ریاست جموںوکشمیر میں طویل عرصہ سے جو خون آشام صورتحال بنی ہوئی ہے اُس پر نئی دہلی اور اسلام آباد ایک دوسرے پر تواتر کے ساتھ الزام تراشیوں میں مصروف رہتے ہیں لیکن زمینی سطح پر اس ساری صورتحال کا بیشتر خمیازہ ریاستی عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ علاوہ ازیں ہلاکتیں خواہ وہ شہریوں کی ہوں فورسز اہلکاروں کی ہوں یا جنگجوئوں کی ،بہر حال انسان ہی سیاست کی اُس بھٹی کا ایندھن بن رہے ہیں جو 1947میں برصغیر کی تقسیم کے ساتھ سلگائی گئی اور جو سات دہائیاں گزرنے کے باوجود بجھنے کا نام نہیں لے رہی ہے،بلکہ اگر یہ کہا جاے کہ سرحد کی دونوں جانب اس پر اب کُھل کر سیاست ہونے لگی ہے تو غالباًغلط نہ ہوگا۔ تین بھری پُری جنگوں کے علاوہ حد متارکہ پر آئے روز ہلاکت خیز گولہ باری کا تبادلہ ہماری تاریخ کا حصہ بن رہا ہے اور عقل وانصاف کا تقاضا یہی ہے کہ اسکے خاتمے کے لئے دونوں ممالک کے ارباب حل و عقدکو سنجیدگی کے ساتھ غور وفکر کرنا چاہئے۔ موجودہ صورتحال میں تمام سیاسی حلقےخواہ وہ مین اسٹریم سیاست کے ہوں یامزاحمتی خیمے سے وابستہ ہوں کم و بیش سوا کروڑ آبادی والی اس ریاست کو اس جہنم سے باہر نکالنے کےلئے بھارت اور پاکستان کےدرمیان بات چیت کا مطالبہ دہراتے رہتے ہیں اور ایسا یہاں ہی نہیں بلکہ ملک اور ملک سے باہر بھی صحیح الفکر حلقے یہ خواہش دہراتے رہتے ہیں ، کیونکہ بالآخر بھاری بھر کم سیکورٹی بندوبست پر جو اخراجات اُٹھتے ہیںوہ ٹیکس ادا کرنے والے برصغیر کے عام شہریوں کو ہی اُٹھانا پڑتے ہیں۔ ایسے حالات میں ریاست کی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے کئی مرتبہ بھارت اور پاکستان کے درمیان مذاکرات شروع کرنے پر زور دیا تاکہ ریاست کے اندر ہو رہے خون خرابے کو روکنے کی کوئی سبیل نکل آئے، مگر ایسا محسوس ہو تا ہےکہ حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کواُنکا یہ طرز عمل راس نہیں آتا، جبھی اُنہوں نے اس موضوع پر وزیراعلی کو ہدف تنقید بنانے کی کھلم کھلا مہم شروع کی ہے۔ حالانکہ جموں وکشمیر میں دونوں جماعتوں کے مابین اتحاد موجود ہے، جس کے بل بوتے پر حکومت چل رہی ہے۔ گزشتہ دنوں بھاجپا لیڈر رام مادھو کی جانب سے ایک انگریزی اخبار کو دیئے گئے ایک انٹرویو میںانہوں نے کھلم کھلا کہا کہ وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی ہندوپاک مذاکرات پر بات کرنےکی مجاز نہیں ہیں بلکہ یہ صرف مرکزی حکومت کا استحقاق ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ریاست جموںوکشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کےتحت خارجی معاملات مرکزی حکومت کے دائرے اختیار میں دیئے گئے ہیں ، لیکن جہاں ریاست دو حصوں میں تقسیم ہوگئی ہو اورد ونوں اطراف سے ریاستی عوام کا خون بہہ رہا ہو وہاں اُس ریاست کے کسی باشندے کی طرف سے بات کرنے پر اعتراض کرنا کسی بھی طور پر آئینی، قانونی اور جمہوری تقاضوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔ وزیراعلیٰ پر ریاستی عوام کے تحفظ اور انکی فلاح وبہبود کی آئینی اور اخلاقی ذمہ داری عائید ہے ، لہٰذا اگر وہ خون خرابہ کی وجوہات تلاش کر کے اسکے خاتمے کےلئے مذاکرات کی بات کریں تو اس میں کیا مضائقہ ہے۔ریاست میں حالات کی بہتری کےلئے بھارت اور پاکستان کے درمیان معمول کے تعلقات کی بحالی پی ڈی پی کے الیکشن مینی فیسٹو کا حصہ رہا ہے جو بھارتیہ جنتا پارٹی کو بھی معلوم ہے اور ظاہر بات ہے کہ دونوں جماعتوں کے درمیان اتحاد کے قیام کے لئے مذاکرات کے دوران ایک دوسرے کے انتخابی وعدے انکی نظروں میں رہے ہونگے۔ یہ انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ یہ بیان ایک ایسی شخصیت کی جانب سے سامنے آیا ہے، جو پی ڈی پی اور بھاجپا کے درمیان اتحاد قائم کرنے کے لوازم اور شرائط طے کرنے میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ لہٰذا کیا یہ اخذ کرنا غلط ہوگا کہ ریاست کے اندر موجود صورتحال کے ساتھ بھاجپا کے سیاسی مقاصد جُڑ گئے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ وہ پاکستان کے ساتھ تصادم آرائیوں کےلئے ملک کے سامنے جوابدہ ہیں اور ظاہر بات کہ اُنکا مؤقف سخت ہونا بعید از قیاس نہیں لیکن اس صورتحال سے وزیراعلیٰ، جو ریاستی عوام کی نمائندگی کر رہی ہیں، کےمؤقف کو ناقابل عمل قرار دینا ریاستی عوام کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتا، یہ ضرور اُن حلقوں کو اپیل کرسکتا ہے ، جنکے سیاسی مفادات اس صورتحال سے وابستہ ہوں، مگر جنہیں اس جنگ وجدال کا براہ راست شکار ہو کر ہلاکت خیز صورتحال کا خمیازہ اُٹھانا پڑے، انکے مؤقف کو مسترد کرنا کسی بھی جمہوری نظریئے کا حصہ نہیں ہوسکتا۔