۔21فروری کو دنیا بھر میں مادری زبان کا دن منایا گیا ۔یہ دن کشمیر کے لئے اس لئے اہم تھا کہ کشمیر کی مادری زبان بھی ان مقامی زبانوں میں شامل ہورہی ہے جن کا وجود خطرے میں ہے لیکن اس کے باوجود بھی کشمیر میںکسی کو اس دن کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں تھی ۔سو شل میڈیا پر جو لوگ صونم لوٹس کی موسمی پیشن گوئیوں پر اپنی تحریری صلاحیتوںکے دریا بہاتے ہیں انہیں مادری زبان کا عالمی دن ذرا بھی متوجہ نہیں کرسکا۔کشمیری زبان کی ادبی انجمنوں نے بھی اس بات پر سنجیدہ بحث کیلئے کوئی سمینار منعقد نہیں کیااور نہ کسی قابل ذکر مجلس کا اہتمام کیا کہ کشمیری زبان کے زوال کا سبب کیا ہے ۔ اس کی جگہ کونسی زبان لے رہی ہے ۔ اس کا زندہ رہنا ضروری ہے یا نہیں اور اس کا زوال کشمیر کے سماج ، تہذیب اور ذہن پر کیا اثرات مرتب کررہا ہے ۔مادری زبان کی اہمیت اور افادیت پر بھی کوئی بات نہیں ہوئی حالانکہ کشمیری زبان و ادب اور ثقافت کے ٹھیکیداروں کی کوئی کمی نہیں ہے جو اس مرتی ہوئی زبان کے نام پر سیاست بھی کرتے ہیں اور تجارت بھی ۔اس باریہ دن ان کے ذہنوں سے اتر چکا تھا اس لئے بہت کم بیانات اخباروں میں شائع ہوئے ۔ صرف دو انگریزی اخبارات اور دو کشمیری اخبارات میں اس دن کے حوالے سے خبر شائع ہوئی ۔ کوئی مضمون کسی صاحب قلم سے نہیں لکھا گیا ۔دن گزر گیا اور بیمار مادری زبان کی خبر گیری کا کوئی سبب نہ بن سکا ۔
اردو کے ایک محقق نے مادری زبان کے بارے میں بہت ہی جامع تجزیہ کیا ہے ان کا کہنا ہے کہ زبان وہ ذریعہ ہے جس سے ایک انسان اپنے احساسات ،خیالات اور اپنے جذبات دوسرے انسان تک منتقل کرتاہے۔زبان انسان کے اندر کی نمائندگی کرتی ہے ،یہ مافی الضمیر کے اظہار کاایک اہم ذریعہ ہے۔زبان کے ذریعے انسان اپنی حاجات اور اپنی ضروریات کا بھی اظہار کرتا ہے۔انسانی معاشروں میں بولی جانے والی زبانیں انسانی باہمی ربط و تعلق کی ایک اہم بنیاد ہوتی ہیں۔زبان کے ذریعے جہاں ایک انسان اپنی کیفیات کااظہار کرتاہے وہاں دوسراانسان بھی زبان کے ذریعے سے ہی پہلے کے ما فی الضمیر کاادراک کرتاہے۔کسی انسان کے پاس یہ طاقت نہیں کہ وہ دوسرے انسان کے اندر جھانک کر اسکاانداہ لگاسکے پس یہ زبان ہی ہے جس کے الفاظ انسانوں کو دوسرے انسانوں کے ساتھ تعلق قائم کرنے میں ممدومعاون ثابت ہوتے ہیں۔انسان کی پہلی زبان ’’رونا‘‘ہے۔ماں کے پیٹ سے جنم لے کر وہ سب سے پہلے روتا ہے اور اپنی ضروریات کا رو رو کر اظہار کرتاہے۔اسی رونے میں اسکی بھوک پوشیدہ ہوتی ہے ،اسی رونے میں اسکی پیاس ہویداہوتی ہے،اسی رونے سے وہ اپنی تکلیف اور درد کااحساس دلاتاہے اور اسی رونے سے ہی وہ سوکرجاگنے کااعلان کرتاہے۔اللہتعالی کی شان ہے کہ اس بچے کی سب سے ابتدائی زبان اسکی ماں ہی سمجھ پاتی ہے حالانکہ رونے کے کوئی الفاظ نہیں ہوتے ،رونے کی کوئی تراکیب نہیں ہوتیں اور رونے کے کوئی اصول و قوائدبھی نہیں ہوتے لیکن پھر بھی یہ ایسی زبان ہے جسے بچے کی ماں آسانی سے سمجھ جاتی ہے۔بہت تجربہ کار ڈاکٹر اور طبیب بھی بچے کی جس کیفیت کو نہ سمجھ سکے ماں اسکا بخوبی ادراک کرلیتی ہے،حالانکہ ’’ماں‘‘ نے ’’ماں ‘‘بننے کاکوئی کورس نہیں کیاہوتابس ماں کے سینے میں ایک دل ہوتا ہے جو بچے کے رونے کی زبان کو ماں کے جذبات میں ترجمہ کر کے اس تکلیف کی وضاحت کردیتاہے۔
بچے کی سب سے پہلی تربیت گاہ اسکا سب سے پہلا تعلیمی ادارہ ماں کی گود ہوتی ہے۔ ماں کی گود میں سیکھاہواسبق وہ بڑھاپے کی دہلیزپر بھی بھلانا چاہے تو ممکن نہیں ہے۔ماں کی گود کے اثرات بچے کے ذہن پر ایسے نقش ہو کر پختہ ہوجاتے ہیں جیسے پتھر پر کوئی تحریر کندہ کر کے ہمیشہ کے لیے امر کردی جاسکتی ہے ۔یہ اولین تعلیمی ادارہ بچے کو جس طرف بھی موڑنا چاہے بچہ اس طرف ہی مڑتاچلاجاتاہے۔اسی لیے ہمیشہ یاد رکھے جانے والے سبق کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ وہ انہیں ماں نے دودھ میں پلایاہے۔جنوں اور بھوتوں کا خوف مائیں بچوں کو دودھ میں پلاتی ہیں اور کوئی اس خوف سے مرتے دم تک آزاد نہیں ہوسکتا ۔مادری زبان بھی اسی طرح کاپڑھایاہواسبق ہوتاہے۔ماں کی گود میں بچہ جو زبان سیکھتاہے وہ ماں کی نسبت سے مادری زبان کہلاتی ہے کیونکہ ’’مادر‘‘فارسی زبان میں ’’ماں‘‘کوکہتے ہیں۔زبان سیکھنا ایک طویل مرحلے کامرہون منت ہوتاہے۔کوئی زبان ،اسکے قوائد،اسکی لغت اور اسکے دیگراسرار ورموزایک تھکادینے والا کام ہے لیکن اللہ تعالی کی شان ہے کہ بچہ ماں کی گود میں زبان کے ان سب امور پر یوں دسترس حاصل کر لیتا ہے کہ ساری عمر کے لیے وہ نہ صرف اس زبان کا ماہر بن جاتا ہے بلکہ بعض اوقات تواس زبان کے مصدر تک کی اہمیت حاصل کرلیتاہے۔خاص طور پر ایسے علاقے جہاں کی زبان خالص ہوتی ہے اور دیگرزبانوں کے ساتھ خلط ملط ہوکر وہ زبان اپناآپ گم نہیں کر بیٹھتی توایسے علاقوں میں تو مادری زبان کا واحد وقیع و مستند ذریعہ ماں کی گود اور روٹیاں پکانے والے چولھے کے گرد بچوں کاجھمگھٹاہوتاہے جہاں وہ زبان اپناتاریخی ارتقائی سفر بڑی عمدگی سے طے کر رہی ہوتی ہے۔مادری زبان صرف بولنے تک ہی محدود نہیں ہوتی بلکہ اسکے پس منظر میں اس علاقے کا،اس تہذیب کا،اس ثقافت کا اور انکی روایات کا عظیم اور صدیوں پر محیط ورثہ بھی موجود ہوتاہے۔زبان دراصل کسی بھی تہذیب کا سب سے بڑا اظہار ہوتی ہے۔
مادری زبان میں ہی بچے کو ایک نسل اپنا ماضی منتقل کر رہی ہوتی ہے اور مادری زبان میں ہی ایک نسل اپنے ثقافتی مستقبل کی تعمیر کر رہی ہوتی ہے۔مادری زبان کے محاورے بچے کے مزاج کا پتہ دیتے ہیں ،مادری زبان کی تراکیب انسان کی زبان کے علاقائی پس منظر کا اندزاہ لگانے میں ممدو معاون ثابت ہوتی ہیں اور مادری زبان کی شاعری جو ماں بچوں کو سلاتے ہوئے لوری میں سناتی ہے یا روتے ہوئے بچے کو چپ کرانے کے لیے گنگناتی ہے اور بہت ہی چھوٹی عمر میں کھیل تماشوں میں پڑھے جانے والے ٹوٹے پھوٹے اشعار کسی بھی زبان کی وہ بنیادیں ہیں جن پر اسکا شاندار محل تعمیر ہوتا ہے۔مادری زبان کے معاملے میں کتنی احتیاط پرتی جاتی ہے اس کا اندازہ ہمیں سیرت النبی صلعم کے واقعات سے بخوبی میسر آتاہے۔یہ ایک معاشرتی انسانی حقیقت ہے کہ دیہاتوں کی زبان،دیہاتوں کا لہجہ اور دیہاتوں میں استعمال ہونے والی کسی زبان کے محاورے اور تراکیب شہروں کی نسبت بہت عمدہ اور خالص ہواکرتے ہیں۔عرب قبائل اپنے بچوں کی زبان کی حفاظت کے لیے انہیں بہت ابتدائی عمر میں ہی دیہاتوں میں بھیج دیاکرتے تھے۔اس طرح بچوں کی مادری زبان میں ہونے والی پرورش انکی زبان کے پس منظر میں انکی روایتی و ثقافتی اقدار کی حفاظت کی ضامن ہوجاتی تھی کیونکہ مادری زبان صرف بولنے تک ہی محدود نہیں ہوتی اسکے اثرات انسانی رویوں میں واضح طور پر اثرپذیر رہتے ہیں۔شاید انہی مقاصد کی خاطر آپ صلعم کی پرورش بھی بنواسد کے دیہاتی ماحول میں ہوئی۔اسی طرح دنیا بھر میں ابتدائی تعلیم مادری زبان میں دیے جانے کا انتظام ہوتا ہے کیونکہ بچے کے ذہن میں راسخ الفاظ اسکے اورنظام تعلیم کے درمیان ایک آسان فہم اور زوداثر تفہیم کا تعلق پیدا کر دیتے ہیں۔
مادری زبان میں تعلیم سے بچے بہت جلدی نئی باتوں کو سمجھ جاتے ہیں انہیں ہضم کر لیتے ہیں اور پوچھنے پر بہت روانی سے انہیں دھراکر سنا دیتے ہیں۔مادری زبان میں دی جانے والی تعلیم بچوں کی تعلیمی صحت پر خوشگوار اثرات مرتب کرتی ہے جس کے نتیجے میں وہ خوشی خوشی تعلیمی ادارے میں بھاگتے ہوئے آتے ہیں اور چھٹی کے بعد اگلے دن کا بے چینی سے انتظارکرتے ہیں۔معلم کے لیے بھی بہت آسان ہوتا ہے کہ مادری زبان میں بچوں کو تعلیم دے اسکے لیے اسے اضافی محنت نہیں کرنی پڑتی اور مہینوں کاکام دنوں یا ہفتوں میں مکمل ہوجاتا ہے۔مادری زبان کی تعلیم سے خود زبان کی ترویج واشاعت میں مددملتی ہے ،زبان کی آبیاری ہوتی ہے ،نیاخون داخل ہوتا ہے اورپرانا خون جلتارہتاہے جس سے صحت بخش اثرات اس زبان پر مرتب ہوتے ہیں۔انسانی معاشرہ ہمیشہ سے ارتقائپذیر رہا ہے چنانچہ مادری زبان اگر ذریعہ تعلیم ہو تو انسانی ارتقاء کے ساتھ ساتھ اس علاقے کی مادری زبان بھی ارتقاء پذیر رہتی ہے،نئے نئے محاورے متعارف ہوتے ہیں ،نیا ادب تخلیق ہوتا ہے،استعمال میں آنے والی چیزوں کے نئے نئے نام اس زبان کا حصہ بنتے رہتے ہیں۔جس طرح قوموں کے درمیان اور تہذیبوں اور مذاہب کے درمیان جنگ رہتی ہے اسی طرح زبانوں کے درمیان بھی ہمیشہ سے غیراعلانیہ جنگ جاری رہی ہے ،جوجوزبانیں تعلیم کا ذریعہ بن کر انسانی رویوں میں شامل ہوجائیں وہ اس جنگ میں اپنا وجود باقی رکھتی ہیں بصورت دیگر تاریخ کی کتب اورآثارقدیمہ کے کھنڈرات بے شمار زبانوں کی آخری آرامگاہ کے طور پر اس کرہ ارض پر موجود ہیں۔
آج کی دنیا میںرابطے کے جدید آلات نے دنیا کو ایک گاوں میں تبدیل کردیا ہے اور عالمی رابطوں کا ذریعہ وہی زبان بن رہی ہے جو دنیا کی سب سے بڑی علمی زبان ہے اور وہ زبان بے شک انگریزی ہی ہے یہی وجہ ہے کہ اس زبان کی تہذیب دوسری تمام تہذیبوں کو بڑی تیزی کے ساتھ نگل رہی ہے ۔اس ہمہ گیر یلغار نے بڑی بڑی زبانوں کا وجود خطرے میں ڈال دیا ہے اور ہزاروں کی تعداد میں چھوٹی اور مقامی زبانیں اس یلغار کی زد میں آکر ختم ہورہی ہیں ۔صرف ہندوستان میں چار سو سے زیادہ مقامی زبانیں ختم ہورہی ہیں ۔کشمیری زبان بھی اس یلغار کی زد میں ہے حالانکہ یہ ایک قدیم ترین زبان ہے جس کے پاس لٹریچر کا ایک بڑا خزانہ بھی ہے لیکن یہ زبان صرف بولنے کی زبان ہے پڑھنے کی نہیں ۔اس کے مشکل رسم الخط نے اسکا علمی سفر روک دیا ہے ۔اس کا موجودہ رسم الخط اس کے لہجے کا ساتھ بہتر طور پر نہیں دے رہا ہے ۔
بہت پہلے ماہرین کی ایک ٹیم نے رسم الخط کے بارے میں بہت تحقیق کے بعد تجویز کیا تھا کہ جرمن رسم الخط ہی ایک ایسا رسم الخط ہے جو کشمیری لب و لہجے کے اتار چڑھاو کا بہتر طور پر ساتھ نبھا سکتا ہے لیکن اسے تہذیبی یلغار کی سازش قرار دیکر مذہبی اور سیاسی تنظیموں کی طرف سے مسترد کردیا گیا۔ غالباً ساٹھ کی دہائی میں یہ تجویز سامنے آئی تھی اس کے بعد رسم الخط کی بحث ختم کردی گئی اور موجودہ رسم الخط کو آساں اور بہتر بنانے کی کوششیںبھی نہیں ہوئیں ۔کشمیر ی زبان کو سکولوں سے بھی بے دخل کردیا گیا ۔انگلش میڈیم سکولوں کی بڑھتی تعداد نے عام بول چال کے طور پر اردو کا استعمال کیا اس طرح قصبوں میںان پڑھ مائیں بھی ٹوٹی پھوٹی اردو میں بچوں کے ساتھ بات کرنے لگیں اور اب یہ وبا دیہات کی طرف پیش قدمی کررہی ہے ۔کشمیری کی جگہ عام بول چال کی زبان اردو لے رہی ہے لیکن عام بول چال کے طور پر اردو کا استعمال جتنا بڑھ رہا ہے اردو پڑھنے اور لکھنے والوں کی تعداد اتنی ہی گھٹ رہی ہے ۔اردو کی کتاب اگر کوئی پڑھتا ہے تو اس کی عمر پچاس سال سے کم نہیں ہے ۔نئی نسل اردو بولتی ہے پڑھتی نہیں نہ لکھ سکتی ہے ۔اس لئے بک سٹالوں میں اردوکتابیں رفتہ رفتہ نابود ہورہی ہیں ۔اب لے دے کے پڑھنے لکھنے کیلئے انگریزی ہی باقی رہ گئی ہے لیکن اس زبان میں صرف اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کو ہی مہارت حاصل ہے ۔
عام نوجوان زیادہ سے زیادہ انگریزی میں نوکری کی عرضی لکھ سکتا ہے یا وہ مروجہ جملے بول سکتا ہے جنہیں بولنا فیشن کے زمرے میں شامل ہے ۔اس طرح بحثیت مجموعی یہ قوم ایک بے زبان قوم بن رہی ہے ۔جس کی آنے والی نسلیں نہ رسول میر اور محمود گامی سے متعارف ہوں گی اور نہ ہی اقبال اور غالب سے صرف مٹھی بھر افراد جو اعلیٰ تعلیمی اداروں سے لٹریچر کی ڈگریاں لیکر نکلے ہوں گے جان کیٹس یا شیکسپیرسے واقف ہوں گے ۔انجینئر ، ڈاکٹر ، ایم بی اے بہت ہوں گے لیکن ان میں ایسا کوئی نہیں ہوگا جسے پڑھا لکھا کہا جاسکے ۔علم اصل میں کیا ہے ؟۔ انسان ، انسانی زندگی ، کائینات اور اس کے اسرار سے متعلق نظریات اور وسیع تر سوچ علم ہے اورضروی نہیں کہ علم اعلیٰ تعلیمی اداروں سے ہی حاصل کیا جائے ۔
زندگی اور دنیا کو ذہن کی وسعتوں سے سے جاننا اور سمجھنا بھی علم ہے ۔نہ رابندر ناتھ ٹیگور کے پاس کوئی ڈگری تھی ۔ نہ لل عارفہ کے پاس ، نہ مولانا رومی کے پاس اور نہ ہی شیخ العالم کے پاس لیکن ان کی علمی عظمت سے کون انکار کرسکتا ہے ۔قومیں ایسی عظیم شخصیات کو مادری زبان کے حوالے سے ہی پیدا کرتی ہیں ۔لیکن کشمیر جس نے ایسی بے شمار شخصیات کو اس کے باوجود پیدا کیا ہے کہ اس کی زبان بولی جانے والی زبان تھی ۔اب یہ بولی جانے والی زبان بھی ختم ہورہی ہے اور اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ ایسی کوئی شخصیت یہ قوم پیدا کرسکے اور یہ بھی ممکن نہیں کہ کوئی ایسی شخصیت پیدا ہوسکے جو اس قوم کی رہنمائی اور رہبری کا بار اٹھاسکے کیونکہ مسائل اور معاملات سے متعلق درست سوچ کسی ذہن میں پیدا ہی نہیں ہوسکے گی ۔بے زبانوں کی یہ قوم دنیا میں اندھوں کی طرح بھٹکتی رہے گی ۔ وہ کس طرف جارہی ہے اور کہاں جارہی ہے یہ بھی کبھی سمجھ نہیں پائے گی ۔ایسے حالات پیدا ہوچکے ہیں اگر گہرائی کے ساتھ سوچا جائے تو تقدیر کا وہ اندھیرا ہمارے سامنے ہے جو ہر گزرتے لمحے کے ساتھ گہرا ہوتا جارہا ہے ۔
ماخذ: ہفت روزہ نوائے جہلم سری نگر