سرینگر//وادی میں خونین جھڑپوں کی تحقیقات کا مطالبہ اور ان معرکہ آرائیوں کے دوران فورسز اور پولیس کو دئیے انعامات کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے دوران حراست جبری طور لاپتہ ہوئے افراد کے لواحقین نے کہا کہ گزشتہ ایک ہفتہ سے جبری طور گمشدہ3کیسوں میں قانونی پیش رفت ہوئی ہے۔آہوں،سسکیوں اور رقوت آمیز مناظر کے ساتھ سرینگر کی پریس کالونی میں گمشدہ افراد کے لواحقین نے ’’ائے پی ڈی پی‘‘ کے بینئر تلے احتجاج کیا۔خاموش احتجاج کے دوران خواتین نے لاپتہ ہوئے افراد کی تصاویر اٹھا رکھی تھیں۔ خواتین نے جب اپنے لخت جگروں کے لاپتہ سے متعلق روداد بیان کی تو رقعت آمیز مناظر دیکھنے کو ملے جبکہ خواتین آپس میں ایک دوسرے کو دلاسہ دیتی ہوئی بھی نظر آئیں۔اس موقعہ پر ائے پی ڈی پی کی ترجمان طاہرہ بیگم نے کہا کہ 1889سے قریب8ہزار کے قریب لوگوں کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا ہے۔طاہرہ بیگم نے کہا کہ گزشتہ ایک ہفتے سے 3 کیسوں میں قانونی طور پر پیش رفت نظر آرہی ہے۔انہوں نے کہا ’’26 فروری کو ریاستی ہائی کورٹ میں دسمبر2004میں فورسز اور خفیہ ایجنسیوں کی حراست10افراد کی گمشدگی سے متعلق کیس میں حمتی دلائل پیش کرنے کا سلسلہ شروع ہوا‘‘۔انہوں نے کہا کہ جن لوگوں کو لاپتہ کیا گیا وہ جنگجو تھے،جنہوں نے فورسز کے سامنے سرینڈر کرنے کے بعد ریاست کیلئے کام کرنے کیلئے تیار کیا گیا تھااور بعد میں وہ لاپتہ ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ لاپتہ ہونے سے قبل انکے اہل خانہ نے کئی بار اپنے بچوں کے ساتھ فوجی کیمپوں میں ملاقات کی تھی جبکہ پولیس نے اس سلسلے میں نہ کوئی تحقیقات کی اور نہ ہی کیس درج کیا۔طاہرہ نے کہا کہ ریاستی ہائی کورٹ نے10افراد کے لاپتہ ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے جوڈیشل تحقیقات کی ہدایت دی جبکہ معاوضے کی سفارش بھی کی۔انہوںنے مزید کہا کہ27فروری کو ریاستی ہائی کورٹ نے2005کو پونچھ میں5مزدوروں کے لاپتہ ہونے سے متعلق خصوصی تحقیقاتی ٹیم سے2ہفتوں کے اندر تازہ رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ برس دسمبر میں ہائی کورٹ نے اس معاملے میں خصوصی تحقیقاتی ٹیم کو تشکیل دینے کی ہدایت دی تھی جبکہ انہیں2ماہ کے اندر تحقیقات مکمل کرنے کی تاکید کی تھی۔طاہرہ بیگم نے کہا کہ اگر چہ اس سلسلے میں تحقیقات مکمل نہیں ہوئی ہے،تاہم خصوصی تحقیقاتی رپورت نے اس واقعہ میں ملوث اصل سرغنہ،جو کہ فوج کیلئے کام کرتا تھا اور مشتبہ افراد کی نشاندہی کی ہے۔’’ائے پی ڈی پی‘‘ کی ترجمان نے مزید کہا کہ27فروری کو ہی گمشدہ ہوئے افراد کے لواحقین کی تنظیم نے بشری حقوق کے ریاستی کمیشن میں بانہال تحصیل میں132 لاپتہ کیسوں کی شکایت میں جوابی دعویٰ پیش کیاجبکہ پولیس اور سیول انتظامیہ نے اپنے جواب میں اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ112 افراد لاپتہ ہے۔انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں انسانی حقوق کے ریاستی کمیشن نے انتظامیہ اور پولیس سے مزید تفصیلات طلب کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کیسوں کے تناظر میں اس بات کی عکاسی ہوتی ہے ’۔انہوں نے کہا کہ’ جھڑپوں اور معرکہ آرئیوں کی جوڈیشل تحقیقات ہونی چاہے اور پولیس اور دیگر فورسز کو انعامات سے نوازنے کی بھی جانچ کی جانی چاہے‘‘۔