ڈاکٹر انیس ہر روز انجان صاحب کو تازہ ناول کے بارے میں پوچھنے کے بعدسُنانے کااصرار کرتاہے۔کیونکہ اُسے لگ رہا ہے کہ کہانی اس کی زندگی کے اتنی قریب ہے کہ گمان ہوتا ہے کہ انجان اس کے ہر ایک راز سے واقف ہے۔لیکن ان د ونوں کا تعلق صرف مریض اور ڈاکٹر تک ہی محدود ہے۔پھر ناول کا ایک ایک لفظ کیوں اُسے اپنی کہانی بتا رہا ہے۔ اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ وہ پریشان ہے کہ کہانی کا کلائمکس کیا ہوگا؟ اس لئے ہر روز ٹیلی فون پر انجان صاحب کی خیرو عافیت پوچھنے کے بہانے ناول کا کلائمکس جاننا چاہتا ہے۔ لیکن جواب ملتا ہے کہ کہانی طول پکڑرہی ہے اور اختتام ابھی اس کے ذہن میں نہیں آرہا ہے۔
اب ڈاکٹر صاحب کا یہ معمول بن گیا ہے کہ وہ شام کو گھر جانے سے پہلے انجان صاحب سے ملنے چلا جاتا ہے اور وہاں ناول کے تازہ اوراق پڑھ لیا کرتا۔عکس در عکس ان صفحات میں اسے وہی کچھ نظر آتاجو ۲۴ گھنٹوں کے دوران اس کی مصروفیات ہوتی تھیں۔وہ سوچ رہا ہے کہ انجان نے کوئی جاسوسی کیمرہ تو نہیں لگایا ہے کہ اُس کو میری تمام حرکتیں معلوم ہوتی ہیں۔
پریشانی کی حالت میں ڈاکٹر انیس رات بھر ناول کے متعلق سوچتا رہا۔ اس کے ذہن میں چند بُرے خیالات بھی اُبھرنے شروع ہوگئے کہ کیوں نہ پیس میکر کا سوچ شارٹ کیا جائے جو حا ل حال ہی اس نے انجان کے سینے میں لگایا تھا۔ لیکن ساتھ ہی سوچتا ہے کہ ناول کا کلائمکس لکھے بغیر اُسے مرنا نہیں چاہئے۔
آج جب ڈاکٹر انیس انجان کے گھر پہنچ گیاتو دیکھتا ہے کہ انجان اپنے بستر پر ایسے لیٹا پڑا ہے جیسے ناول کا کلائمکس لکھ کر اُس کی عمر بھر کی تھکن دُور ہوئی ہو۔ یہ دیکھ کر انیس لکھے پڑے اوراق ڈھونڈنے لگا۔ اُس کی نظر ایک پیڈ پر پڑی، جس کے اوپر فوٹین پین کھلا پڑا تھا۔اُس نے پیڈ اُٹھایا اور اس پر تحریر سطریں پڑھنے لگا۔ جوں جوں وہ بڑھتا گیا اسکے چہرے کا رنگ تبدیل ہونے لگا اور پُرخشم ناک آنکھوں سے انجان کی طرف دیکھنے لگا۔ اُس نے پیڈ کے اوراق پھاڑ کر اُس کے چہرے پر زور سے پھینک دیئے، لیکن انجان نے کوئی حرکت نہیں کی۔یہ دیکھ کر انیس نے سارے اوراق اُٹھاکر اپنی جیب میں رکھے۔ اس کے بعد ٹارچ ڈال کرانجان کی آنکھوں میں اپنا عکس ڈھونڈنے لگا۔
بے خوف قہقہہ مارکے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فونٹین پین بند کرکے وہ وہاں سے بھاگ نکل آیا۔
موبائیل نمبر؛9419203397