ترال //پولیس تھانہ ترال میں ایک پر اسرار دھماکے میںپولیس حراست میں موجود سابق جنگجوجاں بحق اور ایک اہلکار زخمی ہوا ۔پولیس نے گرفتار جنگجو کی ہلاکت پر اپنا بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے ’’ گرفتار جنگجو فرار ہونے کی کوشش کے دوران جاں بحق ہوا اور واقعہ کے حوالے سے تحقیقات شروع کی گئی ہے‘‘ ۔اس دوران سابق جنگجو کی ہلاکت کے بعد قصبہ میںہڑتال ہوئی اور اس دوران احتجاجی مظاہرے، پتھرائو اور شلنگ کے واقعات پیش آئے۔
واقعہ
ترال میں سوموار کو دن کے ساڑھے بارہ بجے کے قریب پولیس اسٹیشن میں ایک زوردار دھماکے کی آواز سنائی دی گئی ، جس کی وجہ سے علاقے میں افرا تفری کا ماحول پیدا ہوا ہے۔ دھماکے کے چند منٹ بعد معلوم ہوا کہ پولیس اسٹیشن کے صحن کے اندر ایک گرینیڈ دھماکہ ہوا ہے جسکو ابتدائی طور جنگجو کا پولیس تھانے پر حملہ قراردیا گیا تاہم بعد میں معلوم ہوا کہ چند ہفتے قبل سوپور میں ترال کے واگڑ علاقے سے تعلق رکھنے والا حزب جنگجومشتاق احمد چوپان گرفتار ہونے کے بعدگزشتہ دنوں کسی کیس کے سلسلہ میںپولیس اسٹیشن ترال لایا گیاتھا، دھماکے میں جاں بحق ہوا ۔ مذکورہ جنگجو کی ہلاکت پر علاقے میں عام لوگ چمہ گوئیاں ہو رہی ہیں ۔
پولیس سٹیشن کہاں پر ہے؟
پولیس تھانہ ترال ایک ایسی جگہ پر قائم ہے جہاں تک پہنچنے کے لئے نصف کلومیٹر تک فورسز کیمپ اور بنکروں سے گزرنا پڑتا ہے ۔اس دوران کئی جگہوں پر تلاشی بھی لی جا تی ہے۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر پولیس کا بیان صحیح بھی مانا جائے تو پوچھا جاسکتا ہے کہ گرینیڈ تھانے کے گیٹ تک کیسے پہنچا ؟۔جبکہ پولیس تھانہ راہ عام پر واقع نہیں ہے اور اسکے اطراف و اکناف مں مکمل سیکورٹی بندوبست ہے۔
پولیس بیان
واقعہ کے فوراً بعد پولیس نے ایک بیان جاری کیا جس کے مطابق ’’حزب المجاہدین سے وابستہ مشتاق احمد چوپان ساکن واگڑ ترال نے پولیس حراست سے برقعہ پہن کر فرار ہونے کی کوشش کی ، جب مذکورہ جنگجو مین گیٹ کے قریب پہنچ گیا تو مین گیٹ سے باہر کسی نا معلوم شخص نے پولیس کی توجہ ٹالنے کے لئے ایک منصوبے کے تحت پولیس اسٹیشن کے اندرگرینیڈ پھینکا تاکہ گرفتار جنگجو فرار ہو سکے،تاہم گرینیڈ پولیس اسٹیشن کے اندر اسکے نزدیک پھٹ گیا جسکی وجہ سے جنگجوکی موت واقع ہوئی جبکہ واقعہ میں پولیس کا ایک اہلکار معراج الدین، جو اس وقت سنتری کی ڈیوٹی پر تھا ،زخمی ہوا ہے جسکو علاج معالجے کے لئے فوجی ہسپتال منتقل کیا گیا ہے جبکہ اس حوالے سے مجسٹرئیل انکوائری تحت176شروع کی گئی ہے ، جنگجو کس طرح فرار ہونے کی کوشش کر رہا تھا،اس بات کی بھی تحقیقات شروع کی جا رہی ہے‘‘۔ پولیس کے مطابق مشتاق احمد کے خلاف ترال پولیس تھانے میں کئی کیس درج تھے جن میں دو کیس درج تھے۔پولیس نے بیان میں بتایا کہ مشتاق حال ہی میں سوپور پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہوا تھا جہاں پولیس تھانہ سوپور میں ان کے خلاف ایک کیس 10/2018 7/25درج ہے اورانتی پورہ پولیس کو مطلوب ہونے کی بناء پر اسکی حراست تبدیل کی گئی تھی۔
احتجاج
مشتاق کی ہلاکت کی اطلاع اور تصاویر سوشل میڈیا پر آناً فاناً وائرل ہوئیں اور پورا ترال قصبہ بند ہوگیا۔اس دوران ہر قسم کی آمد و رفت معطل ہوئی اور نوجوان کئی مقامات پر ٹولیوں کی شکل میں نمودار ہوئے اور انہوں نے احتجاج اور نعرے بازی کرنے کیساتھ ساتھ پتھرائو شروع کیا۔ نوجوانوں نے بس اسٹینڈ ترال میں فورسز کی گاڑیوں پر شدید پتھرائو کیاجہاں فورسز نے مشتعل نوجوانوںپر آنسو گیس کے گولے داغے۔ جھڑپوں کے نتیجے میں بازار میں اتھل پتھل مچ گئی اور پورے بازار میں سناٹا چھایا گیا۔