یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اردو زبان میں حلاوت ، وسعت،معنویت اور انسانی جذبات و احساسات سے ہم قدم رہنے کی جملہ صفات بدجہ ٔ اتم پائی جاتی ہیں ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ داغؔ دہلوی کواس شاعرانہ مبالغہ آرائی کی جسارت ہوئی ؎
احمد پاک ؐ کی خاطر تھی خدا کو منظور
ورنہ قرآن بھی آتا ، بزبانِ اردو
ارود برصغیر ہند وپاک کی واحد زبان ہے جودرۂ خیبر سے چاٹگام اور میانمار سے قلات تک مروج ہے ۔ عرب دنیا اور لندن ، امر یکہ اور پورپ میں بھی اس کے چرچے ہورہے ہیں ۔ یہ ہر معنی میں ایک مقبول عام مخلوط زبان ہے جس کی اپنی ا یک مخصوص شریں تہذیب وتاریخ ہے۔ اگرچہ اس زبان کے حروف تہجی سے لے کر جملوں کی بناوٹ ، تذکیر و تانیث اور واحد جمع تک اپنے منفرد اصول ہیں ، بایں ہمہ عربی ، فارسی اور پراکتوں نے اس کے کاکل سنوار نے میں اپنا کلیدی کردار ادا کیا۔ عربی زبان کی خوشبوئیں محمد بن قاسم کے ما بعد براستہ سندھ گجرات اس عوامی زبان میں جذب ہوئیں اور فارسی کی لذتیں محمود غزنوی کے ذریعے شمالی ہند تک پھیل کر اردو کے دامن ِارتقاء کو وسیع ترکر گئیں۔ یہ دونوں زبانیں اس نئی نویلی بولی کو گنگا جمنا کے دوآبے میں لے گئیں توایک نئی شاندار لسانی اثاثے کی دریافت ہو ئی ۔ آگے جب دلی مسلم حکمرانوں کی قلمرو میں آگئی تو اردو عربی ، فارسی اور پراکرتی بولیوں کے حسین سنگم سے ایک مخلوط مگر حسن ِ آہنگ سے معمور ارود زبان معرض ِوجود میں آئی جو بہت جلدبادِ بہاری کی صورت میں مختلف ثقافتوں، افکار ، مذاہب، عقائد ، مزاجوں میں خود کوڈھال کر جابجا اظہار کی کونپلیں اور بیان کے شگوفے پھوٹنے کا باعث بنی۔ چنانچہ حضرت بابا فرید گنج شکرؒ اور حضرت امیر خسرو ؒ کے اردو منظومات سے لے کر حضرت سید محمد خواجہ بندہ گیسودرازؒ کی ’’معراج لعاشقین‘‘ اورقلی قطب شاہ اور عادل شاہی دور تک اس زبان نے شباب بھری انگڑائیاں لیں ،پھرمحمد عطا حسین خان تحسین ؔاور میرامنؔ سے لے کر غالبؔ ، اقبال ؔ، فیض ؔاور فراقؔ تک اردو نے زمانے کے لسانی تقاضوں ، ادبی پیرائیوں اور ندرتِ اظہار کو اپنی آغوش میں لیا، یہاں تک کہ جب تحریک آزادیٔ ہند کا بگل بجا تو ارود کے ناقوس پر ہی قرعہ ٔ فال نکلا،ا س نے انقلاب زندہ باد کا نعرہ ٔ مستانہ دے کر مردہ دلوں میں انقلاب کی اُمید واُمنگ جگائی اور خفتہ ذہنوں میں عمل کاخون دوڑایا مگرافسوس سنہ سنتالیس سے ہی بہت سارے متعصب جفاکاروں نے اردو زبان کے ساتھ ایسی بدسلوکیاں روا رکھیں کہ ان فرمائیوں سے ستر سال سے یہ زبان اپنی ہی جنم بھومی میں سرد مہری ، اجنبیت اور فرقہ پرستانہ تعصب کے کوڑے سہتے ہوئے اپنی بقاء کی جنگ لڑتی چلی آرہی ہے ۔اس جنگ کی معجزہ نما بات یہ ہے کہ ارود یہ جنگ بے سر و سامانی کی حالت میں اکیلے لڑ رہی ہے ۔ ستم بالائے ستم یہ کہ اس دوران اپنی بے مروتی اور احسان فراموشی کو چھپانے کے لئے تنگ نظر ومتعصب لوگوں نے اس زبان کو مذہب کا لبادہ پہنانے کے جاہلانہ الزمات بھی آزمانانہ چھوڑے مگر اردو آج بھی جوں توں زندہ ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ ہماری ریاست میں بھی اردو کے ساتھ بر س ہا برس سے سوتیلی ماں کا سلوک رو ارکھا جا رہا ہے ۔ افسوس یہ بھی ہے کہ اس بدسلوکی سے اردو زبان کو بچانے کے لئے ریاست میں کوئی ایسی سنجیدہ ادبی تحریک برپا ہی نہ ہوئی جو اردو ادیبوں ، دانش وروں، شعرائے کرام اور صحافیوں کو کسی ایک مشترکہ پلیٹ فارم سے جو ڑ کے چلتی اور ارود کو اپنا آئینی حق دلانے کی کوششیں کر تی لیکن اب سرکاری سطح پر ارد و کونسل کے قیام سے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں نوید سحر کا ساگمان ہوتا ہے ۔ آج کی تاریخ میں ریاست میں ایک ایسی غیر سیاسی علمی وادبی اردو تحریک کے لئے میدان ہموار ہے مگر اس کے لئے کوئیفرہاد ومجنون بن کر سامنے تو آئے ۔ اردو کی کمزوری کا براہ راست منفی ا ثر ہماری جغرافیائی اکائیوں کی لسانی وحدت پر پڑ نا طے ہے۔اس لئے دفاعِ ارود کے لئے ایک مشترکہ پلیٹ فارم کا ہونا آج پہلے سے کئی زیادہ وقت کی پکار ہے ۔ اردو کی ترویج وارتقاء کے لئے یہ پلیٹ فارم اول خلوصِ دل اور عزمِ صمیم کے ساتھ اس زبان کے تئیں اپنا بے لوث اور فعال رول ادا کر ے، دوئم ریاست کی سرکاری زبان ہو نے کے باجود یہ زبان جس طرح سے عدم توجہی اور حوصلہ شکنی کی تختۂ مشق بنی چلی آرہی ہے ، اس کا موثر سدباب کر ے ، سوم یہ پلیٹ فارم اقتدار واختیار کی مسند پر بیٹھے لوگوں کو بہ دلائل سمجھائے چونکہ ریاست کے تینوںخطوں کو جوڑنے والے اس قومی اثاثے سے ہی ہماری وحدت اور باہمی مووت مشروط ہے، لہٰذا اس زبان کی ناقدری اوربے تعظیمی کو ترک کی جائے ،چہارم اس زبان کے تئیں عوام میں جو احساسِ کمتری پایا جاتا ہے، اس کا قلع قمع کرنے کے لئے موثر اور کارگراقدامات کئے جائیں تاکہ خدانخواستہ اردوکا حشر بھی ریاست میں فارسی جیسا نہ ہو ، پنجم اردو کاز کے لئے وقف اس پلیٹ فارم کی غایت اولیٰ یہ ہونی چاہیے کہ نہ صرف اس کی وساطت سے اردو دنیاکی معروف شخصیات کی تخلیقات اور ادبی کاوشوں سے لوگوں کو مستفید ہونے کے مواقع بڑھ جائیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اردو کے نئے فرہادوں اور جدید تیشوں کو تلاشنے کے لئے یہ ادارہ ہر اعتبار سے ایک سنگ میل ثابت ہو۔ ششم اردوزبان کی ترقی و کمال کے لئے سرکاری ،نیم سرکاری اور پرائیوٹ سیکٹر میں ارود زبان کے ڈگری یافتہ طلبہ وطالبات کے لئے روزگار کے مواقع ڈھونڈ نکالے جائیں ۔ اس نوع کے اردو دوست اور اتحاد پرور اہداف کی جانب اگر اردو کے بہی خواہ لوگ اپنے اپنے دائرہ ا ثر میں سنجیدہ کام کریں گے تو ریاست میں اردو کے دوام وبقاء کا خواب ایک ٹھوس حقیقت کاروپ دھارن کرے گا۔ ہمیں اس بات کا بھی حقائق کی بنیاد پر کھلا اعتراف کرنا چاہیے کہ یہاں وقت وقت پہ اردو کے تحفظ وبقاء کے نام پر بہت ساری اردو انجمنیں قائم ہوئیں مگر ان میں یا تو خلوص کا فقدان رہا یا استقامت کی کمی ،اس لئے یہ بہت جلد مفادات کی بھینٹ چڑ ھ کر کاغذی گھوڑے ثابت ہوئیں۔ بہر صورت مقام شکر ہے کہ اردو سے وابستہ زیادہ تر ادیب اور قلم کار اخلاص سے بہرہ مند ہیں بلکہ وہ لسانی تعصبات اور گروہی مفادات جیسی گھٹیا چیزوں سے بالاتر ہوکر ہر زبان اور ہر بولی کی دل سے قدر اور تعظیم وتکریم کرتے ہیں ۔ یہی بے تعصبی اردو کازکے رہنماؤں کے لئے مثل تریاق ہے جس سے اردو تہذیب کا احیاء نو ممکن ہے اور جس کی بدولت اردو کو لوگوں میں مقبولیت، پذیرائی اوربے پناہ محبتیں مل سکتی ہیں ۔ اُمید کی جانی چاہیے کہ اردو کاز سے دلی رغبت رکھنے والے تمام محبانِ اردو ان تجاویز پر سنجیدہ غور وفکر کریں گے اور سب مل جل کر بقائے اردو کے مشترکہ کاز کے لئے ہمہ تن مصروفِ عمل ہوں گے۔