آج کل کا معاشرہ اپنی تمام ترجدیدیت اور ترقی کے باوجود اِخلاقیات کے اعتبارسے بڑے شدیدبحران کاشکار ہے ۔اس اعتبار سے یہ نخلستان کم اور ریگستان زیادہ ہے ۔علم وحکمت کے شعبوں میں روز افزوں ترقی کا بڑا المیہ یہ ہے کہ انسان اگرچہ چاند ستاروں کو چھوتے ہوئے بہت آگے نکل گیا ہے مگر اس سفر کے دوران زمین پر رہنے اور جینے کا سلیقہ بھولتا جا رہا ہے ۔اِنسان کی بقا کا راز انسانیت اوراحترامِ انسانیت میں ہے ۔انسانیت کا یہ احساس پیار ، محبت ،خلوص اور ایثار کے جذبوں سے فروغ پاتا ہے۔ مگر جیسے جیسے کرۂ ارض پر انسانی بستیاں گھنی ہُوتی جا رہی ہیں دلوں کی دوریاں بڑھتی جا رہی ہیں ۔انسان کیلئے انسان عام سی چیز ہوتے جا رہے ہیں ۔سرمائے کا حصول محور بن کر رہ گیا ہے جس کے گرد تمام بنی نوع انسان لٹُو کی طرح گھوم رہے ہیں ۔اِس کے حصول میں جائز ونا جائز کی تمیزمِٹتی جارہی ہے۔ جب روپیہ کی حرص انسان کی انسانیت پر غالب آجاتی ہے تواُس کا فکر و شعور خود بخود مردہ ہونا شرو ع ہوجاتا ہے اور اِس کی حیثیت مداری کے کھیل میں بندھے ہوئے اُس جانور کی سی ہو جاتی ہے جسے مداری جس طرح چاہے نچاتا پھرتا ہے، روپے کی اِس اندھی بھوک میںانسان کی بصارت اتنی کمزور ہوجاتی ہے کہ اُسے روپے کے سوا اور کچھ سوجھتاہی نہیں ہے۔ روپے کی اِس دوڑمیں خلش ، لغض ،نفرت اور عداوت کے جذبے فروغ پاتے ہیں جس سے معاشرے میں فتنہ و فساد کی آگ بھڑکتی ہے ۔کہتے ہیں واقعات سے وجوہات کہیں زیادہ اہم اور قابلِ توجہ ہوتی ہیں۔ جب ہم اس معاشرتی بحران کی وجوہات پر غور کرتے ہیں تو چند ایک وجوہات نمایاں طور پر اُبھر کر سامنے آتی ہیں جوبمعہ حل کی راہوں کے حسب ِذیل ہیں ۔
(۱) کنبے کاانتشار(۲) تعلیم سے اخلاقیات کی نفی
برصغیر میں کنبے کی بڑی اہمیت رہی ہے اورآج بھی ہے ۔اس نے فردکی تعمیرمیں اہم رول اداکیاہے ۔اِسے اگرافرادسازی اورکردارسازی کااولین ادارہ کہاجائے تو بے جانہیں ہوگا۔انسان کے بننے اوربگڑنے میں کنبے کابڑاہاتھ ہوتاہے لیکن بدقسمتی سے مغربی اثرات کے تحت یہی بنیادی ادارہ شدیدانتشار،مشکلات اوردبائو کاشکار ہے۔ہم جسمانی آزادی کے باوجود ذہنی غلامی کے شکنجے سے نجات حاصل نہیں کرسکے ہیں ۔صدیوں کی غلامی نے ہماری فکرونظرپر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں ۔ہم ہرچیز کومغربی آنکھ سے جانچنے ،پرکھنے اورسمجھنے کے عادی ہیں ۔جس ترقی کی آخری منزلوں کوچھولینے کے بعداہلِ مغرب تھکے ہارے واپسی کی راہوں کی تلاش میں بے قرارنظرآتے ہیں ہم ترقی کی اُنہی منزلوں کوپانے کے فراق میں آنکھیں بندکرکے رواں دواں ہیں۔آج سے سترّاسی سال پیچھے مڑکردیکھتے ہیں تو ہمارے ہاں مشترکہ کنبے کاچلن نظرآتاہے ۔بچوں کے ماں باپ ،چاچے چاچیاں اوردادے دادیاں ایک ہی چھت کے تلے مل کررہتے تھے ۔اکثرچولہا اوردسترخوان مشترکہ ہوتاتھا۔یہیںبچے مِل جُل کر رہنااوربڑوں کااحترام کرناسیکھتے تھے ۔مگرآج کنبے کایہ تصورقصّۂ پارینہ ہوتاجارہاہے ۔نوجوان جوڑے شادی کے فوری بعدشہری علاقوں کارُخ کرتے ہیں یاپھروہی آس پاس الگ سے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجدبنالیتے ہیں اوربزرگوں کوبڑھاپے کی مشکل اورصبرآزمامنزلوں سے گذرنے کیلئے تنہاچھوڑدیتے ہیں۔وہ مکان جوکبھی انہوں نے اپنی اولاد وں کیلئے بڑے شوق سے بنائے تھے انکے درودیوار اُنہیں کھانے دوڑتے ہیں ۔انہیں ہروقت تنہائی، بے بسی اوربے کسی کادرد کچوکے لگاتارہتاہے ۔اُدھرنوبیاہتاجوڑے جب بزرگوں سے الگ ہوکرنئی زندگی کی شروعات کرتے ہیں توجدیدفیشن ایبل زندگی کے تقاضوں کے سامنے انہیں اپنے ذرائع آمدن قلیل نظرآتے ہیں ۔سرمایہ دار انہ مزاج کی حامل دُنیامیں انہیں سرمائے کاقحط محسوس ہوتاہے ۔سکون ادھررہتاہے نہ اُدھررہتاہے اورپھریہ نوبیاہتاجوڑے چاروناچار اپنے معصوم بچوں کونوکروں اورآیائوں کے رحم و کرم پرچھوڑکرسرکاری یاغیرسرکاری نوکری کی صورت میں روپیہ کمانے نکل کھڑے ہوتے ہیں ۔بچوں کونہ توماں باپ کاپیارہی مل پاتاہے اورنہ ہی بزرگوں کی رفاقت وشفقت ۔انہیں نہ ماں کی لوریاں نصیب ہوتی ہیں اورنہ دادادادی کی کہانیاں۔ اپنوں سے پیارکی محرومی کے باعث بچوں کے اندرایک خلاساپیداہوتاجاتاہے جوکہ وقت کے ساتھ ساتھ غصّے اور نفرت کے جذبات سے بھرتاجاتاہے جوآگے چل کر بہترمعاشرے کے فروغ میں بڑی رکاوٹ ثابت ہوتاہے۔
وہ زمانے کیاخوب تھے جب مرد روزی روٹی کی تلاش میں گھروں سے دُوردُورنکل جایاکرتے تھے اورپیچھے گھرمیں ان کے والدین ، بیویاں اور دیگر بزرگ لوگ گھریلوماحول میں رہ کر بچوں کی افرادسازی ،کردارسازی اورقوم سازی کااہم فریضہ انجام دیاکرتے تھے ۔انفرادی سطح پرقوم گھروں میں تیارہوتی تھی اورجب یہ تیارشدہ لوگ عملی زندگی کے مختلف میدانوں میں اُترتے تھے توملک وقوم کوہربات پرترجیح دے کر بہت آگے لے جاتے تھے۔ مگراب یہ سب بکھرتاہی چلاجارہاہے ۔بزرگوں،بچوں اوربچوں کے ماں باپ کے درمیان فاصلے ہی فاصلے ہیں۔بزرگ اپنے بچوں کی صورت دیکھنے کیلئے ترستے رہتے ہیں اوربچوں کے بچے ّان سب کیلئے ترستے ہیں ۔روپیہ کی محبت دیگر سب محبتوں کونگلتی جارہی ہے ۔ پیار،محبت ،خلوص اورایثار جیسی بہترین انسانی صفات توکاغذ کے ان ادنیٰ ٹکڑوں کیلئے بے دریغ قربان کی جارہی ہیں ۔گھرمیں ماں کاوجود بچے کیلئے پہلابڑاسکول ہوتاہے جس کی بابرکت اورمتبرک تربیت کااثر تاعمراُس کی زندگی پررہتاہے ۔گھرتوا ب پہلے سے کہیں بہترحالت میں ہیں لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ اب یہ بابرکت سکول ہی گھروں سے رخصت ہوتاجارہاہے ۔صبح بچّہ ابھی بسترپر کروٹیں بدل رہاہوتاہے توبیچاری ماں نوکری کیلئے نکلنے کی تیاری کررہی ہوتی ہے ۔غروب آفتاب کے بعدوہ بڑی مشکل سے گھرلوٹ پاتی ہے اوراپنے جگرگوشوں کواچھی طرح پیارکرنے کے بجائے امورِ خانہ داری اورآنیوالی صبح کی تیاریوں میں مصروف ہوجاتی ہے ۔دن کے اُجالوں میں بچوں کونہ ماں باپ ملتے ہیں نہ ماں باپ کوبچے ۔دادادادی کی رفاقتوں اورشفقتوں کاتوسوال ہی نہیں۔وہ کسی دوردرازگائوں میں پڑے اپنی زندگی کے باقیماندہ دن گن رہے ہوتے ہیں ۔بچوں ۔ماں باپ اور بزرگوں کے درمیان دُوریوں کی یہ اذیت کسی ستم سے کم نہیں ہے ۔بزرگ اپنے پیار،محبت اورشفقت سے بچوں کی پرورش میں ہاتھ بٹاکر انہیں اچھاانسان بنانے میں اہم رول اداکرتے ہیں ۔ان کی دعائیں اتنی بابرکت ہوتی ہیں کہ ان سے تقدیریں سنورجاتی ہیں مگرافسوس جدیدیت کی اندھی دوڑ اورسرمائے کی انمٹ بھوک یہ سب کچھ چھینتی جارہی ہے۔کسی نے کیاخوب کہاہے ؎
ہمارے گھر میں بزرگ یہ اللہ کی رحمت ہے
یہ درخت پھل نہیں ،سایہ دیتے ہیں
کنبہ جیسے بنیادی ادارے کے انتشارکے باعث پیار،محبت،اخلاق ، ہمدردی اوررواداری سے خالی ایک ایسامعاشرہ فروغ حاصل کرتاجارہاہے جوکسی ایسے بڑے ڈھول کی مانند ہے جوانسانیت کے نام پر بجتاتو زوروں سے ہے مگراندرسے انسانی صفات کے لحاظ سے کھوکھلاہے ۔معاشرتی اعتبارسے یہ ایک بڑاخطر ہ ہے ۔اس معاملے میں حل ایک نظرآتاہے وہ یہ کہ معاشرتی اعتبارسے تہذیب وتمدن کے جس نازک موڑ پراب ہم کھڑے ہیں بہترہے وہاں سے آگے بڑھنے کے بجائے اپنی اصل کی جانب واپس لوٹ جائیں ؎
ہاں دِکھادے اے تصّورپھروہ صبح وشام تُو
دوڑپیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تُو
(ب)ہم دوسرے پہلویعنی نظامِ تعلیم سے اخلاقیات کی نفی پرغورکرتے ہیں۔انسان کیلئے تعلیم وتربیت کی بڑی اہمیت ہے ۔تعلیم ایک طے شدہ نصاب کے تحت دی جاتی ہے لیکن اگرطے شدہ نصاب سے اخلاقیات کونکال دیاجائے یاپھراُس کابرائے نام اہتمام کیاجائے توایسے نصاب سے طالب علم ،علم توحاصل کرسکتاہے لیکن تعلیم نہیں ۔تعلیم توکسی اورہی شے کانام ہے ۔یہ انسان کی شخصیت کوبحیثیت مجموعی متاثرہی نہیں کرتی بلکہ اُسے ہمہ گیرتبدیلیوں سے بھی ہمکنارکرتی ہے۔تعلیم کابڑامقصد انسان کوکمانے کے قابل بنانے کی نسبت کہیں زیادہ اچھاانسان بناناہوناچاہیئے ۔یہ مقصد اخلاقی تعلیم سے ہی موثرطریقے سے حاصل کیاجاسکتاہے ۔اخلاقیات کی تعلیم میں وہی حیثیت ہے جوروح کی جسم میں ہوتی ہے ۔اخلاقی تعلیم کامنبع مذہب ہے۔دُنیاکے تمام بڑے مذاہب میں بہت سارے اختلافات کے باوجود بہت ساری باتیں مشترکہ بھی ہیں ۔ان مشترکہ باتوں میں سب سے بڑی مشترکہ بات خُداکی خُدائی کااعتراف اوراُس کاخوف ہے لیکن جب سے اخلاقیات کوشعبٔہ تعلیم سے نظرانداز کیاجارہاہے یہ رجحان بھی کم ہورہاہے ۔جیسے جیسے اِس رُجحان میں کمی آتی جارہی ہے ویسے ویسے معاشرے میں فتنہ وفساد کارجحان بڑھتاجارہاہے۔ جسِ نظامِ تعلیم سے اخلاقیات کورخصت کردیاجاتاہے اُ س سے فارغ شُدہ افرادایسے شُتر بے مہاربن جاتے ہیں جودوسروں کوکچل کرآگے بڑھنااوراپنی تمام جائز وناجائز خواہشات کوپوری کرنا اپناحق سمجھتے ہیں ۔ہم اپنے نظامِ تعلیم میں اخلاقیات کی نظراندازی کے باعث شدید معاشرتی بگاڑکاشکار ہورہے ہیں ۔اخلاقیات سے خالی نصاب علم تودیتاہے مگرتعلیم نہیں دیتا۔یہ عِلم ،علِم توہوتاہے مگراس میں حلم نہیں ہوتا۔اس میں جاننے کاغرورتوشامل ہوتاہے مگرپہچاننے کاسرورنہیں ہوتاہے ۔انسان کیلئے جاننے کے بجائے پہچاننا کہیں زیادہ اہم ہے ۔خودآگاہی اورخودشناسی کاعلم آدمی کوانسان بناتاہے ۔اُسے آسمانوں پراُڑنے کے قابل بننے کے ساتھ ساتھ زمین پررہناسکھاتاہے ۔قدرت اللہ شہاب مرحوم نے شہاب نامہ میں اِس جانب اشارہ کرتے ہوئے کیاخوب واقعہ قلم بندکیاہے ۔لکھتے ہیں:
’’جاپان جانے سے پہلے ہم برمامیں بھی چندروزکیلئے ٹھہرے تھے ۔اُس وقت برماکے وزیراعظم مسٹراُونوتھے ۔وہ بدھ بھکشوئوں کی طرح ایک نیک سیرت انسان تھے ۔ان کے متعلق مشہور تھا کہ وہ ہرسال کم ازکم ایک ماہ کسی غاریامعبد میں معتکف ہوکر عبادت اورمراقبے میں بسرکرتے تھے ۔انہوں نے صدرایوب سے پوچھا کہ اُن کاجاپان کادورہ کیسارہا؟صدرایوب نے جاپانی قوم کی انتھک محنت ،لگن اورترقی کی تعریف کرتے ہوئے کہا،’’جاپانی لوگ واقعی مشین کی طرح کام کرتے ہیں ۔یہ سُن کرمسٹراونوکھلکھلاکر ہنسے اوربولے ،’’بیچارے بدنصیب جاپانی ۔انسان کی عظمت انسان بننے میں ہے ۔مشین بننے میں نہیں ‘‘۔
پرانے وقتوں میں ماں کی گودسے لے کرمدرسوں اورپاٹھ شالائوں تک یہ تعلیم بڑے منظم اندازسے دی جاتی تھی ۔یہی وجہ تھی کہ اس سے فارغ التحصیل لوگ چاہے روپیہ کمانے کی چلتی پھرتی اچھی مشین نہ بھی بن سکتے تھے مگراچھے انسان ضروربن جاتے تھے ۔معاشرے میں ہرطرف پیار،محبت ،رواداری ،افہام وتفہیم اوربھائی چارے کاماحول رہتاتھا ۔اقوامِ فرنگ کی آمد سے قبل کی تاریخ پرنظرڈالتے ہیں تو وہاں بھی سیاست،قیادت اوراقتدارواختیارات کے جھگڑے کثرت سے نظرآتے ہیں ۔ان جھگڑوں میں ملوث صف اوّل کے لوگ مذہبی توضرورتھے لیکن اُن میں مذہبی نفرت نہیں تھی۔وہ مختلف طبقوں اورفرقوں سے توضرورہوسکتے تھے مگراُن میں فرقہ پرستی نہیں تھی لیکن اقوام فرنگ کی آمدواقتدار کے بعدمنظرنامہ بدل گیا۔انہوں نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کیلئے مذہب کی بنا پرفرقہ پرستی کوہوا دی ۔وہ توچلے گئے لیکن اُن کامزاج نہیں گیا۔ ان کی میراث نہیں گئی۔اگرکہیں کچھ کسرباقی رہ گئی تھی تونظام ِ تعلیم سے اخلاقیات کی رُخصتی کی صورت میں وہ بھی پوری ہوگئی۔ اس کانتیجہ یہ ہوا کہ معاشرے میں نفرت ،فرقہ پرستی ، خودغرضی اور بے راہ روی عام ہوگئی۔ پھرجب یہ سب ہوگیا تومعاشرے میں اندرونی بگاڑ اورانتشارکاپھیلناتوفطری ہی تھا ۔اِس ماحول میں اس سب کاذمہ دار اکثرنوجوانوں اوربچوں کوٹھہرایاجاتاہے لیکن نوجوان توویسا ہی کرینگے جیساکہ ہم اُن کوتیارکرینگے ۔انہیں اخلاقی تربیت کیلئے گھروں میں نہ بزرگوں کی شفقت ورفاقت ہی نصیب ہوتی ہے اورنہ پوری طرح سے ماں باپ کی۔ آخریہ سب کرنے کروانے کیلئے سکول ہی رہ جاتے ہیں ۔لیکن وہاں نصاب میں نہ تواخلاقیات کوکوئی خاص مقام حاصل ہے اورنہ ہی اس کی تعلیم کاکوئی مناسب انتظام ہے ۔وہاں سارازور اُسے اچھاانسان بنانے کے بجائے روپیہ کمانے کی بہتراورکارگرمشین بنانے پرہوتاہے ۔ماں باپ بھی بچے کی اخلاقی تربیت کرنے کے بجائے اپنازیادہ زوراسی طرف لگاتے ہیں ۔آخربچّہ اخلاقی تربیت کیلئے جائے توکدھرجائے ؟ ۔ایساعلمِ، علمِ کی حدتک علمِ توہوسکتاہے لیکن یہ بچوں کوحلال وحرام کی تمیز نہیں سکھاتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اِس علم سے فارغ التحصیل افرادجب عملی زندگی میں داخل ہوتے ہیں تواُن کاسارازور روپیہ بنانے پرہوتاہے ۔ ان میں سے جولوگ بڑے بڑے عہدوں پربراجمان ہوجاتے ہیں اُن میں سے بہت سُوں کادامن جلدہی رشوت خوری ،چوری اوربدکاری جیسے سیاہ دھبوں سے داغدار ہوجاتاہے ؎
گلہ ہے یارب خدابندانِ مکتب سے مجھ کو
سبق شاہین بچوں کودے رہے ہیں خاک بازی کا
(اقبالؒ)
اب سوال پیداہوتاہے کہ اس صورت حال میں معاشرتی فلاح وبہبودکے لئے کیا،کیاجائے ۔میراخیال یہ ہے کہ سکولوں اوردیگرعلمی درسگاہوں کوطالب علموں کے اندرخوفِ خدا کے رُجحان کوفروغ دینے کیلئے موثرطریقے سے اِستعمال کیاجاناچاہیئے تاکہ اس رجحان کوایک صالح معاشرے کی تعمیرمیں استعمال کیاجاسکے۔ ہمیں اِس با ت کاایماندارانہ اندازہ کرلیناچاہیئے کہ بندوں کیلئے بندوں کے بنائے ہوئے قواعدوضوابط اعمال کے اعتبارسے ہروقت چلتے پھرتے ،اُٹھتے بیٹھتے ،کام کرتے ہرفردکی پہرے داری نہیں کرسکتے ہیں۔ اگردُنیابھرکے تمام قوانین نافذ کرنے والے اداروں کی تمام طاقت صرف اِسی کام کیلئے ہی جھونک دی جائے توبھی یہ پہرے داری ممکن نہیں ہے ۔یہ صرف اورصرف خداکاخوف ہی ہے جوہرلمحہ انسان کے دِل ودِماغ میں گھنٹے کی طرح بجتے رہ کراُس کی نیتوں اوراعمال کوراہِ راست پررکھتاہے ۔اُسے بُرائی سے روکتااوراچھائی کی طرف راغب کرتاہے ۔اگربچوں کے ماں باپ ،بزرگ اوراُستاد اخلاقی تعلیم کے وسیلے سے بچوں کی تربیت اورکردارسازی ایماندارانہ ڈھنگ سے انجام دیں توآنیوالے وقت کے ذمہ دار شہریوں ،کارکنوں اورعہدے داروں میں رشوت خوری ،چوری،مکّاری اوربددیانتی کے موذی جراثیم خودبخودکم ہوناشروع ہوجائیںگے۔
اب اگلاسوال یہ ہے کہ بچوں کوکس طرح موثرڈھنگ سے یہ تعلیم دی جاسکتی ہے ۔میراخیال ہے کہ تمام تراخلاقیات کے سوتے مذہبی تعلیم سے پھوٹتے ہیں ۔تمام بڑے مذاہب میں بہت سارے اختلافات کے باوجودکچھ یکساں سچائیاں ہیں ۔ایسی یکساں سچائیوں کواکٹھاکرکے طالب علموں کیلئے اخلاقیات پرمبنی ایک نصاب ترتیب دیاجاناچاہیئے اوروہ بتدریج جماعت اوّل سے لیکربارہویں جماعت تک پڑھایاجاناچاہیئے۔ لیکن ایسانصاب لاگوکرنے سے قبل یہ بات دھیان میں رہنی چاہیئے کہ زیادہ ترمذہبی لٹریچرعربی،سنسکرت اورگورمکھی میں ہے مگرسرکاراورسماج ان زبانوں کے فروغ کیلئے کچھ زیادہ سنجیدہ نہیں ہے ۔اس سلسلے میں تشویش کاباعث اصل رویہ سرکارکانہیں بلکہ سماج کاہے ۔یہ اِس لیے کہ سماج سرکارسے نہیں ہوتابلکہ سرکارسماج سے ہوتی ہے۔اگرسماج چاہے توجمہوری معاشرے میں باآسانی سرکارکی توجہ اس جانب مبذول کرواسکتاہے مگرسماج اس وقت اپنے بچوں کوڈاکٹرانجینئر،بیوروکریٹ یاٹیکنکوکریٹ بنانے کے چکرمیں اتناسرگرداں ہے کہ اُس کے پاس بچے کواچھاانسان بنانے کیلئے سوچنے کی فرصت ہی نہیں ہے ۔
میں اخلاقیات پرمبنی نصاب اوراس کی عمل آوری کی بات کررہاتھا۔میرے کہنے کامقصد یہ نہیں ہے کہ سکولوں یادیگردرسگاہوں کامدرسائی یاپاٹھ شالائی کرن کردیاجائے بلکہ میرے کہنے کامطلب صرف اتناہے کہ بچے جس طرح روزانہ کی بنیادپرسکولوں میں دیگرعلوم کی تعلیم حاصل کرتے ہیں اگراسی طرح روزانہ کی بنیاد پرآدھا گھنٹہ اخلاقیات کی تعلیم مذکورہ زبانوں میں سے کسی ایک زبان میں حاصل کرلیں تو اس میں بُراکیاہے ۔ ہمیں یہ یقینی بناناچاہیئے کہ طالب علم خواہ آرٹس پڑھے ،سائنس پڑھے یاکامرس اُسے اخلاقی تعلیم کے حصول کیلئے مذکورہ مضامین (عربی،سنسکرت،گورمکھی) میں سے کسی ایک کاانتخاب کرنالازمی ہوگا ۔اس نہج پر کم ازکم جماعت بارہویں تک اخلاقیات کاپڑھایاجانالازمی ہوناچاہیئے تاکہ ہمارابچّہ اچھاڈاکٹر ،انجینئر،بیوروکریٹ ،ٹیکنوکریٹ ،تاجر یا سیاست دان بننے کے ساتھ ساتھ اچھاانسان بھی بن جائے۔اخلاقیات پرمبنی نصاب کی تیاری کیلئے ماہرین تعلیم دانشوروں اورمذکورہ زبانوں کے عالموں پرمبنی ایک کمیٹی بناکر یہ کام اُسے سونپ دیاجاناچاہیئے اورپھراُس کمیٹی کی سفارشات کے مطابق یہ نصاب لاگوہوناچاہیئے ۔
رزق صرف اورصرف اللہ دیتاہے اوروہ اپنے نیک بندوں کی دُعائوں کوسنتا اوراُن کی حاجتیں پوری کرتاہے ۔اپنے ایسے صاحب یقین بندوں کواللہ مایوس نہیں کرتا۔وہ ان کے لیے رزق کے دروازے کھول دیتاہے اوروہ ان کے لیے وہاں سے رزق کے اسباب پیداکرتاہے جہاں سے اُنہیں ملنے کاگمان تک نہیں ہوتاہے۔اگراخلاقی تعلیم کے ذریعے بچے کے اندراتناسارایقین پیداہوجائے توآج کابچہ کل کاذمہ دارشہری بن کررشوت خوری ،بدکاری ، عیاّری ،بددیانتی جیسے امراض سے آہستہ آہستہ نجات حاصل کرلے گا۔ ایساکرنے سے معاشرے کے اندر محبت ،خلوص،رواداری اوربھائی چارے کی فضاقائم ہوجائے گی۔نفرت،حقارت،حسد،بغض اورفرقہ پرستی کازورکم ہوناشروع ہوجائے گا۔اس حسین خواب کے شرمندہ تعبیرہونے کی اُمید اِس لیے بھی ہے کہ مذکورہ اخلاقی نصاب کی عمل آوری کی صورت میں آج کاطالب علم یامستقبل کاذمہ دار شہری دوسروں کی سُنی سُنائی باتوں پرعمل کرنے کے بجائے اپنے مذہب کی رُوح سے آشناہوکرحالات اورواقعات کے حوالے سے اپنا فیصلہ خودکرنے کااہل ہوگا ؎
غریب ِشہرہوں سن لے میری فریاد
کہ تیرے سینے میں بھی ہوں قبامتیں آباد
اقبالؒ
فون نمبر 9055551111