گذشتہ ہفتے کے مضمون کے ساتھ سلسلہ جوڑتے ہوئے گزارش کرنا چاہوں گا کہ اب وہ متبرک مقابر کہاں رہے ،اُن متبرک ستھانوں سے شیل نکلتے ہیں اور بارود کی بُو آتی ہے۔اتنی گولہ باری اور بمباری ہوئی کہ مختلف جگہوں کی اب پہچان ہی باقی نہ رہی۔ملک ِ شامـؔکی وہ عظمت گزشتہ اور منفرد مقام اُجڑے دیار اور کھنڈرات میں مبدل ہوچکی ہے ۔وہ شان و شوکت ،تازگی و دلفریبی قصہ ٔ پارینہ ہوچکی ہے ۔جنگ عظیم دوم میں جتنا ضرب و حرب کا سامان ساری جنگ زدہ دنیا میں اولاد آدم کو مٹانے کے لئے استعمال ہوا ،اُس کا نصف سے زیادہ حصہ شامـ ؔ میں گذشتہ چند برسوں میں استعمال میں لایا جاچکا ہے ۔اغیار جو چاہتا تھا اُس کو اپنا ہدف مل گیا ۔پھولوں اور پھلوں کے اس ملک میں آج پرندوں کو توپوں کے دہانوں کے بنا گھونسلہ بنانے کے لئے جگہ نہیں ہے ۔آدم زاد کہاں بسیرا کریں گے ؟جو مارے گئے شہید ہوئے مگرجو باقی ہزاروں لاکھوں باشندے کسی طرح سے زندہ ہیں ،جو کبھی ذی وقار ،صاحبِ اقتدار ،دوسروں پر خرچ کرنے والے سخی تھے ،آج دنیا کے مختلف ممالک میں مہاجر کیمپوں میں اپنی اور اپنی اگلی نسل کی بقاء کی فکر میں بوڑھے ہورہے ہیں۔یہودؔ و نصاریٰ ؔکو وہاں بھاگڑ بِلّا(Scare crow)چاہئے تھا جو اب خود الُو بن کر کھنڈروں پر راج کرے گا ۔اصل مقصد زیادہ سے زیادہ انسانوں (مسلمانوں )کا صفایا کرنا تھا وہ پورا ہوچکا ہے ۔
میں آپ کو بتا رہا تھا کہ ہماری آپسی ناچاقی اور چپقلش کی وجہ سے ہم نے کیا کھویا ۔ اُس کا ایک اجمالی خاکہ میں نے آپ کو دکھایا مگر اس کے علاوہ بھی ہم نے بہت کچھ کھویا ہے ۔جیسے ہم نے آپسی سنگت اور ملاپ کھودیا ،بن الاقوامی برادری کھودی ، ایک دوسرے کے کام آنے کی شکتی کھودی ،محمودو ایاز کی صف کھودی ۔صورت حال یہ ہے کہ آج ایک مسجد میں دو الگ الگ جماعتیں ہوتی ہیں اور مسجدوں کے دو دروازے بنتے ہیں جب کہ کلمہ اور قرآن تو ایک ہی ہے ،پھر یہ تفریق کیسی ؟یہی وجہ ہے کہ اغیار ہم پر چڑھ دوڑے ہیں اور ہم خس و خاشاک کی طرح اُسی ریلے کے ساتھ بہے جارہے ہیں۔ہمارا وہی حال ہے جو طغیانی آنے پر جھاگ کا ہوتا ہے ۔یہ بھی دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اغیار اسرائیل کو مستحکم کرنے اور گریٹر اسرائیل بنانے کے لئے اور کیا کیا کررہے ہیں۔
مسلمان ممالک جن میں کچھ کرنے اور کچھ کر دکھانے کا ساہس تھا ،اُن کو اغیار نے دنیا کے نقشے پر ہی باقی رکھا اور جو کچھ اُن کے پاس تھا ،اُس سب کو مٹی میں ملا دیا ، فنا کردیا ۔اب کسی حد تک صرف عربؔ ممالک،ایران ،پاکستان اور ترکیؔاپنے دستار کا آخری لاٹ سنبھالے ہوئے ہیں ۔یہ سب آپس میں ایک ہوجاتے تو یقینی طور کم از کم یہودؔاور ورلڈ پولیس مین کا دنیا سے نام و نشان مٹ جاتا یا کم ا زکم بے اثر ہوجاتا ۔چونکہ ایسا ہونا ممکن نہیں ہے ،اس لئے آثار و قرائین اور عقول و مشاہدے اسی بات کی طرف اشارہ کرر ہے ہیں کہ اغیار اپنی شیطانی کرتوت کو روبہ عمل لاکر عربؔممالک کو ایرانؔکے ساتھ یا اس کے وپریت (Vice-versa)ایرانؔکو ہی اُن کے ساتھ بھڑائے گا ۔اس طرح سے وہ ایک دوسرے کے ساتھ نبرد آزما ہوکر خود ہی ختم ہوجائیں گے اور اغیار کو بغیر محنت ،اپنا حرب و ضرب کا سامان ،وقت اور پیسہ ضائع کئے اپنا مقصد پورا ہوجائے گا ۔رہا پاکستان تو گمان اَغلب یہی ہے کہ اُس کو ہندوستان کی صوابدیدہ پر چھوڑ دیا جائے گا ۔دونوں ایٹمی پاور ہیں یا صلح کریں گے یا دونوں مٹ جائیں گے یا اس حد تک کمزور ہوجائیں گے کہ دو قدم چلنے کی سکت بھی باقی نہ رہے گی ۔دونوں ممالک غریب ہیں ۔دونوں جگہ غریبوں (جو پاورٹی لائین سے نیچے ہیں)کی تعداد بہت زیادہ ہے، اس لئے جنگ کے بعد جو باقی بچیں گے وہ بھکمری کا شکار ہوجائیں گے ۔
اب رہ جاتا ہے ترکستانؔ تو اُس کے لئے روسؔکافی دنوں سے خار کھائے بیٹھا ہے ۔ روسؔ چونکہ ایٹمی پاور ہے اس لئے ترکستان کو حد سے زیادہ احتیاط کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ روس کو مسلمانوں پر وار کرنے کا بہانہ چاہئے پھر وہ ساری انسانیت بھلا بیٹھتا ہے ،یہ لادین دیش روس ؔ ،مسلمانوں کا کس قدر دشمن ہے اُس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جنگ عظیم سے لے کر آج تک روسؔ نے جتنے بے گناہ و بے ضررمسلمان شہید کئے اُتنے اُسی دوران سارے یورپ میں شہید نہیں ہوئے۔سگ و شگال کی اس برادری نے بالشویک دہریہ انقلاب کے موقعہ پر جتنے بے گناہ و بے قصور مسلمانوں کو شہید کردیا اُن شہید ہونے والوں میں سے چوبیس ہزار حافظ قرآن ہی تھے۔تو اس طرح سے روسؔ ترکوںؔ پر ہر وقت کا خطرہ بنا رہے گا اور جوں ہی وہ کوئی چوںو چرا کی کوشش کریں گے تو لٹکتی تلوار سامنے حاضر ہوگی۔ایسا ہونے کے بعد ’’گریٹر اسرائیلؔ ‘‘ بنانے میں مخالفت اور مخاصمت قوت کسی کی بھی نہ رہے گی اور گمان یہی ہے کہ یہودؔ مدینہ منورہؔکے مضافات میں خیبرؔکے قلعوں تک آئیں گے( جس کی لسان ِ حق بیان سے پیش گوئی بتائی جاتی ہے ) جہاں سے وہ بد عہدی اور اسلام دشمنی کی وجہ سے سن 7؍ہجری میں نکالے گئے تھے اور یہی یہودؔ یوں کے باپ ڈاکٹر ہرذلؔکی’’ گریٹر اسرائیل‘‘ بنانے کی صیہونی پالیسی کا ایک حصہ بھی ہے ۔یہ مفروضے اور غیر جمالیاتی تصورات اس لئے باندھے جاتے ہیں کیونکہ کہا گیا ہے ع
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے
دنیا بھر کے عام مسلمانوں کی نظریں جن کی طرف ہیں بلکہ دنیاوی اعتبار سے وہ جن پر بھروسہ کرتے ہیںبلکہ وہاں سے اعلان ہونے والے ہر حکم پر لبیک کہتے ہیں، اُن کا وطیرہ کیسا رہا ؟ابھی حال ہی میں جب صدر امریکہ ٹر مپ نے قبلۂ اول کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیا تو دنیا بھر سے مخالفت ہوئی اور احتجاج ہوا مگر انہوں نے منہ نہیں کھولا ۔حالانکہ مفکروں اور دانشور وں کا یہاں تک کہنا ہے کہ اندرونی طور پر وہ اسرائیلؔ کے دوست ہیں پھر چاہے مجبوری میں ہی ہوں۔بہر حال ایسا ہونہ ہو وہ تو ابھی دور کی بات ہے اور اُس کا فیصلہ آنے والا وقت ہی کرے گا ،مگر ہم نے کیا کھویا اور آگے کیا کھونے والے ہیں ،ہمیں وہ دیکھنا ہے اور اُس طرف توجہ مرکوز کرنی ہے ۔ ویسے حدیث پاک کے ایسے الفاظ بھی نہیں ہیں کہ مسلمان بازیافت نہیں کریں گے یا نہیں کرسکتے ۔تفکر میں ہی قوموں کی کامیابی کا راز مضمر ہے ۔ہم عقل و فہم سے کام لیں تو سب کچھ ممکن ہے۔ ؎
آذرؔکی بُت تراشی نمرودؔ کی خدائی
کرتا ہے عزم مومن ان سب کو پارہ پارہ
وماعلینا الالبلاغ
رابطہ:- پوسٹ باکس :691جی پی او سرینگر-190001،کشمیر
موبائل نمبر:-9419475995