’’اﷲ تعالی کی پیدا کردہ مخلوق میں سب سے زیادہ عقل و دانش انسان کو عطا کی گئی ہے۔اﷲ تعالی کی پیدا کردہ مخلوق میں سب سے زیادہ عقل و دانش انسان کو عطا کی گئی ہے۔اﷲ تعالیٰ کی پیدا کردہ۔۔۔۔۔۔‘‘۔دس سالہ فیضان کانوں میں اُنگلیاں ٹھونس کر زور زور سے اسکول میں پڑھے سبق کا ورد کررہا تھا۔اُس کی ماں زمرد کافی دیر سے بے حس و حرکت اُسے تک رہی تھی۔فیضان نے کچھ دیر کے لئے کتاب بند رکھی تو اُس کی ماں نے ایک لمبی آہ بھری اور اُسے کہنے لگی،’’بیٹے! تم جس سبق کا اب تک ورد کررہے تھے،وہ سب جھوٹ،فریب اور من گھڑت باتیں ہے‘‘۔
’’اماں! یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں۔اسکول میں سارے اساتذہ تو یہی کہتے ہے‘‘۔ فیضان کو تذبذب ہوا۔
زمرد نے ایک بار پھر آہ بھری ،کھڑکی سے باہر دیکھا۔۔۔دور کافی دور۔۔اور پھر اپنے بیٹے سے کہنے لگی،’’میرے جگر کے ٹکڑے یہ ساری باتیں صرف پڑھنے اور پڑھانے کے لئے ہوتی ہے،حقیقت تو یہ ہے کہ اﷲ تعالی کی پیدا کردہ مخلوق میں سب سے زیادہ کم عقل اور گھٹیا انسان ہی ہے‘‘۔
’’او ہو اماں! مگر کیسے؟‘‘۔
’’یہاں آجاؤ کھڑکی کے پاس ۔۔۔وہ دیکھوآسمان کی طرف۔دیکھو تو کتنا تال میل ہے اُن کے بیچ میں۔کوئی تارا ایک دوسرے سے نہیں لڑتا اور سب سے بڑی بات یہ کہ اکیلے چاند کی عزت پر کوئی تارا ڈاکہ نہیں ڈالتا۔ڈالتا ہے کیا؟‘‘۔
’’نہیں اماں!‘‘۔
’’مگر بیٹے! انسان کو دیکھو ۔۔۔دیکھو انسان کیسے بے بس اور اکیلے لوگوں کی جان،مال اور عزت پہ ڈاکہ ڈالتا ہے۔۔۔انسان کس طرح آپس میں لڑ رہے ہے،فرد فرد کے ساتھ ،ملک دوسرے ملک کے ساتھ،ایک مذہب دوسرے مذہب کے ساتھ،ایک ذات دوسری ذات کے ساتھ۔۔۔۔مگر ان چاند تاروں کو دیکھو کتنا تال میل ہے اُن کے بیچ ۔یہ کسی کے ساتھ نہیں لڑتے اور نا ہی اکیلے چاند کی عزت کو کبھی تار تار کرنے کی کوشش کرتے ہے۔۔مگر انسان!۔۔۔ایک اور مثال سے سمجھاتی ہو بیٹے!موسموں کی مثال لے لو۔۔۔موسموں کے بیچ دیکھو کتنا تال میل ہے۔کبھی گرما میں برف باری نہیں ہوتی،خزاں میں پھول نہیں کھلتے،بہار میں پتے نہیں جھڑتے،موسم ایک دوسرے سے بہت پیار کرتے ہے اور اسی لئے آپس میں نہیں جھگڑتے۔۔۔مگر انسان کو دیکھو اُسے لڑنے اور ایک دوسرے کی خوشیاں برباد کرنے میں کتنا لطف و سرور آتا ہے۔۔۔اب اللہ کی یہ مخلوق زیادہ کم عقل ہیں یا انسان؟‘‘۔
’’انسان‘‘ فیضان مضطرب ہوکر یہی ایک لفط کہہ سکا۔
زمرد کا کنبہ دو ہی افراد پر مشتمل تھا۔وہ اور اُس کا دس سالہ بیٹا فیضان۔اُن کی جھونپڑی بستی سے دور ایک پہاڑی پر واقع تھی۔اُس کا خاوند جاوید فوج میں کام کرتا تھا جو سرحد پر ایک جھڑپ مارا گیا تھا۔اُس وقت فیضان کی عمر صرف تین سال تھی۔زمرد کو خاوندکی جدائی نے باولا کردیا تھا۔اُس کی موت کے بعد سے وہ بس فلسفیانہ باتیں کرتی رہتی تھی،اور باتیں سنُنے والا بھی کون تھا۔۔۔اُس کا معصوم دس سالہ بیٹا۔
جاوید کی موت کے بعد اُس کی ساری جائداد اُس کے بھائیوں نے ہڑپ لی اور زمرد کو گھر سے بے دخل کردیا گیا۔وہ ا س بات سے واقف تھی کہ قانون کے ہاتھ لمبے ہوتے ہے مگر وسائل کی عدم دستیابی کی صورت میں قانون بھی کہاں انصاف دلانے والا تھا!محلے کی مسجد کمیٹی نے چندہ جمع کرکے دور ایک پہاڑی پر ماں بیٹے کے لئے دو کمروں پر مشتمل ایک جھونپڑی بنائی۔گھر کا خرچہ بھی مسجد کمیٹی کے چندے سے ہی پورا ہوتا تھا اور وہ کئی سالوں سے اپنے بیٹے کے ساتھ اسی جھونپڑی میں رہ رہی تھی۔
زمرد قدرت کی کاری گری کا ایک جیتا جاگتا نمونہ تھی۔اُس کی خوبصورتی دیکھ کر چاند بھی شرما جاتا۔کہتے ہے کہ خوبصورتی خطرناک ہوتی ہے اور اس کا تجربہ اب زمرد کو بھی اچھی طرح ہو چکا تھا۔گاؤں کے کئی درندہ صفت انسان آج تک کئی بار اُس کی عزت پہ ہاتھ ڈالنے کی گھناؤنی کوشش کرچکے تھے مگر ہر بار اُنہیں شرمندگی ہی اُٹھانی پڑی تھی۔۔۔۔۔۔
سورج اندھیرے سے وداع لے چکا تھا۔تاریکی اب اپنی مکمل نمائش کرچکی تھی۔زمرد رفعِ حاجت کے لئے چھونپڑی سے باہر آئی۔باہر آنے کی دیر تھی کہ اچانک کسی نے اُس کے سر پہ زور سے وار کیا۔اُس کی آنکھوں میں اندھیرا چھا گیا۔وہ نیم بے ہوشی کی حالت میں اپنے دائیں بائیں جائزہ لینے لگی۔تین نقاب پوش انسانوں کے دھندلے چہرے اُسے نظر آئے اور اسی کے ساتھ وہ بے ہوش ہوکر زمین پر گر پڑی۔وہ تینوں نقاب پوش اُس پر وحشی جانوروں کی طرح ٹوٹ پڑے ۔ایک ایک کرکے اُنہوں نے زمرد کی عزت کو تار تار کیا۔اندر فیضان زور زور سے اپنے سبق کا وردکر رہا تھا،’’اﷲ تعالی کی پیدا کردہ مخلوق میں سب سے زیادہ عقل و دانش انسان کو عطا کی گئی ہے!!!!!‘‘۔
برپورہ پلوامہ کشمیر
موبائل نمبر؛9596203768