ہند پاک سرحدی تنائو اور کشیدگی تادم ِتحریر تھمنے کا نام نہیں لیتی ، جب کہ دوطرفہ گولہ باری کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے فوجیوں کے ساتھ ساتھ عام شہریوں کی لرزہ خیر ہلاکتیں جاری ہیں۔ فرق یہ ہے کہ کبھی یہاں انسانی جانیں تلف ہوتی ہیں ، کبھی وہاں لوگ لقمہ ٔ اجل بن رہے ہیں، کبھی یہاں گھر بار اور مال مویشی تباہیوں کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں ، کبھی وہاں بستیوں اور چوپایوں کی شامت آجاتی ہے ۔ اب یہ برس ہابرس سے روز کا معمول بن چکاہے۔ اس ماراماری اور خون ریزی کو روکنے کے بجائے دونوں ممالک ایک دوسرے کے خلاف تلخ لہجہ استعمال کرکے ایک سانس میں 2003 ء کاجنگ بندی معاہدہ توڑنے کا الزام آپس میںلگاتے رہتے ہیں ، دوسری سانس میں باہم دگر سبق سکھانے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ یہ مجنونانہ سلسلہ آج نہیں بلکہ برسوں سے جاری ہے۔ اور برسوں سے اس عنادورقابت کے چلتے آرپار اَن گنت فوجیوں سمیت ہزاروں عام شہری ہلاک ہوتے رہے ہیں۔ اس بارے میں دونوں طرف سے میڈیا میں اگرچہ شور وغل بھی ہوتارہتا ہے تاہم ایک بار بھی اس ساری گھمبیر صورت حال کے اسباب ومحرکات جاننے اور جنگی جنون کا موثرسدباب کے حوالے سے کوئی سوچ بچار کر نا شجر ممنوعہ بنایا جاچکاہے اور نہ بحالی ٔ اعتماد کے اقدامات کو ترجیح دی جا ر ہی ہے ۔ باجودیکہ اس دھینگا مشتی سے دونوں ممالک خسارہ ہی خسارہ اُٹھارہے ہیں، یہ ایک دوسرے کے خلاف جنگی جنونی کا مظاہرہ کر نے اور دھمکیوں کی بھٹی تپانے میں سبقت لینے میں کوئی بھی مضائقہ نہیں سمجھتے۔ حالاں کہ بدیہی حقیقت یہ ہے کہ جنگ نہ کبھی مسائل کا حل بن سکی ہے اور نہ ہی آگے نکال سکے گی، تاوقتیکہ آپسی مسائل کے حل کی نتیجہ خیز کوششیں نہ کی جائیں ۔ جب تک یہ نہیں کیا جاتا تب تک آر پارجنگی ماحول کا سماں بار بار پیدا ہوتا رہے گا جو عام لوگوں کے علاہ سرحدی علاقوں میں مقیم لوگوںکی زندگیاں اجیرن بناتا رہے گا۔ اس وقت بھی حد متارکہ پر گولہ باری اور جوابی گولہباری سے متاثرہ عوام کے لیے معاملہ دردِ سر ہی نہیں بلکہ قیامت صغریٰ سے کم ثابت نہیں ہورہا۔ ان کے عزیز مر ہے ہیں ، ان کے گھر اُجڑہے ہیں ، ان کی معاشی سرگرمیاں موقوف ہیں ، ان کے اسکول بند ہیں ،ان کی سماجی سرگرمیوں پر اوس پڑی ہے ۔
تاریخ شاہد عادل ہے کہ پاک بھارت تعلقات روزاول سے چند ایک لاینحل مسائل کی وجہ سے خراب چلے آرہے ہیں،ان مسائل میں سرفہرست ’’مسئلہ کشمیر‘‘ ہے ۔ اس دیرینہ سیاسی مسئلے کی وجہ سے آج تک باضابطہ چار لاحاصل ہندپاک جنگیں بھی ہوئیں اور تھک ہارکر امن معاہدے بھی ہوئے مگر ہر بار نہ جنگیں مسئلے کا حل بنیں ، نہ معاہدات معاملہ سلجھا سکے ، اور آتشیں حالات کے گرداب میں سب کچھ الجھتا ہی چلا گیا۔اور اب حال یہ ہے کہ دو جوہری ہمسایوں کے مابین لایعنی جنگی ماحول بر پاہے جس کے انتہائی ناگفتہ بہ نتائج یہاں کی معاشرت ومعیشت پر پڑ رہے ہیں ، لیکن اس قیامت خیزی سے اپنے حقیرمادی فوائد کشید کر نے والے مطلبی یار اور خودغرضی کے منجھے ہوئے کھلاڑی دونوں ممالک کا استحصال کر نے میں پیش پیش ہیں ۔ ہم کھلی آنکھ سے دیکھ رہے ہیں کہ ایک جانب امریکہ برصغیر کے طویل مخمصے میں اپنے مفاد کی روٹیاں کبھی اسلام آباد میںا ور کبھی دلی میں سینک رہاہے اور ودسری طرف چین اپنی پانچوں انگلیاں گھی میںاور سر کڑھائی ڈالے ہوئے ہیں ۔ آج کی تاریخ میں حالت یہاں تک پہنچی ہے کہ بھارت اور پاکستان میں خوف و دہشت کا بازار گرم ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے خون کی پیاسے ہیں، منافرتیں اور شکوک وشبہات اپنی جوبن پہ ہیں۔ اور بچارے عوام الناس ہیں کہ اپنے آپ کو ہر جگہ غیر محفوظ پاتے ہیں۔ حقیقت حال کا آئینہ یہ دکھاتا ہے کہ عملی طور پر پاکستان اور بھارت دہشت اور وحشت کا ماحول متواترقائم رکھنے میں ایک تیسری قوت دخیل ہے ۔ یہ قوت ان دو غریب ملکوں کے جنگی جنون کی آتش پر تیل چھڑکنے کا کام مسلسل کر تی جارہی ہے تاکہ اس کاکام دھندا چلتا رہے۔ اپنا الو سیدھا کر تے ہوئے یہ دونوں ممالک کو ایک ایسی ایسی پٹیاں پڑھاتا ہے کہ دلی ا ور اسلام آباد کو سوائے جنگ وجدل کے افہام وتفہیم میں کوئی تُک نظر آتا ہے نہ صلح جوئی کی کوئی اہمیت ایک آنکھ بھاتی ہے۔ اس تیسری قوت کا مقصد کیا ہے اور وہ بر صغیر میں بد امنی کی آگ کو کیوں سلگائے رکھنا چاہتاہے ، ا س سے اگرچہ دونوں اطراف کے امن پسند ، باشعور شہری اور محبانِ وطن پوار پوار واقف ہیں اور ان میں سے بعضے اکثر وبیشتر اپنی تحریروں اورتقریروں میں اس امر واقع کو اُجاگرکرتے رہتے ہیں لیکن ہماری بدقسمتی دیکھئے، چوں کہ دونوں ممالک کے سیاسی اکابرین اختلافات ا ور کشیدگی ختم نہ کرنے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے ہیں ، اس لئے سیاسی سوجھ بوجھ سے کام لینے کے بجائے نہ ایک دوسرے کو سننے کو یہ تیار ہیں اور نہ ہی کسی مذاکراتی حل کو ماننے پر رضامند ہیں۔ افسوس کہ یہ اپنی انانیت اور ہٹ دھرمی کے خول سے باہر آنے کو تیار ہی نہیں۔
پاک بھارت تعلقات میں آئے روز شدید نوعیت کی تلخ کامیاں اس بات کو سمجھنے کے لیے کافی ہیں کہ کوئی غیبی ہاتھ ہے جو ان دوغریب دیشوں کے درمیان مسلسل دوریاں اور کدورتیں قائم رکھنا چاہتا ہے۔ ستم ظریفی یہ کہ دونوں جانب یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ دوست بدلے جاسکتے ہیںہمسائے نہیں اور اکثر وبیشتر ایک دوسرے سے نیک ہمسائیگی کا رشتہ بنانے کی اہمیت کا بھی ان بااثر لوگوں کو فہم وادراک اور احساس ہے مگر زمینی سطح پر معاملات اُلٹ میں جارہے ہیں۔ اس حوالے سے ایک چشم کشا حقیقت یہ بھی سخت گیر مانے جانے والے وزیراعظم مودی نے حال ہی میں اہلِ پاکستان کو مخاطب کر کے کہاآیئے ہم آپس میںلڑنے بھڑنے کے بجائے جہالت ، ناخواندگی ، افلاس ، بھوک اور بیماری کے خلاف جنگ لڑیں لیکن عملاً حکومتی پالیسیاں ا ور اہداف اس مصالحت کارانہ سوچ کے بالکل ضد میں بن رہی ہیں۔ اگر ان کی تقریر کا یہ جملہ کوئی معنویت رکھتاہے تو اسلام آباد سے مکا ملہ آرائی سے ان کا کلی اجتناب کیا معنی رکھتا ہے کہ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی بھی اپنے والد مفتی سعید کی طرح گھوم گھام کر ہند پاک ڈائیلاگ کا سجھاؤ دینے پر مجبور ہوئیں ؟ انہیں بھاجپا کے کسی دفتری عہدیدار سے جواب دلوایا گیا ابھی حالات اس کے لئے سازگار نہیں ۔ بات صاف ہے کہ اگر اعلیٰ سیاسی سطح پر مفاہمت اور مصالحت کے برخلاف فضا پائی جار ہی ہو تو کیا کہئے؟ اب سوال یہ ہے کہ آخر ایسا کیوں؟ بلاشبہ مصالحانہ لب ولہجہ میں خوش کلامی کر نے والے اگرچہ اصولاً صحیح اور ناقابل تردید بات کہہ دیتے ہیں لیکن پھر چند لمحات گزرتے ہی ہمیشہ کچھ ایسا سنسنی خیز کیوںہو کے رہ جاتا ہے کہ امن پسندی کا پیغام سچ مچ ’’دل کو بہلانے کے لئے غالب ؔ خیال اچھا ہے ‘‘ کے مصداق ثابت ہو کر رہتا ہے اورمعاملہ عملی اعتبار سے خیالی جنت کی تعمیر سے کچھ زیادہ نظر نہیں آتا ۔ عام شاہدہ یہی ہے کہ ہند پاک تعلقات کی سرد مہری ختم ہونے کی جونہی کوئی موہوم امید پیدا ہوتی ہے تو یکایک کچھ تیز طرار آندھی مطلع ٔسیاست وسفارت پر چھا جا تی ہے کہ ساری بساط ہی اُلٹ جاتی ہے اور آناًفاناً الفاظ کی جنگ شروع ہوجاتی ہے ۔ اصل یہ ہے کہ ہند وپاک کو آپس میں دست وگریبان دیکھنے کے لئے ایک ایسی فتنہ پرور غیبی طاقت روز اول سے سرگرم عمل ہے کہ سیاست کاروں کی میٹھی باتیں پلک جھپکتے ہی تلخ لہجے اور کھٹاس میں بدل جاتی ہے ۔ مثلاً لاہور کی لاری کرگل کے چٹانوں سے ٹکراکے ریزہ ریزہ ہوئی کہ ہندو پاک میں مزید دراڑیں اور شگاف پڑ گئے ۔ اسی طرح مودی بغیر کسی پروگرام کے راولپنڈی میں نواز شریف کے گھر گئے تو اگلے ہی چنددن میں پٹھانکوٹ حملے کا ماجرا پیش آیا ۔ بل کلنٹن نے ہند کادور کیا تو چھٹی سنگھ پورہ کا دلخراش واقعہ پیش آیا۔ اس بار مودی مشرق و سطیٰ میں تھے کہ سنجوا جموں کے آرمی کیمپ میں پانچ کشمیری آرمی والوں کی لاشیں گریں۔ایسا پر اسرار طور پر ہر بار ہو تا رہاہے۔ اور ہمیشہ اس کے فوراًبعد دونوں طرف سے تو تو میں میں کی لفظی جنگ شروع ہو تی ہے جو آخر کار سرحدی تنائو کے لاؤ کی حدت میں مزید شدت لاتی ہے ،پھر دنیا کو کنٹرول لائن پر بارود اور گولیوں کی گنگناہٹ سنائی دیتی ہے ، جس کے دوران مزید انسانی جانیں ضائع ہو کر رہ جاتی ہیں۔نتیجہ یہ کہ نہ صرف دونوں جانب فوجی جوانوںکے تابوت ان کے گھروں کو پہنچ جاتے ہیں بلکہ عام انسان بھی اس کی زد میں آکر کرب ناک موت کے شکار ہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد انتقام گیری کا چکر کہیں رُکتا نہیں بلکہ مسلسل گردش کر تا رہتا ہے ۔ اتناہی نہیں بلکہ خطے میں ہلاکت خیز اسلحہ کی دوڑ بھی لگ جاتی ہے کہ کبھی اسرائیل اور کبھی امریکہ، کبھی چین اور کبھی روس کی اسلحہ ساز منڈیاں برصغیر کے ان دو حریف مگر غریب ملکوں کے لئے اپنے ہتھیاروں کے بھنڈار کے پھاٹک کھول دیتی ہیں ۔ بالفاظ دیگر دو کی لڑائی میں تیسرے کی جیت کا عملی نمونہ پیش ہوتا ہے ۔ دونوں ملکوں کو بقائے باہم کی بجائے یہ رنگ میں بھنگ ڈالنے والا کون ہے؟ پاک بھارت کی دوستی میں کس کا نقصان ہے؟ کون نہیں چاہتا کہ برصغیر میں پاک بھارت دو ہمسایہ ممالک کی آپسی دوریاں اور نفرتیں ختم ہو جائیں؟ ان دو ہمسایہ ممالک کے جنگی ماحول سے فائدہ اٹھا کر کون ساحل پر بیٹھے مزے لے رہا ہے؟ اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ پاک بھارت تعلقات اس قدر خراب ہوں کہ خدا نخواستہ ا لفاظ کی جنگ سے نکل کر وہ جوہری جنگ کا misadventure آزمانے پر بے دھڑک کمر بستہ ہوجائے کہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔
بہرحال تاریخ کا فتویٰ یہی ہے کہ جنون ورقابت ملکوں اور قوموں کا نہ ہی کوئی مسئلہ حل کر پاتی ہے اور نہ ہی کبھی کر پائے گی۔ ا س لئے عقل ودانش کا تقاضایہی ہے کہ دیرینہ دردِ سر کشمیر سے نمٹنے کے لیے اسلام آبادا ور حریت پسند کشمیریوں کے ساتھ مل بیٹھ کر اس مسئلے کا منصفانہ ، قابل قبول ، دیرپا اور امن پرور حل جلد از جلد نکالنے کی مخلصانہ کوشش کریں۔ یہ ہوا تو سب گتھیاں خود بخودسلجھ جائیں گی ، کشمیر میں امن آشتی کا سورج طلوع ہوگا ، ہند وپاک شیر وشکر ہوجائیں گے اور تاریخ کی بے تاب آنکھیںآر پار کو نیک ہمسائیگی اور سینہ صفائی کی صورت میں ایک خوشگوار صورت حال کا سماںدیکھیں گی۔ بصورت دیگر اگر خون خرابہ یونہی ہوتا رہا، سرحدوں پر جنگی ماحول بدستور قائم رہا، دھمکیوں کا بازار گرم رہاتو دونوں ممالک کو مکمل جنگ کی سکت وصلاحیت نہ ہونے کے باوجود بے قابو حالات ایسا رُخ بھی اختیارکر سکتے ہیں کہ دونوں ملکوں کا وجود کشمیر سمیت پھر دنیا کو ہیرو شیمااور ناگاساکی کی طرح تاریخ کی گردآلودہ کتابوں میں ڈھونڈنا پڑے گا ۔ اگر خدانخواستہ ایسا ہوا تو یہ پانچویں جنگ، جس کی مخالفت میں اپنے دور حکومت میں جنگی بھاشا میں بات کر نے والے فاروق عبداللہ تک نے بھی ایک بیان داغا، یہ پاک بھارت کے لیے ہی نہیں بلکہ پورے برصغیر کی مکمل تباہی وبربادی کاموجب ہو گا۔ حق یہ ہے کہ دشمنانہ ماحول کی نوعیت آئے روز بدلتی رہتی ہے اور جموں وکشمیر کے نامساعد حالات میں آج تک کئی موڑ آچکے ہیں لیکن آج کی تاریخ میں یہ انتہائی دل شکن بنے ہوئے ہیں۔اس وقت جس ناقابل برداشت صورت حال کا سامنا کشمیر کے عوام کر رہے ہیں ،اس سے صاف جھلک رہا ہے کہ اگر بروقت اور برمحل سیاسی مکالمہ آرائی کی راہ کو اختیار نہ کیا گیا تو مستقبل قریب میں یہاں کے نوجوانوں کے مزاحمتی جذبے میں ’’کرو یا مرو‘‘ کا فلسفہ درآئے گا ، ان کی سرفروشانہ سرگرمیوں میںاتنی شدت آئے گی کہ اس کو کنٹرول کرنا ناممکن العمل بن جائے گا۔ لہٰذا قبل اس کے کہ یہ کم نصیب دن ہمیں دیکھنا پڑے، معاملہ فہمی اور بالغ نظری اسی میں مضمرہے کہ مسئلہ کشمیر کے متفقہ حل کے لئے بیک وقت تینوں فریق ایک غیر متزلزل سیاسی عزم واراے کے ساتھ بامعنی مذاکرات کے لیے سنجیدہ کوششیں شروع کریں اور زندگی کی رعنائیوں سے آشنا ہوجائیں ۔ یہی دونوں ممالک سمیت اہل کشمیر کے لیے سود مندر ہے گا اور اسی سے خطے میں پائیدار امن کی ضمانت بھی فراہم ہوگی،وگرنہ ڈویل داکٹرئین ہو یا آوپریشن آل آوٹ یہ سب اپنے پیچھے صرف ناقابل معافی نقصانات کی ایک کہانی چھوڑیں تو چھوڑیں البتہ لیکن بر صغیر میں امن شانتی اور تعمیر وترقی عنقا رہے گی ، بلکہ کڑاو سچ یہ ہے کہ اپنی اپنی آزادیٔ کے۷۰؍ سالہ تاریخ میں پاک بھارت نے اپنے ملکوں میں جو بھی کوئی تعمیری کام کیا ہو ، وہ بھی چند لمحوںمیں ہمہ گیر تباہی اورتخریب کی بھینٹ چڑھ جائے گا اور اللہ نہ کرے یہ تباہی ایسی ہو لناک ہوگی کہ جس کی بھرپائی صدیوں تک ممکن نہ ہوگی۔