چند روز قبل کھادی اینڈ ولیج انڈسٹریز میں آفیسروں کی بھرتی میں بے ضابطگیوں پر پید اہوئے مباحثے کے بیچ وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے معاملے کی جانچ کرنے کے جو احکامات دیئے ہیں اُنکا سماج کے سبھی حلقوں کی جانب سے خیر مقدم کیا جا رہا ہے لیکن ساتھ ہی یہ حیرت بھی ظاہر کی جارہی ہے کہ اگر برسراقتدار طبقے کے مفادات کی اس عنوان سے آبیاری کی جائے تو عام لوگ کہاں جائینگے۔ اگر چہ یہ ایک عمومی مؤقف ہے کہ ہر دور میں حکمران جماعتوں کی جانب سے اقرباء پروری کا مظاہرہ ہوتارہا ہے مگر چونکہ موجودہ حکمران ریاست کو کرپشن سے آزاد کرکے صاف وشفاف حکمرانی فراہم کرنے کے وعدے کے ساتھ سامنے آئے ہیں، لہٰذا اس اتحاد کے سرکردہ اراکین پر اقرباء نوازی کے الزامات کا سامنے آنا کوئی اچھی بات نہیں ہے، خاص کر ایسے حالات میں جبکہ ریاست کے اندر پڑھے لکھے نوجوانوں کو بے روزگاری کے زبردست چلینج کا سامنا ہے۔ اب اگر سرکاری اداروں ،کارپوریشنوں یا مختلف مخصوص اسکیموں کے تحت عمل میں لائی جانے والی بھرتیوں میں پیشہ وارانہ تعلیم یافتہ بے روزگارنوجوانوں کی حق تلفی کےمعاملات سامنےا ٓئیں تو اسے انکی بدقسمتی نہیں بلکہ نظام کے اندر موجود بے ضابطگیوں کے سوا کیا نا م دیا جاسکتا ہے ۔ خاص کر پبلک سیکٹر اداروں کے اندر اقرباء نوازی، کرپشن اور سیاسی اثر و رسوخ ایک سکۂ رائج الوقت بن چکا ہے اورجس طبقہ کے پاس یہ وسائل دستیاب نہیں ہوتے وہ ان اداروں میں بھرتیوں اور تعیناتیوں کے حوالےسے سوچ بھی نہیں سکتے۔ سیاسی جماعتوں کے عمائیدین اور کارکنان کی جانب سےبار بار ایسے انتظامات سامنے آتے رہتے کہ اگر انہیں بھرتی مافیا کا نام دیا جائے تو غالباً غلط نہ ہوگا اور پھر جب ایسے حالات بنتے ہیں تو انتظامیہ کے اندر خود غرض اور مفاد پرست افسران بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے سے باز نہیں رہتے اور ظاہر ہے کہ اُوپر سے لیکر نیچے تک اس طبقہ کو ایک دوسرے کے مفادات کا خیال رکھنا پڑتا ہے، جس سے عملی طور پر ایسا مستحق طبقہ نا انصافی کا شکار ہو جاتا ہے، جنکے پاس مالی وسائل یا اثر و رسوخ میسر نہیں ہوتے۔ ایسے حالات کا یہ تقاضہ ہے کہ حکومت سنجیدہ اور مؤثر طریقے سے ایسی بھرتیوں اور تقرریوں کا جائزہ لیکر انکی تفتیش و تحقیق عمل میں لاکر حقائق کو سامنےلائے۔ علاوہ ازیں گزرے برسوں میں عمل میں لائی گئی بھرتیوں کی بھی چھان بین کی جانی چاہئے۔ اگر چہ یہ حقیقت ہے کہ عوام کی جانب سے بار بار ایسے مطالبات کا اظہار کیا جاتارہا ہے مگر ہر حکومت سنی ان سنی کرکے اس کی پردہ پوشی کرنے کی مرتکب ہوتی رہی ہے۔ ریاست کے اندر اگر چہ ایک بھرتی پالیسی موجود ہے لیکن اسکے باوجود ایسی صورتحال کیوں بن رہی ہے یہ ایک تشویشناک معاملہ ہے، کیونکہ اس عنوان سے مذکورہ پالیسی کے غیر مؤثر ہونے سے کوئی فرد بشر انکار نہیں کرسکتا۔ اس کی وجہ سے نوجوان طبقہ میں زبردست مایوسی، بد ظنی اور برہمی کا اظہار کیا جا رہا ہے، جو کم از کم آج کے حالات میں ہماری ریاست کےلئے کوئی نیک شگون نہیں ہے، کیونکہ ایک جانب حکومت دن رات اس بات کا ڈھنڈورہ پیٹتی رہتی ہے کہ نوجوانوں کو انتہاپسندی سے دور رکھنا حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے اور اس کے لئے وقت وقت پر مخصوص اسکیمیں رائج کی جارہی ہیں لیکن جب عمل آوری کے پہلو کا حال ایسا بنے تو انکے فوائد کی بات کرنا تو دور کی بات ہے نقصانات گنانا بھی اذیت ناک عمل ہوگا۔ خاص کر جب اعلیٰ تعلیم یافتہ ارو پیشہ وارانہ ڈگریوں کے حامل نوجوانوں ، جنہیں اپنے والدین نے سختیاں جھیل کر تعلیم سے سرفراز کیا ہوتا ہے، کے ارمانوں پر اُوس پڑے تو افسوس کرنے کےلئے بھی کچھ باقی نہیں رہتا۔ اب جبکہ وزیراعلیٰ نے حالیہ بھرتی سیکنڈل کی تحقیقات کروانے کا اعلان کرکے ریاستی چیف سکریٹری کو اس حوالے سے رپورٹ پیش کرنے کےلئے کہا ہے، تو یہ اُمید کی جاسکتی ہے کہ تحقیقاتی عمل صاف و شفاف ہوگا اور غلط کاری کے مرتکب افراد کو کسی بھی طور بخشا نہیں جائے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بھرتیوں کے متنازعہ معاملات کی ہمہ جہت جانچ پڑتال کے لئے ایک مستقل میکانزم تیار کیا جانا چاہئے اور ساتھ ہی ساتھ بھرتی عمل میں موجود خامیوں کی نشاندہی کرکے انہیں دور کیا جانا چاہئے۔