ہوتی ہے۔ ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں کہ شاعر کا کام محض مشاہدہ ہی نہیں، مجاہدہ بھی ہے۔ اس پر فرض ہے کہ وہ گرد و پیش کے مضطرب قطروں میں دجلہ کا مشاہدہ کرے۔ اس مختصر سے مضمون میں فیض جیسے بڑے شاعر کے تمام اوصاف اور اس کا تذکرہ ممکن نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم فیض کی شاعری کو موجودہ دور کے تناظر میں جانچنے کی کوشش کرے اور جس سماج کا خواب فیض نے اپنی شاعری کے ذریعے دکھانے کی کوشش کی ہے ، اس میں اپنا رول ادا کریں۔
…………………
نوٹ :مضمون نگارلیکچرراردو گورنمنٹ ڈگری کالج برائے خواتین، بارہمولہ ہیں